Sunday, August 30, 2015

Sep2015: Crimes, women & Raksha Hindu festival

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دُوسرا ’روپ‘
خواتین سے متعلق اپنی اِس رائے رجوع کر لیجئے کہ وہ ’صنف نازک‘ ہیں۔ انتہائی ناموافق حالات کار میں بھی اپنی موجودگی اور افادیت ثابت کرنے والی ’باہمت خواتین‘ کی کمی نہیں جو گھر کی چاردیواری سے لیکر عملی زندگی کے پرپیچ راستوں پر رواں دواں اُور شادوآباد ہیں لیکن خیبرپختونخوا پولیس کو یہ مشکل درپیش ہے کہ جرائم میں ملوث خواتین کی تعداد میں گذشتہ چند برس کے دوران غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور خواتین قتل و اغوأ جیسے بڑے جرائم جبکہ چوری‘ ڈکیتی اور راہزنی جیسے عمومی جرائم کی مرتکب پائی گئی ہیں! محکمۂ پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں کل 487 خواتین مفرور قرار دی جا چکی ہیں جن کا تعلق دیگر اضلاع کے علاؤہ 174صوبائی دارالحکومت پشاور‘ 52 مردان اُور 39ضلع کوہاٹ سے ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبائی سطح پر پولیس کو جن مفرور ملزمان کی تلاش ہے اُن کی طویل فہرست میں کل 28ہزار 203 افراد کے نام درج ملتے ہیں! اگر پولیس کا تفتیشی طریقۂ کار اور عمومی و خصوصی (منظم) جرائم کے خلاف تفتیشی طریقۂ کار تبدیل کیا جائے تو مفروروں کی ہر دن طویل ہوتی فہرست کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن خیبرپختونخوا کی سردست ترجیح ’عسکریت پسندوں‘ کے خلاف کاروائیاں ہیں جس کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی جانب توجہ مبذول نہیں کی جا رہی۔ اس سلسلے میں اگر صوبائی حکومت ایک خصوصی تفتیشی دستہ تشکیل دے تو ایسے کئی مفروروں کو باآسانی گرفتار کیا جا سکتا ہے جو پشاور ہی کے مضافاتی علاقوں میں موجود ہیں اور موبائل فون کے ذریعے دھونس‘ دھمکیوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرنے والے آلۂ کاروں و سہولت کاروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

 پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے شہری و دیہی علاقوں کو محفوظ بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہےُ جتنا قبائلی علاقوں میں قائم عسکریت پسندوں کی طاقت کے مراکز تباہ کرنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمام تر توجہ قبائلی علاقوں پر مرکوز رہے اور عسکریت پسند اپنے سہولت کاروں کے ہاں شہری علاقوں میں روپوش رہیں۔ توجہ کیجئے کہ پشاور پولیس کو قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی 2 ہزار 356 ایسی خواتین مطلوب ہیں جنہوں نے جرائم میں معاونت کی یا جرائم کا بذات خود ارتکاب کیا لیکن ایسے ہی کردار والی پشاور کی رہائشی خواتین کی تعداد 9 ہزار 246بیان کی گئی ہے! اور پولیس کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہت سی ایسی خواتین جو مختلف جرائم میں مطلوب ہیں‘ گرفتاری سے بچنے کے لئے بیرون ملک منتقل ہوگئی ہیں۔

جرائم میں چاہے مرد ملوث ہوں یا خواتین‘ صنفی تقسیم پر تفکر سے زیادہ توجہ طلب ’پولیس کے تفتیشی معیار اور نگرانی کے نظام‘ ہونا چاہئے۔ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کے ایسے ترقی یافتہ ماڈلز بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو اگر مصروف بازاروں یا چوراہوں پر نصب کر دیئے جائیں تو سافٹ وئرز کی مدد سے سینکڑوں ہزاروں افراد کی شناخت بھی ممکن ہے اُور اگر کسی نے زیرجامہ اسلحہ چھپا رکھا ہے تو اسلحے کی ساخت و نوعیت بھی خودکار انداز سے معلوم ہو سکتی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے پرانی ٹیکنالوجی (سی سی ٹی ویز کیمروں) کا انتخاب کیا ہے‘ جس سے عمومی نگرانی تو ممکن ہے لیکن اِس سے خاص اہداف یا مقاصد پر مبنی نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ پشاور پولیس کو ہر تھانے کی سطح پر موبائل فون کالز اسکینرز دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ سالہا سال سے ایک ہی تھانے میں تعینات اہلکاروں کے تبادلے کیوں نہیں ہو رہے؟ گشتی پولیس کا نظام فعال کرنے کے لئے مقامی افراد کی بھرتی اُور پولیس و عوام کے درمیان رابطہ کاری (سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی) کی فعالیت کن مصلحتوں کے باعث ممکن نہیں‘ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے! کہیں گھوڑے اور گھاس نے آپس میں دوستی تو نہیں کرلی؟

پس تحریر: ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کی ہندو‘ سکھ اُور جین برادری رواں ہفتے ’رکشا تہوار‘ منا رہی ہے‘ جو بہن بھائی کے رشتے اور ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں ساتھ دینے کے عزم و عہدکی ’سالانہ تجدید‘ سے عبارت ہے۔ یاد رہے کہ ’رکشا بندھن‘ کم و بیش چھ ہزار سال قبل آرائن ثقافت میں منایا گیا جو دریائے سندھ کے کناروں پر آباد تھی اور تاریخی حوالوں کے اعتبار سے راجپوت شہزادئیاں اور ملکہ نے اِس تہوار کی ابتدأ کی تھی‘ جو دیگر ہمسایہ تہذیبوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو خیرسگالی کے طور پر راکھی اُور تحائف اِرسال کیا کرتی تھیں۔

 ہر سال انہی ایام میں پورے چاند کے ساتھ اِس تہوار کے سلسلے میں گورگٹھڑی کے ’شیومندر‘ اُور ’کالا باڑی مندر‘ پشاور میں مرکزی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ اس سال ’رکشا‘ یا ’راکھی بندھن‘ 29اگست سے شروع ہوا‘ جو 6ستمبر تک جاری رہے گا اُور اِس دوران بہنیں بھائیوں کی کلائی پر رنگ برنگے دھاگوں یا چمکدار نمائشی اشیاء کے استعمال سے بنائے گئے سوتی زیورات باندھتی ہیں جس کے جواب میں اظہار تشکر کے طور پر بہنوں کا منہ میٹھا کیا جاتا ہے۔ یہ تقریبات نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ مردان‘ بنوں اُور مانسہرہ میں اِجتماعی جبکہ صوبے کے دیگر حصوں میں اقلیتیں اِسے نجی طور پر منانے کے لئے اہتمام کرتی ہے۔ گھروں اور عبادت گاہوں کو بطور خاص سجایا جاتا ہے‘ اِس دن کی مناسبت سے کھانے پینے کی اشیاء حسب استطاعت تیار کی جاتی ہیں۔ دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے اور صرف یہی نہیں کہ حقیقی بہنیں اور بھائی ہی آپس میں اِس تہوار کی مناسبت سے نیک تمناؤں کا تبادلہ کرتیہیں بلکہ کسی خاندان یا سماجی تعلق کی بنیاد پر رشتوں کو پاکیزگی اور مزید مضبوطی دینے کے لئے ’راکھی‘ باندھی جاتی ہے۔

 ہندو‘ سکھ اُور جین مذاہب کو ماننے والوں کے ہاں خاندان کی اکائی کو مضبوط کرنے میں ’رکشا بندھن‘ تہوار کی اہمیت و کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا بطور ’دین‘ امتیاز یہ ہے کہ اِس میں کسی پر جبر نہیں اُور ہر اقلیت کو اَپنی مذہبی رسومات کی اَدائیگی میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ اُمید ہے کہ ’رکشا بندھن‘ کی تقریبات کا آغاز جس پرامن و پرمسرت انداز میں ہواہے‘ اس کے باقی ماندہ ایام میں خوشیاں بڑھتی چلی جائیں گی۔

No comments:

Post a Comment