ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کوۂ گراں!
کوۂ گراں!
پاکستان تحریک انصاف تنظیم سازی اُور کارکنوں کی تربیت کے لئے دیگر سیاسی
جماعتوں سے زیادہ شعوری‘ فعال اور مستعد رویئے رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ
وقتاً فوقتاً کارکنوں اُور بالخصوص خواتین کے لئے ’تربیتی نشستوں‘ کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ایوانوں اور بلدیاتی حکومت سازی کے لئے عام
انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابی مرحلہ ہر موقع پر رہنمائی کا ناکافی ہی سہی
لیکن محدود مالی وسائل میں کچھ نہ کچھ بندوبست ضرور کیا جاتا ہے۔ گھر گھر
جا کر ووٹ کی اہمیت اُجاگر کرنے کے علاؤہ کسی انتخابی حلقے میں محلے‘ علاقے
یا گاؤں کی سطح خواتین کو جمع کرکے اُنہیں تصاویر‘ فلمی مواد‘ چارٹ حتیٰ
کہ خاکوں کے ذریعے عملی طور پر سکھایا جاتا ہے کہ وہ بہتر طرز حکمرانی کے
لئے کس طرح بہتر انداز میں اپنا اپنا انفرادی کردار اَدا کر سکتی ہیں۔ اِس
’مرکزی شعبۂ تربیت‘ کی نگران (بلحاظ عہدہ سیکرٹری شعبۂ خواتین) ڈاکٹر
رخشندہ پروین نے 3 ستمبر کی نصف شب کے قریب سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ
ٹوئٹر (twitter) کے ذریعے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سے ایک مطالبہ کیا‘
جو کئی لحاظ سے معنی خیز ہے اور بالخصوص اگر اس کا مطالعہ پاکستان میں پائی
جانے والی سیاسی اقدار و روایات کی عینک لگا کر کیا جائے تو کئی ایک تلخ
ضمنی معانی اخذ ہوں گے‘ جس کی گہرائی میں پاکستان میں خواتین کے حقوق‘
سیاسی جماعتوں کا خواتین سے برتاؤ‘ شرح و خواندگی میں اضافے اور ہر شعبہ
زندگی میں خواتین کے فعال عملی کردار کے باوجود خواتین کی محدود معاشرتی
حیثیت جیسی تلخیوں کا لاوا اُبلتا ہوا محسوس ہوتا ہے!
ایک سو چالیس حروف پر مبنی ٹوئیٹر پیغام میں ڈاکٹر رخشندہ نے لکھا ہے’’خواتین کو ’پالیسی کونسل‘ میں شامل کیا‘ کیونکہ وہ آبادی کا اہم جز ہیں‘ (سیاسی ترجیحات کے تعین اور فیصلہ سازی کے عمل میں) خواتین کی عدم موجودگی ایک ایسی کمی ہے جو دور ہونی چاہئے۔‘‘ ڈاکٹر رخشدہ (@survivorwins) کے اِس مہذب انداز میں دل ہلا دینے والے ٹوئیٹ پیغام (شکوے) کے مخاطب چیئرمین عمران خان (@ImranKhanPTI)‘ نعیم الحق (@naeemul_haque)‘ )‘ پالیسی کونسل کے سربراہ اسد عمر (@Asad_Umar)‘ منزہ حسن (@MunazaHassan) اُور شعبۂ خواتین کی سربراہ (@PTI_WW) ہیں‘ جن کی جانب سے اِس متعلق تادم تحریر (14گھنٹوں) میں کوئی جواب یا وضاحت دینا ’ضروری نہیں سمجھا گیا‘ اُور لاتعلقی پر مبنی اِس قسم کا رویہ اپنی جگہ تشویشناک بھی ہے اور معاملات کی زیادہ سنگین نوعیت میں خرابیوں کی جانب اشارہ بھی کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ سبق فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جس کسی نے مخلص سیاسی کارکنوں کو خاطرخواہ اہمیت نہ دیتے ہوئے اُن کی رائے پر دھیان نہیں دیا‘ تو اُس نے درحقیقت (نادانستہ یا دانستہ طور پر) کسی اُور کا نہیں بلکہ صرف اپنا ہی نقصان کیا! یقیناًچیئرمین عمران خان نے کبھی بھی نہیں کہا ہوگا کہ سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور عالمی اداروں کے مشیروں کو ’پالیسی کونسل‘ کا حصہ بنایا جائے لیکن اُن کے اردگرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی’ذاتی ترجیحات‘ تحریک انصاف کی تنظیمی مضبوطی و مقبولیت میں کی بجائے اسے کمزور کر رہی ہے!
