ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیاسی سازشیں
سیاسی سازشیں
مقامی حکومتوں کے ناظمین و نائب ناظمین کے چناؤ کا مرحلہ اگرچہ بظاہر خوش
اسلوبی طے پا گیا ہے لیکن خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں ایسی مقامی
حکومتیں بھی قائم ہوئی ہیں‘ جن کا صوبائی حکومت کے ساتھ دوستانہ روابط ممکن
نہیں ہوں گے کیونکہ سیاسی اختلاف باہم اعتمادسازی کے عمل کو متاثر کرتا ہے
اور یہی سبب ہے کہ خیبرپختونخوا میں ’زیرالتوأ ترقیاتی عمل‘ کے آغاز کی
اُمید پیدا ہوتے ہی دم توڑ گئی ہے‘ کیا عجب ہے کہ ایک مرتبہ پھر بلدیاتی
اداروں سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوں!
خرابی کہاں ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک بہترین نظام جب ہمارے ہاں رائج ہوتا ہے تو اُسے گھسیٹ گھسیٹ کر برائے نام چلانا بھی بمشکل ممکن ہو پاتا ہے! کون نہیں جانتا کہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والے مقامی حکومتوں کے حالیہ (بلدیاتی) عام اِنتخابات میں کامیاب ہونے والوں کی ایک تعداد ایسی بھی تھی کہ جنہوں نے ’نظریات‘ کی کھلم کھلا سودے بازیاں کیں۔ وفاداریاں فروخت کیں۔ جانوروں کی طرح منتخب نمائندے نہیں بلکہ عوام کے ’مینڈیٹ‘ کو برسربازار قیمت لگا کر بیچا گیا۔ مقام اَفسوس ہے کہ جس اَنداز میں اکثریت اَقلیت اور اَقلیت اَکثریت بنی‘ اُسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بیجا نہیں کہ ہم ابھی شعور کے اُس مقام پر فائز نہیں۔ ابھی ہماری سوچ بالغ نہیں ہوئی اُور ہم خلوص کے ساتھ ایک ایسا نظام رائج کرنا ہی نہیں چاہتے جس میں ’اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی‘ عملاً ممکن ہو! ہمیں گردوپیش ہی نہیں اپنے آپ اور اجتماعی ضرورتوں سے خود کو بیگانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے عمل اور اس کے ردعمل کااحساس نہیں اور نہ ہی اِس بات کی فکر و تشویش لاحق ہے کہ سیاسی تاریخ رقم کرنے والے مؤرخ ہمارے بارے میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں‘ اُسے پڑھ کر آنے والی نسلیں کیا ہم پر فخر کریں گی!؟ ہمارے قول سے فعل سے جمہوریت نہ تو توانا ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ ’سیاسی کلچر‘ متعارف ہو پایا ہے جس میں عوام کی خوشحالی اور اجتماعی اطمینان جیسے اہداف حاصل ہوں۔
استحصال‘ تعصب اُور سفارش کا خاتمہ ہو۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی و خدمات کا معیار بہتر ہو۔ بلدیاتی نظام کے قیام کا مطالبہ کرنے کی ضرورت یہ حقیقت تھی کہ قانون سازوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہی تھیں! اُور اگر بلدیاتی نظام سے وابستہ توقعات بھی (خوانخواستہ) پوری نہ ہوئیں تو ’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟‘‘
پاکستان تحریک انصاف کی بدقسمتی رہی ہے کہ اِس کے لئے ہر انتخاب پہلے سے زیادہ تنظیمی مسائل اور مشکلات لے کر آتا ہے۔ اگر بات ’جماعتی انتخابات‘ کی ہو تو خود اپنے ہی تحقیقاتی کمیشن نے ایسے حقائق کھوج نکالے جن کے تحت چیئرمین کے دست راست نظر آنے والوں نے منفی کرداروں کے چہرے نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ تحریک انصاف کے جماعتی انتخابات کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کو تحلیل کرنا پڑا‘ وجہ یہ نہیں تھی کہ اُس کی تحقیقات ’تصدیق‘ کے کسی معیار پر قابل بھروسہ نہیں تھی بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ تحقیقات انتہائی درجے کی شفاف‘ مستند اور اِس حد تک نتیجہ خیز بلکہ دھماکہ خیز انداز میں بنائی گئیں کہ اُن سبھی کرداروں کے نام نامی سے لیکر پس پردہ سازشوں کی نشاندہی تک کر دی گئی اُور یہی وہ غلطی تھی‘ جس کا خمیازہ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ سمیت اُن کی معاونت کرنے والوں کو اِس صورت بھگتنا پڑا کہ وہ چیئرمین (پارٹی سربراہ) کی نظروں سے گر گئے! عجیب بات ہے کہ جنہوں نے جماعتی انتخابات میں اہلیت کی بجائے منظورنظر افراد کو عہدوں پر کامیاب ہونے میں مدد کی‘ اُن کی پتنگ بادلوں کو چھونے لگی لیکن جو پارٹی کے مستقبل اور اس کی بہتری کے لئے دردمندی و خیرخواہی کا مظاہرہ کر رہے تھے وہ ’راندۂ درگاہ‘ بلکہ دفن کر دیئے گئے۔ اگر تحریک انصاف ’جماعتی انتخابات‘ میں ہونے والے بے قاعدگیوں کے بارے سنجیدہ اقدامات کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اُسے مئی دو ہزار تیرہ اور بعدازاں ہونے والے کئی ایک ضمنی انتخابات میں یوں منہ کی نہ کھانا پڑتی۔ حالیہ ترین شکست مقامی حکومتوں کے محاذ پر ہوئی ہے۔ تصور کیجئے کہ ایک ایسی جماعت جو پورے صوبے کی حکمراں ہے‘ اُسے نصف سے بھی کم اضلاع کی نظامت ملے اور اگر انتخابی اتحاد نہ ہوتے‘ دیگر جماعتیں بھی اختلافات کا شکار نہ ہوتیں تو یہ ضلعی نظامت رکھنے والے تحریک انصاف کے کامیاب اُمیدواروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا رہی ہوتیں!
افسوس صد افسوس کہ ماضی کی طرح آج بھی غلطیوں کو جذباتی انداز سے دُہرایا جا رہا ہے اور اُن عناصر کا احتساب ترجیح نہیں کہ جنہوں نے مقامی حکومتوں کے انتخابات اور بعدازاں ضلع و تحصیل کی نظامت کے دوران جماعتی مفادات کو نقصان پہنچایا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو کسی بیرون دشمن سے خود اپنی صفوں میں موجود اُن کرداروں سے خطرہ ہے جو پارٹی کے نظم وضبط کو خاطر میں نہیں لاتے اور جانتے ہیں کہ کس وقت‘ کس جگہ اور کن بحرانی حالات میں جان و مال سے وقتی یا مستقل سرمایہ کاری کرنی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے کارکن چندہ نہیں دیتے اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ایسے ’سرمایہ کار‘ فیصلہ سازی پر حاوی رہتے ہیں اُور سبھی سیاسی جماعتوں میں مخلص کارکنوں بالخصوص خواتین کی حوصلہ شکنی کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت ہرلمحے‘ ہر گھڑی اور ہر پل جاری رہتا ہے۔
خرابی کہاں ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک بہترین نظام جب ہمارے ہاں رائج ہوتا ہے تو اُسے گھسیٹ گھسیٹ کر برائے نام چلانا بھی بمشکل ممکن ہو پاتا ہے! کون نہیں جانتا کہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والے مقامی حکومتوں کے حالیہ (بلدیاتی) عام اِنتخابات میں کامیاب ہونے والوں کی ایک تعداد ایسی بھی تھی کہ جنہوں نے ’نظریات‘ کی کھلم کھلا سودے بازیاں کیں۔ وفاداریاں فروخت کیں۔ جانوروں کی طرح منتخب نمائندے نہیں بلکہ عوام کے ’مینڈیٹ‘ کو برسربازار قیمت لگا کر بیچا گیا۔ مقام اَفسوس ہے کہ جس اَنداز میں اکثریت اَقلیت اور اَقلیت اَکثریت بنی‘ اُسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بیجا نہیں کہ ہم ابھی شعور کے اُس مقام پر فائز نہیں۔ ابھی ہماری سوچ بالغ نہیں ہوئی اُور ہم خلوص کے ساتھ ایک ایسا نظام رائج کرنا ہی نہیں چاہتے جس میں ’اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی‘ عملاً ممکن ہو! ہمیں گردوپیش ہی نہیں اپنے آپ اور اجتماعی ضرورتوں سے خود کو بیگانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے عمل اور اس کے ردعمل کااحساس نہیں اور نہ ہی اِس بات کی فکر و تشویش لاحق ہے کہ سیاسی تاریخ رقم کرنے والے مؤرخ ہمارے بارے میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں‘ اُسے پڑھ کر آنے والی نسلیں کیا ہم پر فخر کریں گی!؟ ہمارے قول سے فعل سے جمہوریت نہ تو توانا ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ ’سیاسی کلچر‘ متعارف ہو پایا ہے جس میں عوام کی خوشحالی اور اجتماعی اطمینان جیسے اہداف حاصل ہوں۔
