Friday, August 28, 2015

Aug2015: Trauma Centre for Journalists

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحافت: جذباتی و نفسیاتی صدمات
خیبرپختونخوا اور بالخصوص قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ ’پرخطر حالات‘ کا سامنا رہتا ہے‘ جس کے دو بنیادی محرکات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں برداشت کا عنصر (مادہ) کم سے کم ترین حدوں (سطحوں)کو چھو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت میں اِختلاف رائے کا عملاً اَحترام نہیں کرتیں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں یا انفرادی حیثیت میں صحافیوں کے بارے میں کارکنوں کی ایسی ذہنی تربیت کرتی ہیں (انہیں اکساتی ہیں) کہ وہ صحافتی اداروں یا صحافیوں کو جانی و مالی نقصان پہنچانا ایک جائز فعل سمجھنے لگتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہ حقیقت بھی فراموش کر دیتی ہیں کہ صحافی کسی اِدارے میں سیاہ و سفید کے مالک نہیں ہوتے بلکہ ملازم ہوتے ہیں اور ادارہ جاتی حکمت عملیاں (ایڈیٹوریل اِدارتی پالیسیاں) ترتیب دینے میں اُن کی رائے یا تو فیصلہ سازی میں سرے سے شامل ہی نہیں کی جاتی یا پھر آٹے میں نمک کے برابر اُن سے صرف رائے لے کر مطلع کر دیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کراچی‘ لاہور اور اِسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ’میڈیا منیجرز‘ کہ جنہوں نے خیبرپختونخوا یا قبائلی علاقوں کو خود کبھی قریب سے نہیں دیکھا ہوتا‘ جنہیں اِس خطے کے ناموں تک کی ادائیگی صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں آتی‘ اُن سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فیصلہ سازی میں صحافی کارکنوں کی جان و مال کے تحفظ یا علاقائی (قبائلی) اقداروروایات کو مدنظر (پیش نظر) رکھ پائیں گے! براہ راست نشریات میں جب کسی صحافی سے بات چیت (beeper) لیا جا رہا ہوتا ہے تو پہلے سے بتائے گئے سوالات کے علاؤہ اچانک ایسا سوال پوچھ لیا جاتا ہے جس کا درست جواب اُس صحافی کی جان ومال کو خطرے میں ڈالنے کا مؤجب بنتا ہے۔ اگرچہ یہ رجحان اب کچھ کم ہے تاہم ’نیوز رومز‘ کے دباؤ میں بڑی سے بڑی خبر کی تلاش کرتے ہوئے صحافی اپنی ملازمت بچانے کے لئے بسا اُوقات زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور ایسے کئی ایک واقعات کی مثالیں موجود ہیں‘ جن میں صحافیوں نے اپنے ہم عصروں کو نیچا دکھانے کے لئے صحافتی حدودوقیود (ضابطۂ اخلاق) سے تجاوز کیا!

