Ceasefire violation
پاک بھارت: اَصولی تناظر
پاک بھارت: اَصولی تناظر
سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ چند دنوں میں سر اٹھانے
والے سرحدی تنازعے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا پاکستان نے لائن آف کنٹرول
یا ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزی کی یا یہ بھارت کی جانب سے ہوا؟ اس سلسلے
میں ہمارے سامنے کچھ ایسے اعدادوشمار ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان جنگ
بندی اور اس کی خلاف ورزی سے متعلق مرتب کئے گئے ہیں۔ ماہ جنوری میں چار
بنیادی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ ماہ فروری میں ایک‘ اپریل میں ایک‘ مئی میں دو
لیکن چھوٹے پیمانے پر کئی دیگر خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔ جولائی اگست میں
پاکستان نے الزام عائد کیا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور بھارت
کے زیرکنٹرول (مقبوضہ) کشمیر کے ساتھ عالمی سرحد کی 70 مرتبہ خلاف ورزیاں
کی گئیں۔ سال 2015ء کے دوران اب تک بھارت کی جانب سے بناء اشتعال انگیز
بھاری گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات میں 22 پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان
میں 2 فوجی اور 20 مقامی لوگ شامل ہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ جب
بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس میں بھاری
ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ فائرنگ کا آغاز ہونے کی
صورت میں یہ خونیں سلسلہ کئی روز تک جاری رہتا ہے جس میں اندھا دھند بھاری
ہتھیار بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ رواں ماہ اگست میں گولہ باری کے اس سلسلہ
میں غیرمعمولی شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے اسلام آباد
میں مقیم بھارت کے سفارتی نمائندے کو دفتر خارجہ طلب کیا ہے اور ایک
ہفتیکے دوران اُن کی چوتھی مرتبہ طلبی کی گئی ہے جبکہ بھارت اور پاکستان
دونوں ہی ایک دوسرے پر ’جنگ بندی (سیزفائر)‘ کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات
عائد کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے بھی اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ برداشت اُور صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ امریکہ کے ایک اخبار نیویارک ٹائمز نے پاک بھارت سرحدی کشیدگی کے حوالے سے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو جوہری صلاحیت کے حامل ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے مبصروں پر مشتمل وفود تعینات ہیں۔ 24 جنوری 1949ء کو پہلا وفد تعینات ہوا تھا اور تب سے یہ مبصر پاک بھارت تنازعہ کے تناظر میں پیش آنے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فی الوقت فوجی مبصرین کی کل تعداد 43‘ عالمی سول مبصرین کی تعداد 25 اور ان کے دفاتر کا عملہ جوکہ 47 افراد پر مشتمل ہے‘ تعینات ہے۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے کام کرنے والے ان سبھی اہلکاروں کا تعلق مختلف ممالک سے ہے اور ان میں چلی‘ کورشیا‘ فن لینڈ‘ گھانا‘ فلپینز‘ ری پبلک آف کوریا‘ سویڈن‘ سوئزرلینڈ‘ تھائی لینڈ اور یوروگوئے سے ہے۔
سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی اور وقتاً فوقتاً اشتعال انگیزی کی ابتدأ کون کرتا ہے؟1980ء سے 1982ء تک بطور اقوام متحدہ کے نائب مبصر آسٹریلین فوج کے اہلکار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ برائن کلوؤغلے(Brian Cloughley) تعینات رہے اور بعدازاں گذشتہ چھ برس سے وہ آسٹریلین حکومت کی جانب سے پاکستان میں دفاعی اتاشی کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ جب یہ سوال کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا مرتکب کون ہو رہا ہے پاکستان یا بھارت؟ میں نے برائن کلوؤغلے کے سامنے رکھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں غیرجانبدار مبصروں کو تعینات کرنا ہوگا اور سردست اقوام متحدہ کے غیرجانبدار مبصر تعینات ہیں لیکن بھارت اقوام متحدہ سے تعاون نہیں کر رہا جبکہ پاکستان مکمل تعاون کر رہا ہے۔
سوال: کارگل میں ہونے والا تنازعہ کیا تھا؟ برائن کلوؤغلے: اگر بھارت اقوام متحدہ کے مبصروں کو اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دیتا تو گارکل کا محاذ پیش نہ آتا کیونکہ اقوام متحدہ کے مبصرین ہر قسم کی فوجی یا غیرفوجی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ ہنری وارڈزورتھ لونگ فیلو کا قول ہے کہ ’’اگر ہم اپنے دشمنوں کی خفیہ تاریخ کو پڑھ سکیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر شخص کی زندگی کس قدر غموں اور مشکلات و مصائب سے دورچار ہے اور اسی دکھ کا احساس کرتے ہوئے ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز ہونا چاہئے۔‘‘
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے بھی اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ برداشت اُور صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ امریکہ کے ایک اخبار نیویارک ٹائمز نے پاک بھارت سرحدی کشیدگی کے حوالے سے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو جوہری صلاحیت کے حامل ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے مبصروں پر مشتمل وفود تعینات ہیں۔ 24 جنوری 1949ء کو پہلا وفد تعینات ہوا تھا اور تب سے یہ مبصر پاک بھارت تنازعہ کے تناظر میں پیش آنے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فی الوقت فوجی مبصرین کی کل تعداد 43‘ عالمی سول مبصرین کی تعداد 25 اور ان کے دفاتر کا عملہ جوکہ 47 افراد پر مشتمل ہے‘ تعینات ہے۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے کام کرنے والے ان سبھی اہلکاروں کا تعلق مختلف ممالک سے ہے اور ان میں چلی‘ کورشیا‘ فن لینڈ‘ گھانا‘ فلپینز‘ ری پبلک آف کوریا‘ سویڈن‘ سوئزرلینڈ‘ تھائی لینڈ اور یوروگوئے سے ہے۔
سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی اور وقتاً فوقتاً اشتعال انگیزی کی ابتدأ کون کرتا ہے؟1980ء سے 1982ء تک بطور اقوام متحدہ کے نائب مبصر آسٹریلین فوج کے اہلکار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ برائن کلوؤغلے(Brian Cloughley) تعینات رہے اور بعدازاں گذشتہ چھ برس سے وہ آسٹریلین حکومت کی جانب سے پاکستان میں دفاعی اتاشی کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ جب یہ سوال کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا مرتکب کون ہو رہا ہے پاکستان یا بھارت؟ میں نے برائن کلوؤغلے کے سامنے رکھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں غیرجانبدار مبصروں کو تعینات کرنا ہوگا اور سردست اقوام متحدہ کے غیرجانبدار مبصر تعینات ہیں لیکن بھارت اقوام متحدہ سے تعاون نہیں کر رہا جبکہ پاکستان مکمل تعاون کر رہا ہے۔
سوال: کارگل میں ہونے والا تنازعہ کیا تھا؟ برائن کلوؤغلے: اگر بھارت اقوام متحدہ کے مبصروں کو اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دیتا تو گارکل کا محاذ پیش نہ آتا کیونکہ اقوام متحدہ کے مبصرین ہر قسم کی فوجی یا غیرفوجی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ ہنری وارڈزورتھ لونگ فیلو کا قول ہے کہ ’’اگر ہم اپنے دشمنوں کی خفیہ تاریخ کو پڑھ سکیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر شخص کی زندگی کس قدر غموں اور مشکلات و مصائب سے دورچار ہے اور اسی دکھ کا احساس کرتے ہوئے ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز ہونا چاہئے۔‘‘
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
No comments:
Post a Comment