ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تحفظ جنگلی و حیاتی ماحول
تحفظ جنگلی و حیاتی ماحول
دو سال قبل کی بات ہے کہ ضلع ایبٹ آباد کے علاقے ’تاج وال‘ کے بالائی گاؤں
میں ایک خاتون پر تیندوا (کامن لیپرڈ) نے حملہ کیا‘ تو اہل علاقہ سراپا
احتجاج بن گئے۔ جس پر محکمہ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کے اہلکار متحرک ہوئے
اور ذمہ دار تیندوے کی تلاش شروع کردی گئی‘ چند ہی روز میں اُس تیندوے کو
پکڑ لیا گیا لیکن اِس گرفتاری پر مزاحمت کرتے ہوئے آہنی جنگلے پر غصہ
نکالنے کی وجہ سے اُس نے اپنے ’شکاری دانت‘ توڑ ڈالے‘ جس کی وجہ سے وہ ایک
طرح کا معذور ہوگیا اور اب شکار کرنے کے قابل نہ رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی
دیکھ بھال کی ذمہ داری خیبرپختونخوا کے ’محکمۂ جنگلی حیات‘ نے اپنے ذمے لے
لی اور آج سات سے آٹھ سال کا یہ تیندوا وائلڈ لائف ایبٹ آباد (کاکول روڈ)
دفتر کے عقب میں ’رہائش پذیر‘ ہے جسے مبینہ طور پر ہر روز ڈھائی سے تین کلو
مرغی کا گوشت جبکہ ہفتے میں ایک مرتبہ کسی حلال جانور کا ہڈیوں والا گوشت
بطور خوراک دیا جاتا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقے (گلیات) میں ایسے تیندوں کی کل تعداد (آبادی) 50سے 70کے لگ بھگ ہوگی۔ حکام کے مطابق پشاور میں زیرتعمیر ’زولوجیکل گارڈن چڑیا گھر (zoological garden)‘ میں اس تیندوے کو منتقل کیا جائے گا۔ اِس کے علاؤہ 2دیگر کامن لیپرڈز کو ملاکنڈ وائلڈلائف سفاری پارک جبکہ 3 لیپرڈز مانسہرہ میں محکمہ وائلڈ لائف کی نگہداشت میں ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں تیندوے کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں ایک برفانی اور دوسرا کامن لپیرڈ۔ ان کی تیسری قسم ’جاگیوار‘ سندھ میں پائی گئی ہے لیکن اس کے بارے میں مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں۔ بالائی ایبٹ آباد کے پہاڑوں اور یخ بستہ وادیوں میں رہنے والے تیندوے کو پشاور کے میدانی ہواؤں‘ مربوط و چند ماہ انتہائی گرم موسم کی شدت راس آئے گا؟ ماہرین کے مطابق کولڈ بلڈڈ (سردخون) والے تیندوا جانوروں کی ایسی نسل سے تعلق رکھتا ہے‘ جو خود کو ماحولیاتی درجۂ حرارت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ یہ خصوصیت انسانوں میں نہیں لیکن ہر جانور کی اپنی برداشت بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ہی وہ موسم (ماحول) کی سختی برداشت کر سکتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں جنگلی حیات (وائلڈ لائف) اُور حیاتی ماحول (بائیوڈیورسٹی) کے حوالے سے ایک عدد خصوصی حکومتی ادارہ تو موجود ہے لیکن اِس کی کارکردگی مالی و افرادی وسائل کی کمی کے سبب بس اتنی ہی ہے‘ جس سے چند ایک مثالیں پیش کی جا سکیں! محکمۂ وائلڈ لائف 1975ء میں فارسٹ ڈیپارٹمنٹ (محکمہ جنگلات) کے ایک جز کے طور پر قائم کیا گیا جسے 1982ء میں الگ محکمے کی حیثیت دی گئی اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کو اِس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے محکمۂ وائلڈلائف کو رواں مالی سال (2015-16ء) میں غیرمعمولی مالی وسائل اور ترقیاتی منصوبے دیئے ہیں۔ جن سے مختلف ترقیاتی منصوبے بشمول 1: جیوریسک پارک (پشاور) کا قیام‘ 2: سکول آف ٹیکسیڈرمی (پشاور) کا قیام‘ 3: نیشنل پارک منیجمنٹ (چترال‘ ڈی آئی خان‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ) کے نام سے خصوصی حکمت عملی‘ 4: زولوجیکل گارڈن (ماسر فارسٹ شینکیاری مانسہرہ) اور 5: بائیوڈورسٹی پارک (ریجنل فلورا اینڈ فانہ) شملہ ایبٹ آباد مکمل کئے جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ مالی سال 2015-16ء میں وائلڈ لائف و حیاتی ماحول کی ترقی کے لئے کل40 کروڑ مختص کئے گئے ہیں جن میں تین سالہ ’منیجمنٹ آف نیشنل پارکس اِن خیبرپختونخوا‘ کامنصوبہ خاص اہمیت کا حامل ہے جس پر مجموعی طور پر 72کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ ماضی میں محکمۂ جنگلی حیات کو ترقیاتی کاموں کے لئے سالانہ 10سے 12کروڑ ملتے تھے جنہیں بڑھا کر 72کروڑ روپے کرنے کے مثبت ثمرات عملاً نظر بھی آنے چاہیئں۔
محکمۂ جنگلی حیات و حیاتی ماحول کے تحفظ کی ترقی کے لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا و دیگر فیصلہ سازوں کی توجہ چند ایسے امور کی جانب مبذول کرانا ضروری ہے‘ جنہیں ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کرتے ہوئے خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ ایک سال میں 72کروڑ روپے جیسی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی اور یہ رقم یہاں وہاں ’تحلیل‘ ہو جائے گی۔ ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے اِن تجاویز پر ضرور غور ہونا چاہئے۔
1: پیٹرولنگ (گشت) کے لئے الگ سے سٹاف دیاجائے۔ ہر ڈویژن کی سطح پر ایک گشتی سکواڈ ہونا چاہئے۔ جو جدید الیکٹرانک آلات سے لیس ہونے چاہیئں۔
2: جنگلی حیات کے تحفظ میں کیمونٹی (مقامی افراد) کی شمولیت ہونی چاہئے۔
3: ’’وائلڈ لائف آوٹ ریچ پروگرام‘‘ ڈیزائن کرنا چاہئے تاکہ شعور و آگہی کی مہمات کے ذریعے اِس حوالے سے معلومات و حساسیت میں اضافہ کیا جاسکے۔
4: محفوظ علاقوں میں ’گیم منیجمنٹ‘ کی ذمہ داری مقامی سطح پر ’ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر (ڈی ایف اُو)‘ کو ہونی چاہئے جو فی الوقت سیکرٹری اور وزیراعلی کے پاس ہے۔ عام لوگوں کے لئے مشکل ہوتی ہے کہ وہ پرمٹ (اجازت نامہ) حاصل کرنے کے لئے سیکرٹری یا وزیراعلیٰ کے دفاتر تک رسائی کر سکیں۔
5: ہزارہ ہری پور سے شروع ہو کر بھاشہ تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا علاقہ ہے لیکن اِس خطے میں وائلڈلائف کا ’کنزرویٹر‘ نہیں۔ پشاور میں ایک سے زیادہ کنزوریٹر رکھے گئے ہیں‘ جہاں جنگلی حیات نہیں وہاں کنزرویٹرز موجود لیکن جہاں ان کی تعداد اُنگلیوں پر گنی نہیں جا سکتی وہاں ’کنزرویٹر‘ کا نہ ہونا‘ تعجب خیز ہے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ گذشتہ 10برس کے دوران بالخصوص ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں محکمۂ وائلڈلائف کی اضافی اسامیاں (پوسٹیں) تخلیق نہیں کی گئیں جبکہ اس عرصے کے دوران پشاور اور مردان میں کئی اسامیوں پر بھرتیاں کرکے حکمراں جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی مستقبل محفوظ بنائے ہیں!
6: وائلڈ لائف اہلکار مشکل حالات اور پرخطر مقامات پر فرائض سرانجام دیتا ہے۔ جان کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ اس طرح جنگلات اور وائلڈ لائف اہلکاروں کے لئے ’ہارڈ ایریا الاؤنس‘ کے نام سے خصوصی مراعات مرتب کی جائے تاکہ غیرسیاسی اُور تحقیق سے لگن رکھنے والے ذہین لوگ اس شعبے سے وابستہ ہوں۔
7: وائلڈ لائف کا دیگر متعلقہ محکموں اور غیرسرکاری عالمی و مقامی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کاری (لائزان) کا نظام متعارف کرایا جائے۔
8: وائلڈ لائف کی ڈیٹابیس منیجمنٹ ہونی چاہئے۔ اس کا اپنا الگ سے ریسرچ ونگ (شعبۂ تحقیق) ہونا چاہئے تاکہ جنگلی حیات کی آبادی اور لاحق خطرات سے متعلق تازہ ترین معلومات میسر ہوں اور وارننگ جاری کی جا سکیں۔
9: جامعات میں وائلدلائف کی الگ فیکلٹی (اسپیشلائزیشن) ہونی چاہئے۔
10: پرائیویٹ فارمنگ کو رجسٹریشن کے ضبط میں لانا چاہئے تاکہ جانوروں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے اُس کی عملاً حوصلہ شکنی ممکن ہو سکے اور ساتھ ہی جانوروں کی خریدوفرخت کے حوالے سے غیرقانونی کاروبار یا نقل و حرکت پر بھی قابو پایا جاسکے۔
11: لوگوں کی تفریح اور شعور اجاگر کرنے کے لئے جنگلی حیات کے حوالے سے جانوروں کی نمائش‘ اُن کی تصاویر کی نمائش‘ جانوروں کی مصوری کرنے کے مقابلے‘ شکارگاہوں کی شیر‘ گیمز سینچریز کے مطالعاتی دوروں کا سرکاری طور پر یا نجی شعبے کے تعاون سے بندوبست کیا جائے۔
12: وزیراعظم کے پاس اختیار موجود ہے کہ وہ جنگلی حیات کے شکار کی اجازت دے سکتا ہے اور اس کی وجہ سے عرب ممالک سے آنے والے شہزادوں کو کھلم کھلا شکار کرنے کے خصوصی اجازت نامے جاری کئے جاتے ہیں۔ جنگی حیات کے بارے میں بااختیار سیاسی رہنماؤں کو اپنے رویئے تبدیل کرنے چاہئیں۔
13: خیبرپختونخوا محکمۂ وائلڈ لائف کی اپنی ویب سائٹ موجود ہے اگر اس کے ذریعے رضاکاروں کی بھرتی کی جائے تو اس سے بالخصوص گرمیوں کی تعطیلات میں طلباء و طالبات کو صحت مند سرگرمیاں میسر آئیں گی۔
14: ہر ضلع کی سطح پر زولوجیکل پارکس ہونے چاہئیں۔ جس طرح ’آئی ٹی پارکس‘ بنائے گئے ہیں۔
15: محکمہ وائلڈ لائف کا ایک توسیعی شعبہ ہے جس کی مزید توسیع ممکن اور ضروری ہے اور یہ توسیع ریجن کی سطح تک ہونی چاہئے۔
اعدادوشمار کے مطابق ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقے (گلیات) میں ایسے تیندوں کی کل تعداد (آبادی) 50سے 70کے لگ بھگ ہوگی۔ حکام کے مطابق پشاور میں زیرتعمیر ’زولوجیکل گارڈن چڑیا گھر (zoological garden)‘ میں اس تیندوے کو منتقل کیا جائے گا۔ اِس کے علاؤہ 2دیگر کامن لیپرڈز کو ملاکنڈ وائلڈلائف سفاری پارک جبکہ 3 لیپرڈز مانسہرہ میں محکمہ وائلڈ لائف کی نگہداشت میں ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں تیندوے کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں ایک برفانی اور دوسرا کامن لپیرڈ۔ ان کی تیسری قسم ’جاگیوار‘ سندھ میں پائی گئی ہے لیکن اس کے بارے میں مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں۔ بالائی ایبٹ آباد کے پہاڑوں اور یخ بستہ وادیوں میں رہنے والے تیندوے کو پشاور کے میدانی ہواؤں‘ مربوط و چند ماہ انتہائی گرم موسم کی شدت راس آئے گا؟ ماہرین کے مطابق کولڈ بلڈڈ (سردخون) والے تیندوا جانوروں کی ایسی نسل سے تعلق رکھتا ہے‘ جو خود کو ماحولیاتی درجۂ حرارت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ یہ خصوصیت انسانوں میں نہیں لیکن ہر جانور کی اپنی برداشت بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ہی وہ موسم (ماحول) کی سختی برداشت کر سکتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں جنگلی حیات (وائلڈ لائف) اُور حیاتی ماحول (بائیوڈیورسٹی) کے حوالے سے ایک عدد خصوصی حکومتی ادارہ تو موجود ہے لیکن اِس کی کارکردگی مالی و افرادی وسائل کی کمی کے سبب بس اتنی ہی ہے‘ جس سے چند ایک مثالیں پیش کی جا سکیں! محکمۂ وائلڈ لائف 1975ء میں فارسٹ ڈیپارٹمنٹ (محکمہ جنگلات) کے ایک جز کے طور پر قائم کیا گیا جسے 1982ء میں الگ محکمے کی حیثیت دی گئی اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کو اِس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے محکمۂ وائلڈلائف کو رواں مالی سال (2015-16ء) میں غیرمعمولی مالی وسائل اور ترقیاتی منصوبے دیئے ہیں۔ جن سے مختلف ترقیاتی منصوبے بشمول 1: جیوریسک پارک (پشاور) کا قیام‘ 2: سکول آف ٹیکسیڈرمی (پشاور) کا قیام‘ 3: نیشنل پارک منیجمنٹ (چترال‘ ڈی آئی خان‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ) کے نام سے خصوصی حکمت عملی‘ 4: زولوجیکل گارڈن (ماسر فارسٹ شینکیاری مانسہرہ) اور 5: بائیوڈورسٹی پارک (ریجنل فلورا اینڈ فانہ) شملہ ایبٹ آباد مکمل کئے جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ مالی سال 2015-16ء میں وائلڈ لائف و حیاتی ماحول کی ترقی کے لئے کل40 کروڑ مختص کئے گئے ہیں جن میں تین سالہ ’منیجمنٹ آف نیشنل پارکس اِن خیبرپختونخوا‘ کامنصوبہ خاص اہمیت کا حامل ہے جس پر مجموعی طور پر 72کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ ماضی میں محکمۂ جنگلی حیات کو ترقیاتی کاموں کے لئے سالانہ 10سے 12کروڑ ملتے تھے جنہیں بڑھا کر 72کروڑ روپے کرنے کے مثبت ثمرات عملاً نظر بھی آنے چاہیئں۔
محکمۂ جنگلی حیات و حیاتی ماحول کے تحفظ کی ترقی کے لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا و دیگر فیصلہ سازوں کی توجہ چند ایسے امور کی جانب مبذول کرانا ضروری ہے‘ جنہیں ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کرتے ہوئے خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ ایک سال میں 72کروڑ روپے جیسی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی اور یہ رقم یہاں وہاں ’تحلیل‘ ہو جائے گی۔ ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے اِن تجاویز پر ضرور غور ہونا چاہئے۔
1: پیٹرولنگ (گشت) کے لئے الگ سے سٹاف دیاجائے۔ ہر ڈویژن کی سطح پر ایک گشتی سکواڈ ہونا چاہئے۔ جو جدید الیکٹرانک آلات سے لیس ہونے چاہیئں۔
2: جنگلی حیات کے تحفظ میں کیمونٹی (مقامی افراد) کی شمولیت ہونی چاہئے۔
3: ’’وائلڈ لائف آوٹ ریچ پروگرام‘‘ ڈیزائن کرنا چاہئے تاکہ شعور و آگہی کی مہمات کے ذریعے اِس حوالے سے معلومات و حساسیت میں اضافہ کیا جاسکے۔
4: محفوظ علاقوں میں ’گیم منیجمنٹ‘ کی ذمہ داری مقامی سطح پر ’ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر (ڈی ایف اُو)‘ کو ہونی چاہئے جو فی الوقت سیکرٹری اور وزیراعلی کے پاس ہے۔ عام لوگوں کے لئے مشکل ہوتی ہے کہ وہ پرمٹ (اجازت نامہ) حاصل کرنے کے لئے سیکرٹری یا وزیراعلیٰ کے دفاتر تک رسائی کر سکیں۔
5: ہزارہ ہری پور سے شروع ہو کر بھاشہ تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا علاقہ ہے لیکن اِس خطے میں وائلڈلائف کا ’کنزرویٹر‘ نہیں۔ پشاور میں ایک سے زیادہ کنزوریٹر رکھے گئے ہیں‘ جہاں جنگلی حیات نہیں وہاں کنزرویٹرز موجود لیکن جہاں ان کی تعداد اُنگلیوں پر گنی نہیں جا سکتی وہاں ’کنزرویٹر‘ کا نہ ہونا‘ تعجب خیز ہے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ گذشتہ 10برس کے دوران بالخصوص ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں محکمۂ وائلڈلائف کی اضافی اسامیاں (پوسٹیں) تخلیق نہیں کی گئیں جبکہ اس عرصے کے دوران پشاور اور مردان میں کئی اسامیوں پر بھرتیاں کرکے حکمراں جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی مستقبل محفوظ بنائے ہیں!
6: وائلڈ لائف اہلکار مشکل حالات اور پرخطر مقامات پر فرائض سرانجام دیتا ہے۔ جان کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ اس طرح جنگلات اور وائلڈ لائف اہلکاروں کے لئے ’ہارڈ ایریا الاؤنس‘ کے نام سے خصوصی مراعات مرتب کی جائے تاکہ غیرسیاسی اُور تحقیق سے لگن رکھنے والے ذہین لوگ اس شعبے سے وابستہ ہوں۔
7: وائلڈ لائف کا دیگر متعلقہ محکموں اور غیرسرکاری عالمی و مقامی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کاری (لائزان) کا نظام متعارف کرایا جائے۔
8: وائلڈ لائف کی ڈیٹابیس منیجمنٹ ہونی چاہئے۔ اس کا اپنا الگ سے ریسرچ ونگ (شعبۂ تحقیق) ہونا چاہئے تاکہ جنگلی حیات کی آبادی اور لاحق خطرات سے متعلق تازہ ترین معلومات میسر ہوں اور وارننگ جاری کی جا سکیں۔
9: جامعات میں وائلدلائف کی الگ فیکلٹی (اسپیشلائزیشن) ہونی چاہئے۔
10: پرائیویٹ فارمنگ کو رجسٹریشن کے ضبط میں لانا چاہئے تاکہ جانوروں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے اُس کی عملاً حوصلہ شکنی ممکن ہو سکے اور ساتھ ہی جانوروں کی خریدوفرخت کے حوالے سے غیرقانونی کاروبار یا نقل و حرکت پر بھی قابو پایا جاسکے۔
11: لوگوں کی تفریح اور شعور اجاگر کرنے کے لئے جنگلی حیات کے حوالے سے جانوروں کی نمائش‘ اُن کی تصاویر کی نمائش‘ جانوروں کی مصوری کرنے کے مقابلے‘ شکارگاہوں کی شیر‘ گیمز سینچریز کے مطالعاتی دوروں کا سرکاری طور پر یا نجی شعبے کے تعاون سے بندوبست کیا جائے۔
12: وزیراعظم کے پاس اختیار موجود ہے کہ وہ جنگلی حیات کے شکار کی اجازت دے سکتا ہے اور اس کی وجہ سے عرب ممالک سے آنے والے شہزادوں کو کھلم کھلا شکار کرنے کے خصوصی اجازت نامے جاری کئے جاتے ہیں۔ جنگی حیات کے بارے میں بااختیار سیاسی رہنماؤں کو اپنے رویئے تبدیل کرنے چاہئیں۔
13: خیبرپختونخوا محکمۂ وائلڈ لائف کی اپنی ویب سائٹ موجود ہے اگر اس کے ذریعے رضاکاروں کی بھرتی کی جائے تو اس سے بالخصوص گرمیوں کی تعطیلات میں طلباء و طالبات کو صحت مند سرگرمیاں میسر آئیں گی۔
14: ہر ضلع کی سطح پر زولوجیکل پارکس ہونے چاہئیں۔ جس طرح ’آئی ٹی پارکس‘ بنائے گئے ہیں۔
15: محکمہ وائلڈ لائف کا ایک توسیعی شعبہ ہے جس کی مزید توسیع ممکن اور ضروری ہے اور یہ توسیع ریجن کی سطح تک ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment