Thursday, September 24, 2015

Sep2015: Cyber terrorism

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سائبر دہشت گردی
اَمریکہ سمیت مغربی ممالک کی جانب سے اَراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ سینیٹرز‘ جج صاحبان سمیت منصوبہ بندی جیسے فرائض و ذمہ داریاں ادا کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو پہلے سے طے شدہ ملاقاتوں کے لئے مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیرون پاکستان مختلف شعبوں میں ہونے والی تحقیق‘ جمہوری نظام کے عملی اطلاق و ثمرات کا قریب سے مشاہدہ اُور ہم عصر قانون سازوں سے مسائل پر سیرحاصل تبادلۂ خیال کریں۔ یہ عمل کسی ایک پارلیمانی سال یا سیاسی دور کی حد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ملک کی منتخب سیاسی قیادت کی بلواسطہ و بلاواسطہ تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ سارا سال اور سال ہا سال جاری رہتا ہے۔ حال ہی میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل وفد دورۂ اَمریکہ مکمل کرکے وطن واپس پہچنا‘ تو اُس کا خیرمقدم اُور پندرہ روزہ دورے کے مشاہدات و تجربات پوچھنے کی بجائے خود کو ’تحقیقی صحافت کا علمبردار‘ کہنے والی ویب سائٹ پر یہ بیان جاری کر دیا گیا کہ ’’وفد کے ایک معزز رکن نے امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کی درخواست دی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ آئین کے تحت دوہری شہریت والا کوئی بھی شخص رکن اسمبلی کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا!

خیبرپختونخوا اُور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی کے بارے میں اِس قدر غیرذمہ دارانہ اور بناء تحقیق و تصدیق جاری ہونے والے بیان سے اُن کے حلقۂ انتخاب سمیت عزیزواقارب حتیٰ کہ اہل خانہ کو بھی شدید ذہنی صدمہ ہوا کیونکہ خبر میں درج حقائق سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ انتہاء درجے کا ملنسار‘ غریب پرور‘ سیاسی اثرورسوخ کا حامل اُور سماجی خدمات پر مبنی ماضی رکھنے والے کی جان و مال کو سنجیدہ نوعیت کے خطرات لاحق ہیں اور وہ اِن حالات سے اِس حد تک دلبرداشتہ ہوچکا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہے‘ حالانکہ حقائق اِس کے برعکس ہیں۔ اِس قسم کی ’سنسنی خیز‘ غیرذمہ دار اُور نام نہاد صحافت‘ کرنے والوں کے خلاف مذکورہ رکن قومی اسمبلی نے ’تحریک استحقاق‘ جمع کرانے کے علاؤہ ’ہتک عزت‘ کے قوانین کے تحت قانونی چارہ جوئی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا صحافت کے لئے موجود ضابطۂ اخلاق یا صحافتی تنظیموں کی سطح پر وضع قواعد و ضوابط کا اطلاق اُن تمام ویب سائٹس یا سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سائبر سائٹس یا اکاونٹس) پر بھی ہوتاہے‘ جن کی اکثریت حقائق کو من گھڑت انداز میں توڑ موڑ کر پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں؟
الیکٹرانک (ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ انٹرنیٹ) ہو یا پرنٹ (اشاعتی ادارے)‘ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات کی اپنی الگ الگ ویب سائٹس بھی ہیں تاہم جس طرح ٹیلی ویژن یا ریڈیو چینل اور اخبار شائع کرنے کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے‘ وہ پابندیاں ویب سائٹس کے اجرأ کے لئے نہیں۔ پاکستان میں صحافت کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن اِس آزادئ اظہار کا یہ مطلب و مقصد ہرگز نہیں لینا چاہئے کہ اِسے دوسروں کی کردار کشی یا مخالفت میں استعمال کیا جائے۔چونکہ مذکورہ رکن قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے رکن بھی ہیں‘ اِس لئے توقع ہے کہ ایسی نئی قانون سازی متعارف کرائی جائے گی جس میں 1: صحافت کرنے والی ویب سائٹس کے بھی اخبارات و نشریاتی اِداروں کی طرح اجازت نامہ (ڈیکلریشن) حاصل کرنا ضروری (مشروط) ہوگا۔ 2: ایسے جامع قواعد و ضوابط اُور ضابطۂ اخلاق تشکیل دیا جائے گا جس کی خلاف ورزی کرنے والی ویب سائٹس کو ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ جرمانہ کر سکے گی اور اگر وہ باوجود ’وارننگ (متنبہ کرنے بھی)‘ وہ باز نہ آئے تو ڈومین نیم (Domain Name) ایک خاص مدت کے لئے یا مستقل بنیادوں پر معطل کیا جا سکے گا۔ 3: تحقیقی صحافت چاہے اخبارات یا ٹیلی ویژن کے لئے ہو یا ویب سائٹس کے لئے اُس کا معیار بہتر بنانے اور کسی خبر کو متوازن (balance) بنانے کو لازم و ملزوم قرار دیا جائے۔4: ویب سائٹس کے ذریعے سیاسی و سماجی یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف گمراہ کن خیالات کو ’سائبر کرائمز‘ کے زمرے میں شمار کیا جائے اور اِس الگ قسم کی ’دہشت گردی‘ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ 5: صحافتی (نیوز) ویب سائٹس‘ کے اَجرأ اُور سماجی رابطہ کاری کے لئے الگ نگران مقرر کئے جائیں‘ جنہیں ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘ کے ساتھ منسلک کیا جائے۔6: سائبر پاکستان پریس فاؤنڈیشن اُور پریس کلبوں کی سطح پر ملک گیر بحث و مباحثہ (غوروخوض) کی نشستیں ہونی چاہئیں‘ تاکہ شکوک و شبہات نہ رہیں اور آئینی و صحافتی امور کے ماہرین (سینئر جرنلسٹس) مشترکہ طور پر لائحہ عمل مرتب کریں۔

سیاست ہو یا صحافت‘ عملی اظہار کے اِن دونوں اسلوب کے نتائج حد درجہ برداشت اُور بہرصورت ادب و آداب سے مشروط ہیں۔ سیاست و صحافت کی میزان کے ذریعے تعصبات و اِمتیازات میں اضافے کی بجائے انہیں ختم یا کم تو بہرحال کیا ہی جاسکتا ہے۔ استری کئے ہوئے اُجلے کپڑے زیب تن کرنے سے معطر تن بدن میں پیوست اُور خون میں دوڑنے والی غلاظت کا علاج ممکن نہیں۔ ہمیں فکروعمل کی اصلاح کرنا ہوگی۔ ایک دوسرے کے خلاف بدنیتی پر مبنی روئیوں سے رجوع کرنا ہوگا۔ سوچنا ہوگا کہ مخالفت برائے مخالفت‘ صحافت برائے سنسنی خیزی اور سیاست برائے انتشار نے ہمیں کتنا غیرمحفوظ اور تقسیم در تقسیم کر رکھا ہے اور اس کا فائدہ وہ غاصب قوتیں و حکمراں طبقات اُٹھا رہے ہیں‘ جو ذاتی مفادات کے محور سے بندھے ہوئے ہیں۔ اِن تمام منفی رجحانات نے جمہوریت و طرز حکمرانی کی ساکھ‘ آزادئ اِظہار کے اَسلوب اُور ہمارے ہاں صحافت کی اقدار و اخلاقیات کو مصنوعی اور بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے۔

 دُوسروں کو ذہنی اَذیت میں مبتلا کرکے تسکین محسوس کرنے والوں کو بھی دعوت فکر (حئ علی خیرالعمل) ہے کہ الفاظ بولنے اور لکھنے سے پہلے اُن کے منفی پہلوؤں اور اثرات پر غور کریں۔ جملوں کے نشتر چلانے سے قبل سوچنے کا ہنر اور سلیقہ شعاری میں پنہاں حکمت کے تقاضوں کا ادراک کیا جائے! الگ قسم کے اِنتہاء پسند‘ دہشت گرد‘ ستم گر اور کوششوں سے ستم شعار بننے سے تو کہیں زیادہ سہل ایک ایسا ’انسان‘ بننا ہے‘ جس کے ہاتھ‘ قلم اُور زبان (دست و دہن درازی) سے دوسروں کی جان و مال اُور عزت و ناموس محفوظ ہوں۔
CLIPPING: How cyber terrorism need to tackle by regulating News Websites. #ZarfeNigha #Sep25 #DailyAaj #Peshawar #Abbottabad 

No comments:

Post a Comment