Tuesday, September 1, 2015

Fundamentalism

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَصولی بات!
خیبرپختونخوا میں ’مقامی حکومتوں کے قیام کا مرحلہ‘ اُن ’حلف ناموں‘ پر اکثریت کے دستخط ثبت ہونے سے مکمل ہوا ہے‘ جن کے الفاظ پر ’نومنتخب ناظمین و نائب ناظمین اور دیگر عہدیداروں‘ نے زیادہ غور کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اِس قسم کے حلف نامے کاغذی کاروائی سے زیادہ اہمیت یا وقعت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک صفحے پر لکھی ہوئی عبارت کے الفاظ مشینی اَنداز میں رٹے رٹاے جملوں کی طرح اَدا کرنے کے بعد مبارکبادوں کا تبادلہ ہوا‘ تصاویر بنائی گئیں اُور بس! لمحۂ فکریہ تھا کہ 29 اور 30اگست کو بے لوث و بلاامتیاز خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہزاروں کی تعداد میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ایک نئے عہدنامے کو من وعن تسلیم کیا‘ جس میں یہ بھی تحریر تھا کہ وہ سیاسی وابستگیوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور سخت گیر قسم کے مالی نظم وضبط کو بہرصورت ممکن بنائیں گے۔ اِس قسم کے حلف ماضی میں بھی پڑھے گئے لیکن اُس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ وجہ یہ تھی کہ اگر سیاست خدمت کے شعوری سفر کی سمت نما ہوتی‘ اگر سیاست بے لوث ہوتی‘ تعصبات اور امتیازات پر یقین نہ رکھتی تو پھر مقامی حکومتوں کا پورا نظام غیرسیاسی بنیادوں پر تشکیل پاتا۔ آخر ہم ہر چیز میں کہیں نہ کہیں سے قومی سطح کی اُن سیاسی جماعتوں کا عمل دخل کیوں شامل کر دیتے ہیں‘ جن کے اصول یہ ہیں کہ ذاتی مفاد کے علاؤہ کوئی اصول نہیں۔

صوبہ سندھ یا پنجاب میں مراکز رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے نظریات اُور مرکزی فیصلہ سازوں کی مرتب کردہ ترجیحات کس طرح خیبرپختونخوا کے دیہی و شہری علاقوں کے لئے بھی یکساں موزوں ہو سکتی ہیں!

سیاست امتیازات کا خلاصہ ہے۔ عام انتخابات کسی ایک سیاسی جماعت کی دوسری سیاسی جماعت پر عددی برتری ثابت کرنے کے لئے ’ناپ تول کا ایسا نظام‘ ہے جس میں معاشرے کی اصلاح کا نکتۂ نظر‘ مسائل کے حل کے لئے تعمیری و تخلیقی سوچ اُور سماجی و معاشرتی تعمیروترقی کے ماہرین کے لئے جگہ نہیں بلکہ اِس میں زندہ باد‘ مردہ باد کہنے یا اپنے حق میں کہلوانے اُور مالی وسائل سے سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے نت نئے امکانات کی کبھی بھی کمی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں آمرانہ حکومتوں کی سیاہ شب سے فائدہ اُٹھانے والے جمہوریت کا سورج طلوع ہوتے ہی نیا چہرہ لیکر پھرسے حکمراں جماعت کا حصہ بن گئے۔ جب دوسری مرتبہ قومی وسائل کی لوٹ مار سے دل نہ بھرا تو وہ ’تبدیلی والوں کے ساتھ ہو لئے۔ یہ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ایک ہی خاندان کے افراد‘ بلکہ ایک ہی کاروبار میں حصہ دار مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں اور یوں کسی نہ کسی کی حکومت سے اُن کی حرص و طمع کو تسکین ملتی رہتی ہے! (کسی اُور منزل فکر پر برصغیر کے اُن ٹھگوں کا ذکر کیا جائے گا‘ جنہوں نے دس لاکھ سے زائد مسافروں کا گلہ گھونٹ کر قتل کیا اُور جو لوٹ مار کو بطور وراثت نسل در نسل منتقل کرتے تھے۔)

سیاست کی منڈی میں اصول پرستی کا سکہ اور نظریات کے کرنسی نوٹ نہیں چلتے۔ جملہ لین دین مفادات (کچھ دو‘ کچھ لو) کے سادہ اصولوں کے تحت طے کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں سے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کا عمل تو مکمل ہوگیا لیکن اس سے جمہوریت کے مضبوط ہونے کی اُمید رکھنا خودفریبی کا تسلسل ہوگا‘ کیونکہ قانون ساز ایوانوں کے لئے عام انتخابات سے مقامی حکومتوں کے چناؤ تک کے مراحل پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سبقت ثابت کرنے کے لئے اُن ’ہیوی ویٹ (electable)کرداروں‘ کا انتخاب کرتی ہے جو ’انتخابات لوٹ سکیں!‘ کسی بھی سیاسی جماعت میں دانشور طبقات کی موجودگی تو ممکن ہے لیکن فیصلہ سازی اور قیادت میں اُن کی رائے کا شامل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہی سبب رہا ہے کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کی ’کور کمیٹیاں‘ دکھائی دیتی ہیں جس میں کسی جماعت کے سربراہ کی ’ہاں میں ہاں‘ ملانے والوں کو بلند منصب و تکریم سے نوازہ جاتا ہے۔

 اگر سیاسی جماعتیں اپنی انفرادی حیثیت میں جمہوری ہو جائیں تو سیاست میں در آنے والے بہت سے موقع پرستوں سے چھٹکارہ پانا آج بھی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر ’کور کمیٹیوں (کلیدی فیصلہ سازوں) میں‘ صرف اُن افراد کو شامل کیا جائے‘ جو عوام کے منتخب کردہ ہوں۔ یہ بھلا کس طرح ممکن ہے کہ غیرمنتخب افراد مل بیٹھ کر سیاسی فیصلے کریں اُور بعدازاں اُنہیں منتخب نمائندوں کے سپرد کرتے ہوئے یہ توقع کی جائے کہ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقے میں اِن پارٹی پالیسیوں (حکمت عملیوں)کا دفاع کریں گے!

قومی اسمبلی کی ایک نشست تین سے چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے مساوی آبادی کی ترجمان ہوتی ہے‘ چونکہ آئینی ترمیم کے ذریعے زیادہ تر وفاقی ادارے صوبوں کو منتقل کر دیئیگئے ہیں اِس لئے ترقیاتی کاموں کے لئے مالی وسائل کا بڑا حصہ صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ملتا ہے اور وہی مل بیٹھ کر صوبائی قانون سازی بھی کرتے ہیں جیسا کہ مقامی حکومتوں کے کام کرنے کا طریقۂ کار‘ قواعد و ضوابط وضع کرتے ہوئے پچاس فیصد سے زیادہ مالی وسائل صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے اپنے پاس جبکہ چالیس فیصد یا اس سے کم مقامی حکومتوں کو دینے پر اتفاق کیا۔ یوں کسی ضلع میں سرکاری مالی وسائل سے ترقیاتی حکمت عملی کی تشکیل صوبائی اسمبلی کے اراکین کی منشاء سے ہوگی۔ افسوس کہ ترقیاتی فیصلوں کا اصل محرک وہ نہیں ہوتا‘ جو بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ بلاامتیاز و تعصب خدمات کے اہداف کتنے ہی خوشنما‘ سادہ اور واضح بنا کر کیوں نہ پیش کئے جائیں‘ اُن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’سیاسی و انتخابی مفادات (ترجیحات)‘ ہی رہیں گی۔ جب تک ہم ’شعوری طورپر جمہوری‘ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ترقیاتی کاموں کے لئے مالی وسائل مکمل طور پر مقامی حکومتوں کے حوالے نہیں کر دیتے اور جب تک قانون ساز ایوانوں کے اراکین کی توجہ‘ سوچ بچار‘ توانائیاں اور صلاحیتیں عام آدمی کو عدل و انصاف کی فوری و تیزترین فراہمی اُور قانون کے یکساں و بلاامتیاز اطلاق کے لئے وقف و مرکوز نہیں ہوجاتیں‘ اُس وقت تک ’تبدیلی بذریعہ ووٹ (عام انتخابات)‘ کا نعرہ محض نعرہ اُور خواب‘ بس خواب ہی رہے گا۔

No comments:

Post a Comment