معروف سماجی و سیاسی کارکن‘ مصنف‘ انسانی حقوق کی علمبردار اور ٹیلی ویژن پر سیاسی و معاشرتی اِصلاح کے حوالے سے بحث و مباحثوں (ٹاک شوز) کی میزبانی کے علاؤہ ٹیلی ویژن پروڈکشن کے اسرارورموز سے آگاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر رخشندہ پروین کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ پاکستان کے بارے میں اُن کی رائے کو عالمی سطح پر توجہ سے سنا جاتا ہے۔ جدید علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کا احاطہ اور اسلام کے عالمگیر پیغام پر اُن کے خیالات اولیائے کرام کی فکری تحریک سے اخذ ہیں‘ وہ تیرہویں صدی کے فارسی صوفی شاعر (مولوی) جلال الدین محمد رومی (1207ء تا 1273ء) کے فلسفیانہ نظریات سے ملنے والی توانائی کو تقسیم کرنے میں بخیل نہیں اُور سب سے بڑھ کر جدید ترقی یافتہ دنیا کے ارتقائی علمی و فکری نظریات کو سمجھتے ہوئے اپنی اقدار سے جڑی ہوئی ہیں۔ تربیتی نشستوں کے دوران جہاں کہیں بھی اُن سے علم حاصل کرنے کا موقع ملا‘ تو انہوں نے کبھی بھی سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کی حمایت نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ اخلاقی اقدار‘ قوانین وقواعد کی پابندی اور صداقت پر مبنی کردار و عمل اختیار کرنے کی حمایت اور وکالت کرتی دکھائی دیں۔ ڈاکٹر رخشندہ پروین نے دیگر معروف خواتین سماجی کارکنوں عارفہ مظہر‘ عاصمہ راجوائی‘ ادیبہ امیرالدین اُور رابعہ حیدر کے ہمراہ ’9 اگست 2012ء‘ کے روز ’پاکستان تحریک انصاف‘ میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان ایک ایسی پریس کانفرنس میں کیا تھا‘ جس میں تحریک انصاف کی رہنما فوزیہ قصوری بھی موجود تھیں اور یہ پریس کانفرنس اُس وقت سانحہ مظفرگڑھ کے حوالے سے طلب کی گئی تھی‘ جس کی مذمت کرتے ہوئے فوزیہ قصوری نے کہا تھا کہ ’’پاکستان میں بالخصوص اور صوبہ پنجاب میں بالعموم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور خود کو ’خادم اعلیٰ‘ کہنے والے وزیراعلیٰ شہباز شریف خواتین کے بنیادی حقوق پر وار کرنے والوں سے قانون کے مطابق خاطرخواہ سختی نہیں کرتے۔‘‘ لیکن افسوس کہ خواتین کے حقوق اور انہیں معاشرے میں جائز مقام دلانے کی جدوجہد کرنے والی جن سماجی کارکنوں نے تحریک انصاف میں جوش و جذبے اور خوشی خوشی شمولیت اختیار کی‘ اُن میں سے ایک نے کھلم کھلا سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ پر ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھ چھوڑا ہے‘ جس کا دھبہ تحریک انصاف کی قیادت چاہنے کے باوجود بھی کبھی نہیں دھو سکے گی۔
محض 3سال 25 دن کے سیاسی سفر میں ڈاکٹر رخشندہ پر یہ حقیقت آشکارہ ہوگئی کہ جہاں بات خواتین کے حقوق کی ہوتی ہے وہاں ملک کی سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ایک جیسا رویہ اُور مزاج رکھتی ہیں۔ 1120 دنوں کے سیاسی سفر میں ڈاکٹر رخشندہ کو اگر تھکاوٹ کا احساس ہو رہا ہے اور اگر انہیں خواتین کے حقوق حاصل کرنا ’کوہ گراں‘ معلوم ہو رہا ہے تو یہ کسی بھی صورت نہ تو تعمیری ہے اور نہ ہی پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لئے یہ بات خوش آئند قرار دی جاسکتی ہے کہ قیادت کرنے والی خواتین بھی خود کو ’محروم‘ اُور ’نظرانداز‘ محسوس کرنے لگیں! کہیں یہ وقت وہ تو نہیں جب ملک کی اکیاون فیصد آبادی ایک الگ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز کرے۔ خواتین کو قانون ساز ایوانوں میں غلامانہ نمائندگی دینا نہ تو آبادی کے تناسب سے کافی ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی منظور نظر‘ سرمایہ دار گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بیگمات کو اسمبلیوں کی رکنیت بانٹنے سے اکثریتی آبادی کی نمائندگی ہو پائی ہے یقیناًتحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے ڈاکٹر رخشندہ پروین کو مایوس کیا ہے اور کم از کم اِس مایوسی کی توقع ’(معاشی و اقتصادی) اِنصاف‘ (سیاسی) اِنصاف‘ (سماجی) اِنصاف‘ (آئینی) اِنصاف‘ (انتخابی) انصاف اُور (صنفی)اِنصاف‘ جیسی گردان کرنے والی جماعت سے نہیں تھی!
ایک سو چالیس حروف پر مبنی ٹوئیٹر پیغام میں ڈاکٹر رخشندہ نے لکھا ہے’’خواتین کو ’پالیسی کونسل‘ میں شامل کیا‘ کیونکہ وہ آبادی کا اہم جز ہیں‘ (سیاسی ترجیحات کے تعین اور فیصلہ سازی کے عمل میں) خواتین کی عدم موجودگی ایک ایسی کمی ہے جو دور ہونی چاہئے۔‘‘ ڈاکٹر رخشدہ (@survivorwins) کے اِس مہذب انداز میں دل ہلا دینے والے ٹوئیٹ پیغام (شکوے) کے مخاطب چیئرمین عمران خان (@ImranKhanPTI)‘ نعیم الحق (@naeemul_haque)‘ )‘ پالیسی کونسل کے سربراہ اسد عمر (@Asad_Umar)‘ منزہ حسن (@MunazaHassan) اُور شعبۂ خواتین کی سربراہ (@PTI_WW) ہیں‘ جن کی جانب سے اِس متعلق تادم تحریر (14گھنٹوں) میں کوئی جواب یا وضاحت دینا ’ضروری نہیں سمجھا گیا‘ اُور لاتعلقی پر مبنی اِس قسم کا رویہ اپنی جگہ تشویشناک بھی ہے اور معاملات کی زیادہ سنگین نوعیت میں خرابیوں کی جانب اشارہ بھی کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ سبق فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جس کسی نے مخلص سیاسی کارکنوں کو خاطرخواہ اہمیت نہ دیتے ہوئے اُن کی رائے پر دھیان نہیں دیا‘ تو اُس نے درحقیقت (نادانستہ یا دانستہ طور پر) کسی اُور کا نہیں بلکہ صرف اپنا ہی نقصان کیا! یقیناًچیئرمین عمران خان نے کبھی بھی نہیں کہا ہوگا کہ سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور عالمی اداروں کے مشیروں کو ’پالیسی کونسل‘ کا حصہ بنایا جائے لیکن اُن کے اردگرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی’ذاتی ترجیحات‘ تحریک انصاف کی تنظیمی مضبوطی و مقبولیت میں کی بجائے اسے کمزور کر رہی ہے!
معروف سماجی و سیاسی کارکن‘ مصنف‘ انسانی حقوق کی علمبردار اور ٹیلی ویژن پر سیاسی و معاشرتی اِصلاح کے حوالے سے بحث و مباحثوں (ٹاک شوز) کی میزبانی کے علاؤہ ٹیلی ویژن پروڈکشن کے اسرارورموز سے آگاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر رخشندہ پروین کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ پاکستان کے بارے میں اُن کی رائے کو عالمی سطح پر توجہ سے سنا جاتا ہے۔ جدید علوم کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کا احاطہ اور اسلام کے عالمگیر پیغام پر اُن کے خیالات اولیائے کرام کی فکری تحریک سے اخذ ہیں‘ وہ تیرہویں صدی کے فارسی صوفی شاعر (مولوی) جلال الدین محمد رومی (1207ء تا 1273ء) کے فلسفیانہ نظریات سے ملنے والی توانائی کو تقسیم کرنے میں بخیل نہیں اُور سب سے بڑھ کر جدید ترقی یافتہ دنیا کے ارتقائی علمی و فکری نظریات کو سمجھتے ہوئے اپنی اقدار سے جڑی ہوئی ہیں۔ تربیتی نشستوں کے دوران جہاں کہیں بھی اُن سے علم حاصل کرنے کا موقع ملا‘ تو انہوں نے کبھی بھی سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کی حمایت نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ اخلاقی اقدار‘ قوانین وقواعد کی پابندی اور صداقت پر مبنی کردار و عمل اختیار کرنے کی حمایت اور وکالت کرتی دکھائی دیں۔ ڈاکٹر رخشندہ پروین نے دیگر معروف خواتین سماجی کارکنوں عارفہ مظہر‘ عاصمہ راجوائی‘ ادیبہ امیرالدین اُور رابعہ حیدر کے ہمراہ ’9 اگست 2012ء‘ کے روز ’پاکستان تحریک انصاف‘ میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان ایک ایسی پریس کانفرنس میں کیا تھا‘ جس میں تحریک انصاف کی رہنما فوزیہ قصوری بھی موجود تھیں اور یہ پریس کانفرنس اُس وقت سانحہ مظفرگڑھ کے حوالے سے طلب کی گئی تھی‘ جس کی مذمت کرتے ہوئے فوزیہ قصوری نے کہا تھا کہ ’’پاکستان میں بالخصوص اور صوبہ پنجاب میں بالعموم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور خود کو ’خادم اعلیٰ‘ کہنے والے وزیراعلیٰ شہباز شریف خواتین کے بنیادی حقوق پر وار کرنے والوں سے قانون کے مطابق خاطرخواہ سختی نہیں کرتے۔‘‘ لیکن افسوس کہ خواتین کے حقوق اور انہیں معاشرے میں جائز مقام دلانے کی جدوجہد کرنے والی جن سماجی کارکنوں نے تحریک انصاف میں جوش و جذبے اور خوشی خوشی شمولیت اختیار کی‘ اُن میں سے ایک نے کھلم کھلا سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ پر ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھ چھوڑا ہے‘ جس کا دھبہ تحریک انصاف کی قیادت چاہنے کے باوجود بھی کبھی نہیں دھو سکے گی۔
محض 3سال 25 دن کے سیاسی سفر میں ڈاکٹر رخشندہ پر یہ حقیقت آشکارہ ہوگئی کہ جہاں بات خواتین کے حقوق کی ہوتی ہے وہاں ملک کی سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ایک جیسا رویہ اُور مزاج رکھتی ہیں۔ 1120 دنوں کے سیاسی سفر میں ڈاکٹر رخشندہ کو اگر تھکاوٹ کا احساس ہو رہا ہے اور اگر انہیں خواتین کے حقوق حاصل کرنا ’کوہ گراں‘ معلوم ہو رہا ہے تو یہ کسی بھی صورت نہ تو تعمیری ہے اور نہ ہی پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لئے یہ بات خوش آئند قرار دی جاسکتی ہے کہ قیادت کرنے والی خواتین بھی خود کو ’محروم‘ اُور ’نظرانداز‘ محسوس کرنے لگیں! کہیں یہ وقت وہ تو نہیں جب ملک کی اکیاون فیصد آبادی ایک الگ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز کرے۔ خواتین کو قانون ساز ایوانوں میں غلامانہ نمائندگی دینا نہ تو آبادی کے تناسب سے کافی ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی منظور نظر‘ سرمایہ دار گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بیگمات کو اسمبلیوں کی رکنیت بانٹنے سے اکثریتی آبادی کی نمائندگی ہو پائی ہے یقیناًتحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے ڈاکٹر رخشندہ پروین کو مایوس کیا ہے اور کم از کم اِس مایوسی کی توقع ’(معاشی و اقتصادی) اِنصاف‘ (سیاسی) اِنصاف‘ (سماجی) اِنصاف‘ (آئینی) اِنصاف‘ (انتخابی) انصاف اُور (صنفی)اِنصاف‘ جیسی گردان کرنے والی جماعت سے نہیں تھی!
No comments:
Post a Comment