ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اَساسی اِحساس اُور حاجات
اَساسی اِحساس اُور حاجات
ترقیاتی حکمت عملیوں پر اَربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود اگر خیبرپختونخوا
کے دیہی و بالائی علاقوں میں ’ترقی کا نام ونشان‘ دکھائی نہیں دے رہا تو
اِس کی بنیادی وجہ وہ ’تکنیکی مسائل‘ ہیں جو ادارہ جاتی قواعدوضوابط سے
تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاہراہیں ضلعی حکومتوں کے مالی وسائل سے
تعمیر کی گئیں اُور اِنہیں ’محکمۂ کیمونیکشن اَینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو)‘
کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اصولی طورپر جملہ چھوٹی بڑی شاہراہوں کی تعمیر صرف
اور صرف ’سی اینڈ ڈبلیو‘ کے ذریعے کی جاتی تو اس کی بعدازاں مرمت‘ کشادگی
اور دیکھ بھال بھی ’سی اینڈ ڈبلیو‘ ہی کی ذمہ داری ہوتی۔ موجودہ صورتحال
میں ’سی اینڈ ڈبلیو‘ ایسی کسی بھی سڑک کی بحالی‘ مرمت یا توسیع کا کام نہیں
کرسکتا کیونکہ اس مد میں تعمیراتی کاموں کے لئے اُس کے پاس وسائل ہی موجود
نہیں! کسی بھی دوسرے سرکاری محکمے کے مالی وسائل سے تعمیر ہونے والی
ہزاروں کلومیٹرز پر پھیلی ایسی شاہراہوں کا مستقبل تاریک ہے کیونکہ ’سی
اینڈ ڈبلیو‘ خود کو الگ کئے ہوئے ہے جبکہ مقامی حکومتیں (بلدیاتی نظام) میں
اگر ضلع ناظم ایسی شاہراؤں کی توسیع و مرمت کے لئے خصوصی فنڈز فراہم کرے
تو بات بن سکتی ہے لیکن ہر ضلع ناظم کی یہی کوشش ہوگی کہ وہ زیادہ سے زیادہ
ترقیاتی فنڈز نئے تعمیراتی منصوبوں کے لئے مختص کریں بالخصوص اُن علاقوں
کی تو قسم جاگ سکتی ہے‘ جہاں سے ناظم‘ نائب ناظم‘ اراکین ضلع و تحصیل کونسل
یا ہمسائیگی و دیہی علاقوں کی نمائندگی کرنے والوں کا تعلق ہے اور نئے
بلدیاتی نظام میں اگرچہ ہزاروں کی تعداد میں نمائندے متعارف کرائے گئے ہیں
لیکن پھر بھی ایسے علاقوں کا شمار سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہے
جہاں سے کسی بھی منتخب نمائندے کا تعلق نہیں۔ بالخصوص خیبرپختونخوا کے
دورافتادہ بالائی علاقے جہاں کے دیہات آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
گہری کھائیوں پر آمدورفت سے بننے والی پگڈنڈیوں پر جیپ گاڑیاں چلتی ہیں۔
مریضوں کو چارپائیوں پر ڈال کر جنازے کی طرح اُٹھا کر چلنے والے کئی گھنٹوں
کی مسافت طے کرنے کے بعد صرف سڑک تک پہنچ پاتے ہیں‘ جہاں سے ضلعی ہیڈکواٹر
ہسپتال تک پہنچنے کے لئے علاج سے زیادہ رقم درکار ہوتی ہے۔ زرعی معیشت و
معاشرت پر انحصار کرنے والوں کے پاس نہ تو مالی وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی
جنت نظیر وادیوں میں رہنے والوں کی بھوک پیاس اور مشکلات کا وفاقی و صوبائی
حکومتوں کو احساس ہے کہ آخر یہ بھی تو انسان ہیں! اِنہیں بھی صاف پانی‘
تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم ہونی چاہئے۔
المیہ یہ ہے کہ جو بول نہیں رہا‘ اُس کی خاموشی ہی اُس کی سب سے بڑی کوتاہی ہے۔
