ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بے رحم دنیا
بے رحم دنیا
ایک بچے کی لاش جسے بعدازاں ’ایلان عبداللہ کردی (Aylan Abdullah Kurdi)‘
کے نام سے شناخت کیا گیا‘ ترکی (Turkey) کی ساحلی پولیس اہلکار کے ہاتھوں
پر جھول رہا تھا۔ یہ تصویر ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر ہوئی تو گویا پوری
انسانیت ہی لرز اُٹھی! کاش طاقت کے نشے میں دُھت‘ مہذب کہلانے والے مغربی
سربراہ اتنے سنگدل نہ ہوتے اور اپنے ہی مرتب کردہ عالمی معاہدوں کی پاسداری
کرتے ہوئے اُن پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دیتے‘ جو جنگی جنون
سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث اپنی جانیں داؤ پر لگا کر بھاگ رہے ہیں!
رواں سال کم از کم تین ہزار افراد خستہ اور گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی
کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرۂ روم (Mediterranean) نامی سمندر عبورکرنے کی
کوششوں میں ہلاک ہوچکے ہیں‘ اِن میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں‘ جن میں
پاکستانی و افغانی بھی شامل ہیں لیکن تین سالہ ’ایلان‘ کی موت نے تو گویا
انقلاب برپا کردیا‘ جس کا نکتۂ آغاز سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ’ٹوئیٹر
(twitter)‘ پر ’شیری عزیز‘ نامی صارف کا وہ پیغام تھا جس کے ہمراہ سمندر
کنارے مردہ پڑے ’ایلان‘ کی تصویر بھی شامل تھی اُور لکھا تھا ’’(اے بچے)
اللہ تمہارے درجات بلند کرے اور تم جیسے اُن بہت سے کم سنوں کا مددگار ہو‘
جو (مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک) شام میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے ’شام
کی آزادی‘ کا ہیش ٹیگ (#FreeSyria) بھی استعمال کیا‘ جس کے تحت ’ایلان‘
سمیت شام کی صورتحال کے بارے میں جاری بحث کا مطالعہ یا اِس میں حصہ لیا
جاسکتا ہے۔
’ایلان‘ کا تعلق ایک مسلمان گھرانے سے ہے‘ جسے کسی مسلم یا غیرمسلم ملک نے پناہ نہیں دی اور وہ سمندر کی لہروں پر کئی ہفتوں بھوک پیاس اور موسم کی شدت برداشت کرنے کے بعد ایک ایسی اذیت ناک موت کا شکار ہوا‘ جس کے بارے میں سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں! وہ غیرقانونی یا قانونی مہاجر نہیں تھا۔ اُس کے والدین خانہ جنگی کا شکار ملک سے بھاگ کر ایسی جگہ ’پناہ گزین‘ ہونے کے خواہشمند تھے‘ جہاں وہ ’ایلان‘ کی پرورش کر سکیں‘ اُسے ایک اچھا مستقبل دے سکیں! یقیناًایلان کا جنت میں شاندار استقبال ہوا ہوگا‘ اُسے چومنے اور پیار کرنے والوں کی قطاریں لگی ہوں گی تاکہ وہ اپنے والد اور والدہ کی کمی کو محسوس نہ کرے۔ کیا خود کو مسلمان کہنے والے سربراہان مملکت سے روز قیامت ایسے بے یارومددگار مسلمانوں کے بارے میں سوال نہیں ہوگا‘ جو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یا ڈوب ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں؟ کیا جواب ہے کہ سعودی عرب‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے عرب ممالک ’ہجرت مدینہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے‘ انصار کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان (مسلم و غیرمسلم) دنیا کا ایسا واحد ملک ہے جس نے اپنے ہاں دنیا کے سب سے زیادہ ’پناہ گزینوں‘کو بطور مہاجر امان دے رکھی ہے!
ایلان کی موت پر مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ خاموش جبکہ مغربی دنیا کے رہنماؤں کا ضمیر جھنجوڑ جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کرنے والے صحافی یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ’’بھلا قدرت اتنی سنگدل کیسے ہوسکتی ہے کہ اُس نے ایک پھول جیسے‘ کم عمر‘ عالمی سیاست سے بے خبر اور مذہبی عقائد کا شعور نہ رکھنے والا بچے کی موت ’کھارے پانی‘ میں ڈوب کر لکھ دی ہو؟ یاد رہے کہ شام میں بشارالاسد حکومت کی عسکری و دفاعی حمایت روس کے صدر ولادیمر پوٹن جبکہ حکومت مخالف باغیوں کو اسلحہ‘ تربیت اور مالی وسائل امریکہ کے صدر باراک اوبامہ کی خصوصی اجازت سے بذریعہ داعش فراہم کی جا رہی ہے اور اِن دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان درپردہ رسہ کشی نے شام کو میدان جنگ بنا رکھا ہے جس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا دوسرے بڑے انسانی المیے نے جنم لیا ہے اور جس سے متاثر شام کے کم و بیش 3 کروڑ باشندوں کے لئے کسی دوسرے ملک پناہ لینے کے سوا کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی!
