Tuesday, September 22, 2015

Sep2015: Neglected secuirty!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بھولنے کی عادت!
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے روز پشاور کے ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے حملے سے اگر کوئی سبق (نتیجہ) اخذ کر لیا گیا ہوتا‘ تو بڈھ بیر میں اَہم دفاعی تنصیب پر حملہ نہ ہوتا یقیناًسکول حملہ صرف ہماری یادوں کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے اُور اُمید کی جاسکتی ہے کہ رواں ہفتے جبکہ پاکستان ائرفورس کے بیس کیمپ حملے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جارہا ہے اور اِس سلسلے میں اعلیٰ سیاسی و فوجی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے دہشت گردوں کے بارے میں ثبوت افغان حکومت کو ہاتھوں ہاتھ دیں گے تو کیا ہم افغان حکومت کو اتنا بااختیار اور زمینی حقائق سے لاعلم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے فراہم کردہ ثبوت دیکھ کر حیران ہو جائے گی اور فوری کاروائی کرتے ہوئے اُن تمام عسکریت پسندوں کا صفایا کردے گی جو کم و بیش دو ہزار دو سو پچاس کلومیٹر طویل پاک افغان سرحدی علاقے میں روپوش ہیں!

جن لوگوں کو افغانستان کے صدارتی محل جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہاں کی سب سے خاص بات ’مہمان نوازی‘ ہے۔ انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں‘ مشروبات سے تواضع اُور رکھ رکھاؤ میں افغانوں کا کوئی ثانی نہیں۔ پاکستان کا ایک اور وفد مہمان نوازی سے لطف اندوز تو ہوسکتا ہے لیکن بھارت نواز شمالی اتحاد کے کرداروں کی افغان فیصلہ سازی پر اثرورسوخ سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ شواہد قابل تردید ہوں یا ناقابل تردید اُنہیں افغان حکومت کے سپرد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے جس سے نمٹنا اُس کے بس کی بات دکھائی نہیں دے رہی اور دوسری بات یہ ہے کہ بڈھ بیر حملہ آور میں ایسے پانچ افراد کی نشاندہی بطور ’پاکستانی‘ ہوئی ہے جن کا تعلق خیبرایجنسی اور سوات سے ہے۔ اگر وزارت داخلہ یہ معلومات خفیہ رکھتی تو عین ممکن تھا کہ سارے کا سارا الزام افغانستان کے سر تھوپ دیا جاتا لیکن چونکہ ہمارے اپنے لوگ بھی اس میں ملوث پائے گئے ہیں‘ اِس لئے ہو سکتا ہے کہ افغان حکومت کا جواب یہ ہو کہ پاکستان اپنی مرغیوں کی نگہبانی خود کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ تو دوسرے کے گھر جا کر انڈہ دیں گی اور نہ ہی اپنے ہی گھر میں برگ و بار کی دشمن ہوں گی! یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے کہ کسی حساس علاقے کی نگرانی کرنے والے مسلح‘ انتہائی تربیت یافتہ فوجی دستے‘ کانٹے دار تار‘ نگرانی کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے اُور چودہ فٹ کی اونچی دیوار اگر حملہ آوروں کا راستہ نہیں روک سکتی تو پھر ہمیں اُن اسباب و محرکات کو تلاش کرنا ہوگا جو دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں۔ صورتحال کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ کچھ بھی خارج از امکان نہ سمجھا جائے۔ آئے روز مشرق یا مغرب میں کسی ہمسایہ ملک کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے ’بڈھ بیر کیمپ‘ کی سیکورٹی کرنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ کوئی بھی حملہ آور چاہے وہ جتنا بھی ذہین یا تربیت یافتہ کیوں نہ ہو‘ وہ اس قدر بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی نہیں کرسکتا جب تک کہ اندر سے کوئی اُس کے ساتھ نہ ملا ہو۔ ایسے کئی واقعات میں فوج کے اپنے اہلکار بھی ملوث پائے گئے جن کے کورٹ مارشل کے بعد سزائیں بھی ہوئیں۔ دوسری اہم بات دہشت گردوں کو ملنے والے مالی وسائل ہیں جس کے لئے ’ہنڈی‘ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ پشاور کے چوک یادگار کی ’ضرب صرافہ مارکیٹ‘ میں کھلے عام ہنڈی کا کاروبار ہوتا ہے اور یہ بات سوائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سبھی کو دکھائی دے رہی ہے۔ کرنسی ایکسچینج کے نام سے دس بڑے ڈیلرز ہی کی مثال لیں جن کے اثاثے اگر اربوں میں ہیں تو اُنہوں نے افغان جنگ کے آغاز سے اب تک اس قدر سرمایہ کیسے کمایا؟ وہ جنگ جس نے صرف افغانستان اور پاکستان ہی کو نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و امان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے‘ اُس پر تیل ڈال کر بھڑکانے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے۔

خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی نے اکیس ستمبر کے روز جملہ اہم تنصیبات اور افراد کے حفاظتی انتظامات کا ازسرنو جائزہ لینے اور شہری و دیہی علاقوں میں فوج کی ہمراہ ’سرچ آپریشن‘ کرنے کے احکامات جاری کئے جو اپنی جگہ اہم فیصلہ ہے لیکن جب تک عسکریت پسندوں کو ملنے والے مالی وسائل (اکنامک لائف لائن) پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا‘ اِس داخلی محاذ پر کامیابی ممکن ہی نہیں۔ کیا ہمارے خفیہ ادارے اِس بات کی تحقیق نہیں کر سکتے کہ چند منٹوں میں ہنڈی کے ذریعے لاکھوں روپے وصول کرنے والے کون لوگ ہیں اور ایسے کرنسی ڈیلرز کی تعداد و کاروباری تعلقات کی نوعیت کیا ہے جو منٹوں میں کروڑوں روپوں کی ادائیگی کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟

حال ہی میں کراچی کے ایک پوش علاقے میں دہشت گردوں کا ایک ایسا سہولت شخص پکڑا گیا جو ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ کے پرآسائش مکان میں مقیم تھا‘ اُور کرائے سمیت اُس کے جملہ اخراجات کسی بھی طرح پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے کم نہیں تھے۔ اگر پشاور شہر اور صوبے کے دیگر پوش علاقوں میں رہنے والوں کے کوائف جمع کئے جائیں اور گھر گھر تلاشی لی جائے تو حیران کن نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔ دہشتگردوں کی تلاش میں کچی بستیوں کی خاک چھاننے والوں کو اپنی حکمت عملی اُسی طرح تبدیل کرنا ہوگی‘ جس طرح عسکریت پسندوں نے حالات کی نزاکت اور سیکورٹی اداروں کے ظاہری غم و غصے کو بھانپ لیا ہے۔ علاؤہ ازیں ضرورت پولیس اور عوام کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی کو ختم کرنا بھی ہے۔ معاشرے کی کسی بھی سطح پر لوگوں سے پوچھ لیں کہ کیا وہ کسی مشتبہ فرد یا واردات کے عینی شاہد ہونے کی صورت پولیس کو تفصیلات سے آگاہ کرنا پسند کریں گے تو اُن کا بلاتوقف فوری جواب انکار ہوگا۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب عشرت سینما روڈ (گل بہار) کے ایک رہائشی نے تھانہ گلبہار کے لینڈلائن نمبر پر مسلح گروہ کی نشاندہی کی تو پولیس اہلکاروں کی آمد سے مطلع حملہ آور واردات مکمل کرنے کے بعد پورے اطمینان سے فرار ہوئے‘ جس کے بعد پولیس کی درجنوں گاڑیاں اور مستعد اہلکار پہنچے۔ ایک معلوم واردات کے بارے میں صرف بیانات ہی مل سکے اور حسب توقع شواہد نامی کوئی سراغ نہیں لگا! سالہا سال سے تھانہ جات میں تعینات پولیس اہلکاروں کے اثاثہ جات کی چھان بین کون کرے گا؟ پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ بحال کرنے کے ساتھ ’کیمونٹی پولیسنگ‘ بھی درکار ہے جس میں عام آدمی اپنی آنکھیں کھلی رکھے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ کچھ غیرمعمولی دیکھے تو اس کی اطلاع کس پولیس سے کرے؟ دہشت گردی کے الگ الگ سماجی و تاریخی پس منظر اور اس کی آڑ میں جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں سیکورٹی اداروں کی وردیاں (یونیفارم) باآسانی دستیاب ہوں! جہاں انتہاء پسندی کو فروغ دینے والوں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا شمار ہی ممکن نہ ہو اُور جس ملک کے سیکورٹی اِداروں کی یاداشت کمزور ہو‘ وہاں صرف کمزور طبقات ہی کی نہیں بلکہ ہر خاص و عام کی جان و مال‘ عزت و ناموس خطرات سے دوچار جبکہ ملک کی ساکھ یونہی داؤ پر لگی رہے گی!

No comments:

Post a Comment