استحصال‘ تعصب اُور سفارش کا خاتمہ ہو۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی و خدمات کا معیار بہتر ہو۔ بلدیاتی نظام کے قیام کا مطالبہ کرنے کی ضرورت یہ حقیقت تھی کہ قانون سازوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہی تھیں! اُور اگر بلدیاتی نظام سے وابستہ توقعات بھی (خوانخواستہ) پوری نہ ہوئیں تو ’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟‘‘
پاکستان تحریک انصاف کی بدقسمتی رہی ہے کہ اِس کے لئے ہر انتخاب پہلے سے زیادہ تنظیمی مسائل اور مشکلات لے کر آتا ہے۔ اگر بات ’جماعتی انتخابات‘ کی ہو تو خود اپنے ہی تحقیقاتی کمیشن نے ایسے حقائق کھوج نکالے جن کے تحت چیئرمین کے دست راست نظر آنے والوں نے منفی کرداروں کے چہرے نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ تحریک انصاف کے جماعتی انتخابات کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کو تحلیل کرنا پڑا‘ وجہ یہ نہیں تھی کہ اُس کی تحقیقات ’تصدیق‘ کے کسی معیار پر قابل بھروسہ نہیں تھی بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ تحقیقات انتہائی درجے کی شفاف‘ مستند اور اِس حد تک نتیجہ خیز بلکہ دھماکہ خیز انداز میں بنائی گئیں کہ اُن سبھی کرداروں کے نام نامی سے لیکر پس پردہ سازشوں کی نشاندہی تک کر دی گئی اُور یہی وہ غلطی تھی‘ جس کا خمیازہ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ سمیت اُن کی معاونت کرنے والوں کو اِس صورت بھگتنا پڑا کہ وہ چیئرمین (پارٹی سربراہ) کی نظروں سے گر گئے! عجیب بات ہے کہ جنہوں نے جماعتی انتخابات میں اہلیت کی بجائے منظورنظر افراد کو عہدوں پر کامیاب ہونے میں مدد کی‘ اُن کی پتنگ بادلوں کو چھونے لگی لیکن جو پارٹی کے مستقبل اور اس کی بہتری کے لئے دردمندی و خیرخواہی کا مظاہرہ کر رہے تھے وہ ’راندۂ درگاہ‘ بلکہ دفن کر دیئے گئے۔ اگر تحریک انصاف ’جماعتی انتخابات‘ میں ہونے والے بے قاعدگیوں کے بارے سنجیدہ اقدامات کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اُسے مئی دو ہزار تیرہ اور بعدازاں ہونے والے کئی ایک ضمنی انتخابات میں یوں منہ کی نہ کھانا پڑتی۔ حالیہ ترین شکست مقامی حکومتوں کے محاذ پر ہوئی ہے۔ تصور کیجئے کہ ایک ایسی جماعت جو پورے صوبے کی حکمراں ہے‘ اُسے نصف سے بھی کم اضلاع کی نظامت ملے اور اگر انتخابی اتحاد نہ ہوتے‘ دیگر جماعتیں بھی اختلافات کا شکار نہ ہوتیں تو یہ ضلعی نظامت رکھنے والے تحریک انصاف کے کامیاب اُمیدواروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا رہی ہوتیں!
افسوس صد افسوس کہ ماضی کی طرح آج بھی غلطیوں کو جذباتی انداز سے دُہرایا جا رہا ہے اور اُن عناصر کا احتساب ترجیح نہیں کہ جنہوں نے مقامی حکومتوں کے انتخابات اور بعدازاں ضلع و تحصیل کی نظامت کے دوران جماعتی مفادات کو نقصان پہنچایا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو کسی بیرون دشمن سے خود اپنی صفوں میں موجود اُن کرداروں سے خطرہ ہے جو پارٹی کے نظم وضبط کو خاطر میں نہیں لاتے اور جانتے ہیں کہ کس وقت‘ کس جگہ اور کن بحرانی حالات میں جان و مال سے وقتی یا مستقل سرمایہ کاری کرنی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے کارکن چندہ نہیں دیتے اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ایسے ’سرمایہ کار‘ فیصلہ سازی پر حاوی رہتے ہیں اُور سبھی سیاسی جماعتوں میں مخلص کارکنوں بالخصوص خواتین کی حوصلہ شکنی کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت ہرلمحے‘ ہر گھڑی اور ہر پل جاری رہتا ہے۔
No comments:
Post a Comment