القصہ مختصر (ریاستی وغیر ریاستی کرداروں کے مفادات کی وجہ سے) شورش زدہ علاقوں میں’غیرجانبدار صحافت‘کرنا بذات جان جوکھوں کا کام ہے اور دوسرا پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران صحافیوں کو اچانک رونما ہونے والے ایسے واقعات سے بھی واسطہ پڑتا ہے‘ جو اُن کے لئے شدید ذہنی و جذباتی صدمات اُور نفسیاتی دباؤ کا باعث بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی معاشرے میں رہنے والے صرف صحافی ہی کیوں نفسیاتی اُور ذہنی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں؟ ماہرین اِس کی کئی ایک وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سرفہرست سخت ملازمتی ذمہ داریاں ہیں‘ جو دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح آٹھ یا بارہ گھنٹے پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ شورش زدہ علاقوں میں کام کرنے والا صحافی ایک ایسا کل وقتی ملازم ہوتا ہے‘ جسے جسمانی ضروریات پورا کرنے مثلاً اپنی نیند پوری کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ دباؤ ’نجی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں‘ کے لئے کام والوں پر رہتا ہے‘ جو روزمرہ کی مصروفیات میں اپنے آپ اُور اپنے اہل خانہ تک کو بھول جاتے ہیں۔ علاؤہ ازیں صحافیوں کی صرف جان ومال ہی کے نقصانات کا اندیشہ نہیں ہوتا بلکہ اُنہیں ’جاب سیکورٹی‘ بھی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی آمدن کے وسائل بارے میں غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں اُور اگر کسی علاقے میں شورش یا دہشت گرد واقعات رونما نہیں بھی ہو رہے لیکن وہاں اگر صحافت کرنے والوں کو اُن کی خدمات کا خاطرخواہ معاوضہ نہیں مل رہا تو ایسے افراد کا ذہنی تناؤ یا دباؤ سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا (جملہ ذرائع ابلاغ) سے تعلق رکھنے والے جز وقتی اُور کل وقتی صحافیوں کے حالات کار‘ اُوقات کار بہتر بنانے کے لئے کئی عالمی تنظیمیں فعال ہیں‘ انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے غیرسرکاری ادارے بھی صحافیوں کے دکھ درد میں وقتاً فوقتاً برابر شریک رہتے ہیں لیکن یہ مسئلہ ’مستقل حل‘ چاہتا ہے جس میں پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کو کلیدی کردار اَدا کرنا ہوگا۔‘‘ اگر صوبائی‘ قومی اور سینیٹ کے معززاراکین کے ’ایڈہاک ریلیف الاؤنسیز‘ مقرر کئے جاسکتے ہیں تو صحافیوں کے لئے ایسے خصوصی الاؤنس کیوں مقرر نہیں کئے جا سکتے؟ صحافیوں کی زندگیوں کا بیمہ اُور انہیں علاج معالجے کے لئے الگ سے خصوصی انشورنس کے تحت تحفظ کیوں فراہم نہیں کیا جاسکتا؟ شورش زدہ علاقوں میں کام کرنے والوں کی حسب حال تنخواہیں اور اضافی مراعات کیوں سرکاری طور پر مقرر نہیں کی جاسکتیں؟

بھوک پیاس‘ خوشی غمی‘ گھریلو اور سماجی زندگی‘ تعلق داریاں‘ اہل و عیال اور عزیزواقارب سے کٹ کر خود کو بہترطرز حکمرانی (گڈگورننس) کے لئے وقف کرنے والوں کو صرف جانی ومالی نقصانات ہی کا اندیشہ نہیں رہتا بلکہ وہ نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار رہتے ہیں اور اِسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے جرمن حکومت کے تعاون سے جامعہ پشاور کے شعبہ نفسیات (سائیکالوجی) اُور شعبہ صحافت (جرنلزم اینڈ ماس کیمونیکیشن) نے صحافیوں کے لئے ’ٹراما سنٹر‘ قائم کیا ہے‘ جہاں انہیں درپیش نفسیاتی مسائل یا اُلجھنوں کو (اگر وہ ان کا اظہار و بیان کریں تو) سلجھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ جرمن حکومت کا نشریاتی ادارہ ’ڈائچے ویلے (Deutsche Welle)‘ جسے عرف عام میں ’ڈی ڈبلیو‘ کہا جاتا ہے‘ جامعہ پشاور کے شعبۂ صحافت کی تکنیکی اِمداد میں سالہا سال سے پیش پیش ہے‘ اور اگر شعبۂ صحافت سے بطور معلم وابستہ ’معلمین‘ کے پاسپورٹ دیکھے جائیں تو اُن کے صفحات پر ’جرمنی‘ امریکہ اُور برطانیہ‘ کے اتنے ہی ویزے لگے ہوئے ملیں گے‘ کہ جتنے کل صفحات ہوں گے۔ المیہ ہے کہ صحافت کی درس و تدریس کے لئے ملازم رکھنے والے سال کا بیشتر وقت بیرون ملک اور باقی ماندہ پاکستان میں تھکاوٹ اُتارنے پر خرچ کرتے ہیں! جرمن حکومت سمیت دیگر فنی تعاون کے خواہشمند ممالک سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ آئندہ شعبۂ صحافت کے کسی معلم کو بیرون ملک معلوماتی یا تکنیکی دورے کے لئے سہولیات فراہم نہ کریں کیونکہ اِس سے شعبۂ صحافت میں تدریس کا عمل بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ تدریسی عملے کی سالہا سال غیرحاضری پر مبنی بے قاعدگی کا نوٹس لینے کی التجا جامعہ پشاور کے چانسلر اور وائس چانسلر صاحبان سے بھی ہے‘ جنہوں نے پورے معاملے سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔

 3مئی 1953ء کو قائم ہونے والا ’ڈی ڈبلیو‘ کا موازنہ دنیا کے قدیم ترین اور ملازمین کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے بڑے ’عالمی میڈیا ہاؤس‘ بی بی سی سے کرنا انصاف نہیں لیکن ’ڈی ڈبلیو‘ کا مقام 18اکتوبر 1922ء سے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے تجربے اور مقبولیت سے کسی طرح کم نہیں اور یہ دونوں ادارے 1942ء سے 1945ء کے درمیان تشکیل پانے والے ’وائس آف امریکہ‘ کی طرح ’غیرجانبدار صحافت‘ کے فروغ اُور عالمی سطح پر اعلیٰ صحافتی اقدار متعارف و عملاً لاگو کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر کوشاں ہیں۔ بہرحال جرمن حکومت کے نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ اور تکنیکی امداد کے ادارے ’جی آئی زیڈ‘ کا جس قدر شکریہ اَدا کیا جائے کم ہوگا جنہوں نے اِبتدأ میں ایف ایم ریڈیو‘ بعدازاں الیکٹرانک میڈیا اور اب ’ٹراما سینٹر کے قیام‘ کے لئے (باردیگر) فراخدالانہ مدد کی ہے لیکن حسب توقع اس کوشش سے ’ورکنگ صحافیوں‘ سے زیادہ مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کا زیادہ بھلا ہوگا!

جامعہ پشاور میں ’صحافیوں کے نفسیاتی و جذباتی مسائل اور صدمات‘ کا علاج اُس وقت تک کافی ثابت نہیں ہوگا جب تک اِس مرض کے زیادہ تر سطحی (اوّل الذکر تمہیدی) اسباب سے متعلق ٹھوس عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ جرمن حکومت کے فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ وہ شعبۂ صحافت کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ شدہ ملازمین کی فنی و علمی تعلیم و تربیت اُور مالی اِمداد کی بجائے ایسی ’کثیرالجہتی حکمت عملی‘ مرتب کرے‘ جس سے پاکستان میں صحافت اُور صحافیوں کی صرف اپنے شعبے سے متعلق محض معلومات و مہارت ہی نہیں بلکہ اُن کے معیار زندگی میں بھی بہتری لانا مقصود ہو۔ 1: صحافتی فرائض کی اَنجام دہی میں کی جانے والی غیرمعمولی کوششوں (تحقیق) کو سراہنے کے سہ ماہی‘ شش ماہی‘ سالانہ اور موضوعاتی مقابلوں کا انعقاد 2: ویب سائٹ‘ بلاگز‘ ریڈیو اُور ٹیلی ویژن کے وسائل (پلیٹ فارم) سے میڈیا رپورٹس کی تشہیر اُور 3: عالمی سطح پر نوجوان صحافیوں کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کرانے کے لئے بیرون ملک دورے کے مواقعوں سے پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کا مستقبل زیادہ محفوظ اور درخشاں بنایا جاسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment