ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
چور دروازے‘ کھڑکیاں‘ روشندان!
چور دروازے‘ کھڑکیاں‘ روشندان!
کیا معاملات طے پا چکے ہیں؟ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن آصف علی زرداری
کے ایک قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین کو مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے جن
درجنوں مقدمات کا سامنا ہے اگر اُن کے ’شریک جرم‘ پر ہاتھ ڈالے بغیر ڈاکٹر
عاصم کو پہلے مرحلے میں علیل اور دوسرے مرحلے میں ضمانت پر رہا کر دیا جاتا
ہے‘ تو پاکستان کی اس سے زیادہ بڑی بدقسمتی نہیں ہو گی۔ بنیادی خرابی یہ
ہے کہ ہمارے ہاں خائن و بددیانتی کرنے والوں کے لئے قانون کے اطلاق اور
انصاف تک رسائی کے مراحل میں ’چور دروازے‘ موجود ہیں جنہیں خود سیاست دانوں
ہی نے قوانین بناتے ہوئے چھوڑا ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن چور
دروازوں‘ کھڑکیوں اُور روشندانوں کو ختم کرنے کے لئے آئین کی اصلاحات بلکہ
تطہیر کی جائے بصورت دیگر چاہے ’نیشنل ایکشن پلان‘ کتنا ہی جامع کیوں نہ
ہوں اس کے ذریعے سیاست اور دہشت گردی و جرائم کے درمیان گہرے تعلق کو ختم
کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
بائیس ستمبر کے روز سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کو اچانک دل کی تکلیف کے باعث نجی ہسپتال منتقل کیا گیا‘ جہاں انہیں مختصر وقت کے لئے اپنی بیوی سے ملنے کی اجازت بھی دی گئی۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل بھی ڈاکٹر عاصم طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے ہسپتال منتقل ہونے کی درخواست کر چکے ہیں لیکن اُن کے طبی معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ تندرست ہیں! منگل کی سہ پہر ہسپتال منتقلی کے بعد سرکاری خرچ پر ڈاکٹرعاصم کا ایکو‘ اِی سی جی اُور سینے کے اَیکسرے کئے گئے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں جھوٹے بیماروں اور بالخصوص ’اعلیٰ و بالا شخصیات‘ کو ایسے امراض لاحق ہوتے ہیں‘ جن کا علاج سرکاری خرچ پر بیرون ملک سے کروایا جاتا ہے اور اگر اپنے ملک میں بھی علاج کیا جائے تو انہیں بہترین سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کیا ’قومی ادارہ برائے امراض قلب‘ سے رجوع کرنے والے کسی عام شخص کا علاج بھی اسی مستعدی‘ توجہ اور اِسی قدر نگہداشت کے ساتھ کیا جاتا؟
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کھرب پتی بننے والے دس افراد میں شامل ڈاکٹر عاصم پر صرف یہ الزام نہیں کہ اُنہوں نے مشیر پیٹرولیم کے عہدے پر فائز عرصے کے دوران اپنے اختیارات کی وجہ سے ہزاروں ارب روپے کے مالی فوائد حاصل کئے یا قومی خزانے کو نقصان پہنچایا بلکہ ’سندھ رینجرز‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’مالی بدعنوانی میں ملوث سیاسی کرداروں نے کراچی (شہر) سمیت سندھ کے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے ساتھ روابط قائم کر رکھے ہیں اور سیاست و جرائم کے درمیان تعلق کو ختم کرنے میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ایک اہم پیشرفت ہے‘ جس پر پیپلزپارٹی کی قیادت کا آگ بگولہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ وہ پھندا جو ڈاکٹر عاصم کے سر پر تلوار کی صورت لٹک رہا ہے اُس کی گرفت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری بھی محسوس کر رہے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ بوکھلاہٹ میں اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ قبائلی علاقوں (فاٹا) سے کراچی تک پورا ملک بند کروا دیں گے اور فوج کا نام لئے بغیر بطور اشارہ یہ بھی کہا کہ اُن کی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی صلاحیت رکھتی ہے‘‘ لیکن یہ بیان داغنے کے بعد اُنہیں متحدہ عرب امارات منتقل ہونا پڑا۔ خود کو عوام کی پارٹی کہنے والی سیاسی جماعت کے کئی اراکین کو اُن کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’زرداری صاحب کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے اور نہ ہی وہ احتساب کے عمل سے خوفزدہ ہیں۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ اگرچہ احتساب کی گرفت میں صرف چند سیاسی کردار ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن بات کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہی تھی۔ جب سندھ رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے جرائم میں ملوث کارکنوں (سیکٹر اراکین) پر ہاتھ ڈالا گیا اور متحدہ کے صدر دفتر (نائن زیرو) کی تلاشی کے دوران انتہائی مطلوب جرائم پیشہ افراد اور غیرملکی اسلحے کے انبار برآمد ہوئے‘ تو یہ عوامی دباؤ سامنے آیا تھا کہ کراچی میں دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور یہی وجہ تھی کہ چھبیس اگست کے روز گرفتاری اُور ستائیس اگست کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے انہیں 90روز کے لئے ’رینجرز‘ کے حوالے کیا تاکہ اُن سے شریک جرم افراد کے بارے میں پوچھ گچھ ہو سکے۔ ابھی ڈاکٹرعاصم بمشکل ایک مہینہ بھی کاٹ نہیں پائے کہ اُنہیں بیماریاں لاحق ہونے لگی ہیں! جب قومی خزانہ لوٹ رہے تھے تو تندرست و توانا تھے۔ جب نجی میڈیکل کالجوں کے قیام کی اجازت اُور اُن کے قواعد میں نرمی کے عوض اربوں روپے بطور رشوت لے رہے تھے‘ اُس وقت اُنہیں کوئی بیماری لاحق نہیں تھی! رینجرز کے بقول ۔۔۔’’ڈاکٹر عاصم کراچی کے میٹھا رام ہسپتال کی ذیلی جیل میں زیرِ حراست تھے جہاں چوبیس گھنٹے ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں اُن کی دیکھ بھال کرتے رہے لہٰذا اُنہیں کسی اضافی طبی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی تمام اراضی کے ماسٹر پلان اور ان اراضیوں پرتعمیرات کی قانونی حیثیت کی جانچ پڑتال جاری ہے اور کراچی میں ان کے ہسپتالوں کی تفصیلات بھی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے طلب کر لی گئیں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عاصم ایک پیچیدہ معمہ ہے‘ جسے حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اُن کی لالچ و حرص صرف انفرادی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ اِس سے حصہ داری پانے والوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔ سال 2009ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر (قانون ساز ایوان بالا کے رکن) منتخب ہونے کے بعد اُنہیں سال 2012 ء میں ’’وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل‘‘ اُور ’’وزیراعظم کا مشیر برائے پیٹرولیم‘‘ جیسے اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ 2012ء میں انہیں سینیٹ سے اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب سپرئم کورٹ نے دہری شہریت پر اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دیا تھا کیونکہ وہ ’کینیڈا کی شہریت‘ بھی رکھتے ہیں! پیپلز پارٹی نے انہیں سال 2013ئکے عام انتخابات کے بعد صوبہ سندھ کے ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ کا چیئرمین مقرر کیا اور جب اُنہیں گرفتار کیا گیا تو وہ اِسی ہائرایجوکیشن کمیشن کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے!
تصویر کا دوسرا‘ زیادہ بھیانک رُخ ملاحظہ کیجئے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت متحدہ عرب امارات منتقل ہو چکی ہے اور پارٹی و صوبائی کابینہ کے اجلاس بھی وہیں طلب کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ’متحدہ عرب امارات‘ کا ہی اِنتخاب کیوں کیا گیا؟ سندھ رینجرز کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق امریکہ حکومت کے خفیہ اِدارے ’سی آئی اے‘ کا دفتر متحدہ عرب امارات میں قائم ہے اُور پیپلزپارٹی اپنے امریکی تعلقات کے بل بوتے پر ڈاکٹر عاصم کا معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمینٹ کے سامنے اپنا احتجاجی دھرنا کسی صورت ختم کرنے سے انکار کردیا تو پشاور کے ایک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے ایک سو پچاس سے زائد زندگیاں ختم کردی جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے اور تحریک انصاف کی قیادت کو مجبوراً 126دن جاری رہنے والے اجتجاجی دھرنے کو ختم کرنا پڑا۔ ڈاکٹرعاصم کی ایک کڑی سے پیپلزپارٹی کی شریک جرم قیادت‘ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور معروف کاروباری شخصیات کی بدعنوانیاں جڑی ہوئی ہیں! جنہوں نے قومی وسائل اور امن وامان کو جھکڑ رکھا ہے۔ رینجرز کے اعلیٰ عہدیدار کے لہجے میں تلخی امنڈ آئی جب اُنہوں نے کہا کہ ’’روپوش ملک دشمنوں سے چھٹکارہ حاصل کئے بناء چارہ نہیں رہا‘ چاہے (خدانخواستہ) اِس کی ’آرمی پبلک سکول پشاور‘ سے بھی زیادہ بڑی قیمت ہی کیوں نہ اَدا کرنی پڑے‘ یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ ایسے تمام چور دروازوں‘ کھڑکیوں اور روشندانوں کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہی پڑے گا۔ قومی وسائل کو لوٹنے اور قومی اِداروں کی تباہی اور اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت و اقتصادی مشکلات کا سبب بننے والے کسی رو رعائت یا آئینی حقوق یا انسانی ہمدردی کے مستحق نہیں ہونے چاہیئں
بائیس ستمبر کے روز سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کو اچانک دل کی تکلیف کے باعث نجی ہسپتال منتقل کیا گیا‘ جہاں انہیں مختصر وقت کے لئے اپنی بیوی سے ملنے کی اجازت بھی دی گئی۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل بھی ڈاکٹر عاصم طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے ہسپتال منتقل ہونے کی درخواست کر چکے ہیں لیکن اُن کے طبی معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ تندرست ہیں! منگل کی سہ پہر ہسپتال منتقلی کے بعد سرکاری خرچ پر ڈاکٹرعاصم کا ایکو‘ اِی سی جی اُور سینے کے اَیکسرے کئے گئے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں جھوٹے بیماروں اور بالخصوص ’اعلیٰ و بالا شخصیات‘ کو ایسے امراض لاحق ہوتے ہیں‘ جن کا علاج سرکاری خرچ پر بیرون ملک سے کروایا جاتا ہے اور اگر اپنے ملک میں بھی علاج کیا جائے تو انہیں بہترین سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کیا ’قومی ادارہ برائے امراض قلب‘ سے رجوع کرنے والے کسی عام شخص کا علاج بھی اسی مستعدی‘ توجہ اور اِسی قدر نگہداشت کے ساتھ کیا جاتا؟
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کھرب پتی بننے والے دس افراد میں شامل ڈاکٹر عاصم پر صرف یہ الزام نہیں کہ اُنہوں نے مشیر پیٹرولیم کے عہدے پر فائز عرصے کے دوران اپنے اختیارات کی وجہ سے ہزاروں ارب روپے کے مالی فوائد حاصل کئے یا قومی خزانے کو نقصان پہنچایا بلکہ ’سندھ رینجرز‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’مالی بدعنوانی میں ملوث سیاسی کرداروں نے کراچی (شہر) سمیت سندھ کے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے ساتھ روابط قائم کر رکھے ہیں اور سیاست و جرائم کے درمیان تعلق کو ختم کرنے میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ایک اہم پیشرفت ہے‘ جس پر پیپلزپارٹی کی قیادت کا آگ بگولہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ وہ پھندا جو ڈاکٹر عاصم کے سر پر تلوار کی صورت لٹک رہا ہے اُس کی گرفت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری بھی محسوس کر رہے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ بوکھلاہٹ میں اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ قبائلی علاقوں (فاٹا) سے کراچی تک پورا ملک بند کروا دیں گے اور فوج کا نام لئے بغیر بطور اشارہ یہ بھی کہا کہ اُن کی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی صلاحیت رکھتی ہے‘‘ لیکن یہ بیان داغنے کے بعد اُنہیں متحدہ عرب امارات منتقل ہونا پڑا۔ خود کو عوام کی پارٹی کہنے والی سیاسی جماعت کے کئی اراکین کو اُن کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’زرداری صاحب کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے اور نہ ہی وہ احتساب کے عمل سے خوفزدہ ہیں۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ اگرچہ احتساب کی گرفت میں صرف چند سیاسی کردار ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن بات کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہی تھی۔ جب سندھ رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے جرائم میں ملوث کارکنوں (سیکٹر اراکین) پر ہاتھ ڈالا گیا اور متحدہ کے صدر دفتر (نائن زیرو) کی تلاشی کے دوران انتہائی مطلوب جرائم پیشہ افراد اور غیرملکی اسلحے کے انبار برآمد ہوئے‘ تو یہ عوامی دباؤ سامنے آیا تھا کہ کراچی میں دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور یہی وجہ تھی کہ چھبیس اگست کے روز گرفتاری اُور ستائیس اگست کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے انہیں 90روز کے لئے ’رینجرز‘ کے حوالے کیا تاکہ اُن سے شریک جرم افراد کے بارے میں پوچھ گچھ ہو سکے۔ ابھی ڈاکٹرعاصم بمشکل ایک مہینہ بھی کاٹ نہیں پائے کہ اُنہیں بیماریاں لاحق ہونے لگی ہیں! جب قومی خزانہ لوٹ رہے تھے تو تندرست و توانا تھے۔ جب نجی میڈیکل کالجوں کے قیام کی اجازت اُور اُن کے قواعد میں نرمی کے عوض اربوں روپے بطور رشوت لے رہے تھے‘ اُس وقت اُنہیں کوئی بیماری لاحق نہیں تھی! رینجرز کے بقول ۔۔۔’’ڈاکٹر عاصم کراچی کے میٹھا رام ہسپتال کی ذیلی جیل میں زیرِ حراست تھے جہاں چوبیس گھنٹے ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں اُن کی دیکھ بھال کرتے رہے لہٰذا اُنہیں کسی اضافی طبی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی تمام اراضی کے ماسٹر پلان اور ان اراضیوں پرتعمیرات کی قانونی حیثیت کی جانچ پڑتال جاری ہے اور کراچی میں ان کے ہسپتالوں کی تفصیلات بھی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے طلب کر لی گئیں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عاصم ایک پیچیدہ معمہ ہے‘ جسے حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اُن کی لالچ و حرص صرف انفرادی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ اِس سے حصہ داری پانے والوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔ سال 2009ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر (قانون ساز ایوان بالا کے رکن) منتخب ہونے کے بعد اُنہیں سال 2012 ء میں ’’وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل‘‘ اُور ’’وزیراعظم کا مشیر برائے پیٹرولیم‘‘ جیسے اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ 2012ء میں انہیں سینیٹ سے اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب سپرئم کورٹ نے دہری شہریت پر اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دیا تھا کیونکہ وہ ’کینیڈا کی شہریت‘ بھی رکھتے ہیں! پیپلز پارٹی نے انہیں سال 2013ئکے عام انتخابات کے بعد صوبہ سندھ کے ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ کا چیئرمین مقرر کیا اور جب اُنہیں گرفتار کیا گیا تو وہ اِسی ہائرایجوکیشن کمیشن کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے!
تصویر کا دوسرا‘ زیادہ بھیانک رُخ ملاحظہ کیجئے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت متحدہ عرب امارات منتقل ہو چکی ہے اور پارٹی و صوبائی کابینہ کے اجلاس بھی وہیں طلب کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ’متحدہ عرب امارات‘ کا ہی اِنتخاب کیوں کیا گیا؟ سندھ رینجرز کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق امریکہ حکومت کے خفیہ اِدارے ’سی آئی اے‘ کا دفتر متحدہ عرب امارات میں قائم ہے اُور پیپلزپارٹی اپنے امریکی تعلقات کے بل بوتے پر ڈاکٹر عاصم کا معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمینٹ کے سامنے اپنا احتجاجی دھرنا کسی صورت ختم کرنے سے انکار کردیا تو پشاور کے ایک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے ایک سو پچاس سے زائد زندگیاں ختم کردی جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے اور تحریک انصاف کی قیادت کو مجبوراً 126دن جاری رہنے والے اجتجاجی دھرنے کو ختم کرنا پڑا۔ ڈاکٹرعاصم کی ایک کڑی سے پیپلزپارٹی کی شریک جرم قیادت‘ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور معروف کاروباری شخصیات کی بدعنوانیاں جڑی ہوئی ہیں! جنہوں نے قومی وسائل اور امن وامان کو جھکڑ رکھا ہے۔ رینجرز کے اعلیٰ عہدیدار کے لہجے میں تلخی امنڈ آئی جب اُنہوں نے کہا کہ ’’روپوش ملک دشمنوں سے چھٹکارہ حاصل کئے بناء چارہ نہیں رہا‘ چاہے (خدانخواستہ) اِس کی ’آرمی پبلک سکول پشاور‘ سے بھی زیادہ بڑی قیمت ہی کیوں نہ اَدا کرنی پڑے‘ یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ ایسے تمام چور دروازوں‘ کھڑکیوں اور روشندانوں کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہی پڑے گا۔ قومی وسائل کو لوٹنے اور قومی اِداروں کی تباہی اور اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت و اقتصادی مشکلات کا سبب بننے والے کسی رو رعائت یا آئینی حقوق یا انسانی ہمدردی کے مستحق نہیں ہونے چاہیئں
![]() |
PPPP using America pressure to get release of Dr.Asim, arrested on corruption charges |
No comments:
Post a Comment