ایلان عالمی طاقتوں کے بدنما چہرے کا عکس ہے۔ انسانیت کا راگ الاپ کر دنیا کو جنگوں میں جھونکنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے مگر اس سے بڑا طمانچہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کے لئے ہے جن کی دولت کا اثر ان کے اپنے معدے تک رہتا ہے‘ ان کے ہاں دولت کی ریل پیل انسان کی روح تک سرایت نہیں کر پاتی‘ ان کی دولت سے قربانی کے چراغ روشن نہیں ہوتے بلکہ صرف مفادات کی آگ بھڑکتی ہے۔
تیل خریدنے اور تیل فروخت کرنے والوں کے درمیان انسانیت کچلی جارہی ہے۔
وہ ایلان نہیں بلکہ ترکی کے ساحل پر عرب حکمرانوں کی خباثت زمین بوس تھی! اِیلان اَبدی نیند سو گیا ہے (اناللہ وانا علیہ راجعون)۔ پانچ ستمبر کے روز اُسے اربوں سوگواروں کی دعاؤں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا‘ حکمرانوں کی جانب سے کچھ رسمی و روائتی مذمت‘ کچھ تعزیت‘ رُونا دھونا اور بس! اللہ تعالیٰ مسلم اُمہ کی قیادت کرنے والوں کو معاف کرے‘ جو ’ایلان‘ سمیت ’امن کی تلاش‘ کرنے والے لاکھوں اَفراد کے مصائب و مشکلات اُور ہلاکتوں کے لئے ذمہ دار ہیں! ’’منزلے نیست کہ آسودہ شود بیمارے۔۔۔اے خدا‘ سایۂ دیوار بہ بیمار کشاد!‘‘
’ایلان‘ کا تعلق ایک مسلمان گھرانے سے ہے‘ جسے کسی مسلم یا غیرمسلم ملک نے پناہ نہیں دی اور وہ سمندر کی لہروں پر کئی ہفتوں بھوک پیاس اور موسم کی شدت برداشت کرنے کے بعد ایک ایسی اذیت ناک موت کا شکار ہوا‘ جس کے بارے میں سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں! وہ غیرقانونی یا قانونی مہاجر نہیں تھا۔ اُس کے والدین خانہ جنگی کا شکار ملک سے بھاگ کر ایسی جگہ ’پناہ گزین‘ ہونے کے خواہشمند تھے‘ جہاں وہ ’ایلان‘ کی پرورش کر سکیں‘ اُسے ایک اچھا مستقبل دے سکیں! یقیناًایلان کا جنت میں شاندار استقبال ہوا ہوگا‘ اُسے چومنے اور پیار کرنے والوں کی قطاریں لگی ہوں گی تاکہ وہ اپنے والد اور والدہ کی کمی کو محسوس نہ کرے۔ کیا خود کو مسلمان کہنے والے سربراہان مملکت سے روز قیامت ایسے بے یارومددگار مسلمانوں کے بارے میں سوال نہیں ہوگا‘ جو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یا ڈوب ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں؟ کیا جواب ہے کہ سعودی عرب‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے عرب ممالک ’ہجرت مدینہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے‘ انصار کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان (مسلم و غیرمسلم) دنیا کا ایسا واحد ملک ہے جس نے اپنے ہاں دنیا کے سب سے زیادہ ’پناہ گزینوں‘کو بطور مہاجر امان دے رکھی ہے!
ایلان کی موت پر مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ خاموش جبکہ مغربی دنیا کے رہنماؤں کا ضمیر جھنجوڑ جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کرنے والے صحافی یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ’’بھلا قدرت اتنی سنگدل کیسے ہوسکتی ہے کہ اُس نے ایک پھول جیسے‘ کم عمر‘ عالمی سیاست سے بے خبر اور مذہبی عقائد کا شعور نہ رکھنے والا بچے کی موت ’کھارے پانی‘ میں ڈوب کر لکھ دی ہو؟ یاد رہے کہ شام میں بشارالاسد حکومت کی عسکری و دفاعی حمایت روس کے صدر ولادیمر پوٹن جبکہ حکومت مخالف باغیوں کو اسلحہ‘ تربیت اور مالی وسائل امریکہ کے صدر باراک اوبامہ کی خصوصی اجازت سے بذریعہ داعش فراہم کی جا رہی ہے اور اِن دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان درپردہ رسہ کشی نے شام کو میدان جنگ بنا رکھا ہے جس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا دوسرے بڑے انسانی المیے نے جنم لیا ہے اور جس سے متاثر شام کے کم و بیش 3 کروڑ باشندوں کے لئے کسی دوسرے ملک پناہ لینے کے سوا کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی!
ایلان عالمی طاقتوں کے بدنما چہرے کا عکس ہے۔ انسانیت کا راگ الاپ کر دنیا کو جنگوں میں جھونکنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے مگر اس سے بڑا طمانچہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کے لئے ہے جن کی دولت کا اثر ان کے اپنے معدے تک رہتا ہے‘ ان کے ہاں دولت کی ریل پیل انسان کی روح تک سرایت نہیں کر پاتی‘ ان کی دولت سے قربانی کے چراغ روشن نہیں ہوتے بلکہ صرف مفادات کی آگ بھڑکتی ہے۔
تیل خریدنے اور تیل فروخت کرنے والوں کے درمیان انسانیت کچلی جارہی ہے۔
وہ ایلان نہیں بلکہ ترکی کے ساحل پر عرب حکمرانوں کی خباثت زمین بوس تھی! اِیلان اَبدی نیند سو گیا ہے (اناللہ وانا علیہ راجعون)۔ پانچ ستمبر کے روز اُسے اربوں سوگواروں کی دعاؤں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا‘ حکمرانوں کی جانب سے کچھ رسمی و روائتی مذمت‘ کچھ تعزیت‘ رُونا دھونا اور بس! اللہ تعالیٰ مسلم اُمہ کی قیادت کرنے والوں کو معاف کرے‘ جو ’ایلان‘ سمیت ’امن کی تلاش‘ کرنے والے لاکھوں اَفراد کے مصائب و مشکلات اُور ہلاکتوں کے لئے ذمہ دار ہیں! ’’منزلے نیست کہ آسودہ شود بیمارے۔۔۔اے خدا‘ سایۂ دیوار بہ بیمار کشاد!‘‘
No comments:
Post a Comment