جس معاشرے میں اتحاد نہیں ہوتا‘ جہاں اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لئے مطالبہ نہیں کیا جاتا وہاں ایسے فیصلہ ساز مسلط ہو جاتے ہیں‘ جن کی ذاتی و سیاسی ترجیحات ’بدعنوانی‘ ہوتی ہے۔ کیا یہ بات عجیب نہیں کہ سیاست بذات خود ایک کاروبار ہے۔ جو کوئی کام نہیں کرتے‘ وہ سیاست میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر اختیارات کے عوض اُس کلیدی و ترقیاتی فیصلہ سازی پر سوار (حاوی) ہو جاتے ہیں‘ جس کی ترجیح ’اِجتماعی مفاد‘ ہونی چاہئے۔ ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کو اُن علاقوں کی فکر ہوتی ہے جہاں اُن کا ووٹ بینک (حامیوں کا ٹولہ) وجود رکھتا ہے‘ یوں پورا ملک ہی ’سیاسی حامیوں اُور مخالفین‘ کے گروہوں میں بٹ چکا ہے۔ معاشرہ سیاست کی وجہ سے متحد نہیں بلکہ اِس بدنما انداز میں تقسیم ہو چکا ہے کہ ایک علاقے کے لوگ کسی دوسرے علاقے گزرتے ہیں تو رفتار تیز کرلیتے ہیں کہ مبادا کہیں ’سیاسی انتقام‘ کا نشانہ نہ بن جائیں۔ انتخابات کے دنوں میں آزادانہ آمدورفت کا ماحول نتائج آنے اور حکومت سازی کے بعد باقی نہیں رہتا۔ جن رہنماؤں کو انتخابات سے قبل ہر ایک کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ بعدازاں صرف اُنہی سے رابطے میں رہتا ہے جو اُس کے سیاسی تعلق دار ہوتے ہیں۔ سیاسی رشتے داریاں کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ مستقل نہیں رہتیں بالکل اُس ہیرے کی طرح کہ جو ایک بار ٹوٹ جائے تو پھر جڑ نہیں سکتا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم سونے جیسے خالص ہو جائیں کہ جسے ڈھال کر کوئی بھی شکل دی جاسکے۔
سرکاری مالی‘ اِنتظامی‘ اَفرادی وسائل اُور ’فیصلہ سازی‘ پر اِختیار رکھنے والوں کو اِس حقیقت کا اِدراک کرنا ہوگا کہ ’ترقی کے تقاضے اور اس کی حقیقی ضرورت پوری کرنے کتنا ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے اور شہری علاقوں یا مرکز سے دور علاقوں کی بہتری کے لئے کیا کچھ ہونا چاہئے۔‘ بجلی اور گیس جیسی ضروریات کی قیمتیں مقرر کرتے یا ان میں اضافہ کرتے ہوئے بھی پورے ملک کو ایک جیسی آمدنی رکھنے والوں میں شمار نہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے‘ جس میں گھریلو صارفین کو ملنے والی فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) گیس کی قیمت کچھ اِس انداز سے بڑھائی گئی ہے کہ کم آمدنی والے زیادہ متاثر ہوں گے۔ تصور کیجئے کہ 100 یونٹ گیس خرچ کرنے والے اگر پہلے 106 روپے ادا کرتے تھے تو اب انہیں 110‘ ایک سو سے تیس سو یونٹ خرچ کرنے والے جو پہلے 212 اُور اب 220‘ جبکہ 300 یونٹ خرچ کرنے والے پہلے 531اور نئے فارمولے کے مطابق اب 600 روپے ادا کریں گے۔ اِس تکنیکی اعدادوشمار کو مزید آسان بنا کر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ 100یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو 70فیصد زیادہ جبکہ 100سے 300 یونٹ خرچ کرنے والوں کو 27فیصد زیادہ ادائیگی کرنا پڑے گی۔ سردیاں آنے سے چند ماہ قبل گیس کی قیمتوں میں اِضافہ اُور گھریلو صارفین پر اِس قدر ’نظرکرم‘ سے غریب و متوسط طبقات زیادہ متاثر ہوں گے جنہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نمٹنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ جو بول نہیں رہا‘ اُس کی خاموشی ہی اُس کی سب سے بڑی کوتاہی ہے۔
جس معاشرے میں اتحاد نہیں ہوتا‘ جہاں اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لئے مطالبہ نہیں کیا جاتا وہاں ایسے فیصلہ ساز مسلط ہو جاتے ہیں‘ جن کی ذاتی و سیاسی ترجیحات ’بدعنوانی‘ ہوتی ہے۔ کیا یہ بات عجیب نہیں کہ سیاست بذات خود ایک کاروبار ہے۔ جو کوئی کام نہیں کرتے‘ وہ سیاست میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر اختیارات کے عوض اُس کلیدی و ترقیاتی فیصلہ سازی پر سوار (حاوی) ہو جاتے ہیں‘ جس کی ترجیح ’اِجتماعی مفاد‘ ہونی چاہئے۔ ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کو اُن علاقوں کی فکر ہوتی ہے جہاں اُن کا ووٹ بینک (حامیوں کا ٹولہ) وجود رکھتا ہے‘ یوں پورا ملک ہی ’سیاسی حامیوں اُور مخالفین‘ کے گروہوں میں بٹ چکا ہے۔ معاشرہ سیاست کی وجہ سے متحد نہیں بلکہ اِس بدنما انداز میں تقسیم ہو چکا ہے کہ ایک علاقے کے لوگ کسی دوسرے علاقے گزرتے ہیں تو رفتار تیز کرلیتے ہیں کہ مبادا کہیں ’سیاسی انتقام‘ کا نشانہ نہ بن جائیں۔ انتخابات کے دنوں میں آزادانہ آمدورفت کا ماحول نتائج آنے اور حکومت سازی کے بعد باقی نہیں رہتا۔ جن رہنماؤں کو انتخابات سے قبل ہر ایک کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ بعدازاں صرف اُنہی سے رابطے میں رہتا ہے جو اُس کے سیاسی تعلق دار ہوتے ہیں۔ سیاسی رشتے داریاں کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ مستقل نہیں رہتیں بالکل اُس ہیرے کی طرح کہ جو ایک بار ٹوٹ جائے تو پھر جڑ نہیں سکتا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم سونے جیسے خالص ہو جائیں کہ جسے ڈھال کر کوئی بھی شکل دی جاسکے۔
سرکاری مالی‘ اِنتظامی‘ اَفرادی وسائل اُور ’فیصلہ سازی‘ پر اِختیار رکھنے والوں کو اِس حقیقت کا اِدراک کرنا ہوگا کہ ’ترقی کے تقاضے اور اس کی حقیقی ضرورت پوری کرنے کتنا ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے اور شہری علاقوں یا مرکز سے دور علاقوں کی بہتری کے لئے کیا کچھ ہونا چاہئے۔‘ بجلی اور گیس جیسی ضروریات کی قیمتیں مقرر کرتے یا ان میں اضافہ کرتے ہوئے بھی پورے ملک کو ایک جیسی آمدنی رکھنے والوں میں شمار نہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے‘ جس میں گھریلو صارفین کو ملنے والی فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) گیس کی قیمت کچھ اِس انداز سے بڑھائی گئی ہے کہ کم آمدنی والے زیادہ متاثر ہوں گے۔ تصور کیجئے کہ 100 یونٹ گیس خرچ کرنے والے اگر پہلے 106 روپے ادا کرتے تھے تو اب انہیں 110‘ ایک سو سے تیس سو یونٹ خرچ کرنے والے جو پہلے 212 اُور اب 220‘ جبکہ 300 یونٹ خرچ کرنے والے پہلے 531اور نئے فارمولے کے مطابق اب 600 روپے ادا کریں گے۔ اِس تکنیکی اعدادوشمار کو مزید آسان بنا کر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ 100یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو 70فیصد زیادہ جبکہ 100سے 300 یونٹ خرچ کرنے والوں کو 27فیصد زیادہ ادائیگی کرنا پڑے گی۔ سردیاں آنے سے چند ماہ قبل گیس کی قیمتوں میں اِضافہ اُور گھریلو صارفین پر اِس قدر ’نظرکرم‘ سے غریب و متوسط طبقات زیادہ متاثر ہوں گے جنہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نمٹنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment