Thursday, August 27, 2015

Aug2015: Refinement of RTI

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نیت کا فتور
پاکستان تحریک انصاف سے ’اِنصاف کی توقع‘ رکھنے والوں کے لب و لہجے میں بڑھتی ہوئی تلخی و سختی کے باوجود اس بات کا یقین بھی جھلکتا ہے کہ جس طرح صوبائی اسمبلی کے معاملات بشمول اراکین کی کارکردگی کے حوالے سے امور خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور جس انداز میں اِس معزز ایوان کو معلومات تک رسائی کے قانون 2013ء کے دائرہ کار سے الگ کر دیا گیا ہے تو یہ فیصلہ چیئرمین تحریک انصاف کی یقین دہانی کی روشنی میں ضرور واپس لیا جائے گا‘ جس کے بعد کوئی بھی شخص صوبائی اسمبلی کی کاروائیوں‘ قانون سازی کے جملہ مراحل‘ قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی‘ اخراجات (اراکین و ملازمین کی تنخواہیں و مراعات) اراکین کی حاضری وغیرہ جیسے امور کے بارے میں جاننے لء حق کا استعمال کر سکیگے۔ سردست یہ حق صرف اراکین صوبائی اسمبلی کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں اور اگر انہیں اس کا تسلی بخش جواب نہ ملے تو دوبارہ ضمنی سوال یا سوالات بھی اٹھا سکتے ہیں اور اگر پھر بھی جواب نہ ملے تو کھڑے کھڑے ایک ہی سانس میں اپنے استحقاق کے مجروح ہونے کی قرارداد بھی پیش کر سکتے ہیں!

سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت دونوں ہاتھوں سے بجنے والی ایک ایسی تالی کا نام ہے جس میں منتخب نمائندے و حکومتی ادارے‘ عام آدمی کی تسلی و تشفی اور اُس کے لئے سہولیات میں اضافہ کرتے ہیں۔ حکومت اور عوام کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد کا رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لئے طرز حکمرانی میں زیادہ سے زیادہ شفافیت لائی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کا مطلب رازداری سمجھ لیا گیا ہے‘ جو کہ آمرانہ حکومتوں کے ادوار کا خاصہ رہا ہے! یاد رہے کہ معلومات تک رسائی کا قانون صوبائی اسمبلی میں 23جون کو پیش جبکہ 30جون کو منظور کیا گیا لیکن بعدازاں اِس بل کی شق نمبر 28میں ترمیم کردی گئی‘ جس سے صوبائی اسمبلی پر اس قانون کا اطلاق نہ ہونے کی منظوری دے دی گئی۔ سردست ایک تکنیکی دشواری درپیش ہے اور وہ یہ کہ ’معلومات تک رسائی‘ کے قانون میں کی گئی ترمیم کو ایک اُور ترمیم سے ختم کرنے کے لئے جو مسودہ تیار کیا گیا ہے وہ جس معزز رکن اسمبلی نے یہ بل ایوان میں متعارف کرانا ہے وہ بیرون ملک دورے پر تشریف لے گئے ہیں اور اُن کی عدم موجودگی میں یہ ترمیم پیش نہیں کی جاسکتی۔ کیا کسی رکن اسمبلی کا بیرون ملک دورہ اِس قانون سے زیادہ اہم ہے؟ کیا اُنہیں بیرون ملک جانے سے قبل اِس بات کا علم نہیں تھا کہ معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم اُن کی عدم موجودگی کی صورت ممکن نہیں ہو سکے گی؟ کیا حکمراں جماعت کے سربراہ کی یقین دہانی کو اِس قدر ہلکا سمجھا گیا کہ جب فرصت ملی تو اس پر عمل درآمد کر لیا جائے گا؟ کہیں صوبائی ایوان کے معاملات کو صیغۂ راز میں رکھنے کی ہرممکن کوشش کے سلسلے میں تاخیری حربے تو اختیار نہیں کئے جا رہے؟ کیا ہوگا اگر معلومات تک رسائی کے قانون کا اِختیار صوبائی اسمبلی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے اور پھر کوئی منچلہ یہ جاننے کے لئے ایک سادہ کاغذ پر درخواست دے ڈالے کہ تمام اراکین اسمبلی کی تعلیمی اسناد کی نقول فراہم کی جائیں! ظاہر ہے قانون کی رو سے یہ نقول فراہم کرنا ضروری ہوگا لیکن کیا اَراکین اسمبلی چاہیں گے کہ اُن کے تعلیمی کوائف یا منقولہ و غیرمنقولہ‘ اندرون یا بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات منظرعام پر آئیں یا ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگیں؟

اِس مرحلۂ فکر پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ’معلومات تک رسائی‘ کے جس قانون میں ترمیم کی گئی اُس کی ترمیم کو ختم کرنے کے لئے دوسری ترمیم بذریعہ ’پرائیویٹ ممبر بل‘ لائی جارہی ہے۔ اگر حکومت اِس معاملے میں اپنے قول کی طرح عمل میں بھی سنجیدہ ہوتی اور خلوص نیت سے چاہتی کہ ’معلومات تک رسائی‘ کا دائرہ کار صوبائی اسمبلی تک پھیل جائے تو وہ ’پرائیویٹ ممبر بل‘ کی بجائے یہ ترمیم ’گورنمنٹ بل‘ کی صورت بھی لاتی۔ اگر نیت ہوتی تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم‘ اسمبلی کی پہلے سے طے شدہ کاروائی کی تفصیلات (ایجنڈے) میں شامل تو کرلی گئی ہے لیکن یہ ایک طویل عرصے تک ایجنڈے ہی کا حصہ رہے گی‘ جس سے متعلق اگر ذرائع ابلاغ بھی خاموشی اختیار کر لیں تو جلد ہی دیگر قوانین کی طرح یہ بات بھی عوام کی یاداشتوں سے محو ہو جائے گی۔ ’قاعدے قوانین‘ سے متعلق عمومی تاثر یہ ہے کہ ساخت کے اعتبار سے ان میں ایسی شقیں رکھی جائیں تاکہ اگر کبھی بااثر افراد اِس کی زد میں آئیں تو انہیں حسب توقع سہولت رہے۔

یہ طرزعمل صرف صوبائی قانون سازی کی حد تک محدود نہیں بلکہ وفاقی سطح پر قانون سازی کا بھی یہ خاصہ ہے کہ اس کی گرفت بااثر افراد پر ہلکی لیکن عام لوگوں (ہم عوام) پر بھاری ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر احتساب کے قوانین ملاحظہ کیجئے جس میں اربوں روپے کی بدعنوانی کرنے والے لاکھوں روپے ادا کرکے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ عام آدمی اگر چند مہینے کا بجلی بل ادا نہ کرے تو اس کا کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے لیکن جن کے ذمے کروڑوں روپے کے واجبات ہوتے ہیں‘ اُنہیں قواعد میں اتنی ہی زیادہ رعائت دی جاتی ہے! معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں حکومتوں کی ترجیح عوام پر حکومت کرنا اور حکمراں طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو جو لوگ قومی وسائل کی لوٹ مار کرتے‘ تو چند فیصد ادا کر کے باعزت بری نہ ہوتے۔ یہی سبب ہے کہ عوام کی نظروں میں قانون ساز اداروں کی ساکھ کم ترین سطح پر ہے اور اُس سے خوف ہے جب اِن معزز اداروں کے اراکین بھی اپنی باقی ماندہ ساکھ کھو دیں۔ عجب ہے کہ جو زیادہ بڑے پیمانے پر بدعنوانی کرتا ہے‘ جو جتنی بڑی بے قاعدگی میں ملوث ہوتا ہے اُس کی بعداز احتساب حصہ داری بھی زیادہ بنتی ہے! کسی حکومتی ادارے کو یہ اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ عوام کے ٹیکسوں کے جمع ہونے والے پیسے میں خردبرد کرنے والوں کو ’لے دے کر‘ معاف کردیں؟ ایسے جملہ امتیازی قوانین و قواعد کی اصلاح ہونی چاہئے۔ یہ حقیقت بھی ذہن نشین اُور پیش نظر رہے کہ ’معلومات تک رسائی‘ کا قانون شفاف طرز حکمرانی کی منزل نہیں بلکہ اِس کی جانب (درست سمت) میں لیا جانے والا ایسا قدم ہے جو پیچھے کی طرف نہیں بلکہ آگے کی طرف بڑھنا چاہئے۔
Amendment in RTI necessary as KP Govt using the delaying tactics to bring the changes

No comments:

Post a Comment