ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سخن دلنواز!
سخن دلنواز!
صوبائی دارالحکومت کے رہنے والوں کی اکثریت کا کسی نہ کسی طور جس ایک مشکل
سے مستقل واسطہ رہتا ہے وہ ’نکاسی آب کا مسئلہ‘ ہے جو عمومی حالات یا
موسلادھار بارشوں کی صورت سیلابی صورت اختیار کر جاتا ہے اور ماضی میں صرف
نشیبی علاقے زیرآب آیا کرتے تھے اب تو بالائی علاقوں کے گلی کوچوں اور
بازاروں تالاب یا نہر کامنظر پیش کرتے ہیں جس کا حل پیش کرتے ہوئے ’’واٹر
اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور‘‘ نامی ادارے نے ایک ایسی حکمت عملی ترتیب دی
ہے‘ جس کی تکمیل سے ہر قسم کی ’نکاسئ آب‘ کا مسئلہ کم از کم آئندہ پچاس سال
تک کے لئے حل ہو جائے گا! کسی سرکاری ادارے کی منصوبہ بندی میں مستقبل کی
ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے کی یہ پہلی اور عمدہ مثال ہوگی‘ اگر اس کے پس
پردہ محرکات‘ ترجیحات اور نیت میں فتور نہ ہو۔ اگر کاغذی کاروائی کے مطابق
اِس نئے منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز موجودہ حکومت کر دیتی ہے تو اس سے
سیاسی و انتخابی فائدے بھی حاصل ہوں گے۔
ستر لاکھ کی آبادی والے شہر میں ’نکاسئ آب‘ کا مسئلہ چٹکیاں بجاتے ہی مستقل بنیادوں پر حل کر لیا جائے گا‘ اِس سے زیادہ ’سخن دلنواز‘ کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پشاور کے ’زیرآب‘ آنے سے نہ صرف روزمرہ عمومی معاشرت بلکہ کاروباری و تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ نئی حکمت عملی کے حوالے سے ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور‘ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس منعقد ہوا‘ جس میں آئندہ پچاس سال کی ضروریات کا تعین کرنے اور نکاسئ آب کے مسئلے کے حل کے لئے ایک ایسے چوڑی دار پلاسٹک کے پائپ بچھانے پر اتفاق کیا گیا‘ جو موسمی اثرات کے علاؤہ غیرمعمولی حالات میں پانی کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس میں (ٹھوس) گندگی (کوڑاکرکٹ) کی وجہ سے بننے والی رکاوٹ کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بھی متاثر نہیں ہوتا۔ جس نئی قسم کی پلاسٹک سے یہ پائپ تیار کئے جاتے ہیں اُس کی قسم کو ’پولی وینائل کلورائیڈ‘ سے تیار کیا جاتا ہے جو پلاسٹک ہی طرح ایک لچکدار مادہ ہے جو زیادہ مضبوط اور پائیدار ثابت ہوا ہے اور نکاسئ آب کے لئے اِس قسم کی پائپ لائن بچھانے کے تجربات ملک کے دیگر حصوں میں پہلے ہی کئے جاچکے ہیں اور بات صرف پاکستان کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ حکام کو فراہم کی جانے والی دستاویزات کے مطابق ’پیچدار ساخت‘ والے یہ نئی قسم کے پائپ عراق‘ ہنگری‘ البانیہ اور بلغاریہ میں بھی استعمال ہو رہے ہیں‘ اِن میں کنکریٹ کے مقابلے زیادہ رفتار سے پانی و گندگی لیجانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ’یو پی وی سی (uPVC)‘ کہلانے والے یہ پائپ قیمت میں بھی نسبتاً کم ہوتے ہیں‘ اگرچہ ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز‘ کے حکام نے ’یو پی وی سی پائپ لائن‘ بچھانے کی منظوری دے دی ہے لیکن اِن پائپ لائن کی خریداری اُس ریگولیٹری اتھارٹی کی اجازت حاصل کئے بناء ممکن نہیں جو جملہ سرکاری خریداریوں کرتی ہے۔
بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش کی جانے والی مفصل رپورٹ میں کہا گیا ہے ’یو پی وی سی پائپ‘ تین مقاصد کے لئے استعمال کئے جائیں گے۔ ایک تو پشاور میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اِن سے استفادہ کیا جائے گا۔ دوسرا نکاسی آب اور تیسرا ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے کے منصوبوں میں اِنہیں استعمال کیا جائے گا۔ جو نجی ادارہ یہ پائپ فراہم کرے گا‘ وہ قبل ازیں پاکستان میں تین بڑے منصوبے مکمل کر چکا ہے۔ یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ پشاور کو نکاسئ آب کے لئے توسیعی‘ جامع اور نئے ترقیاتی منصوبے کی ضرورت ہے جیسا کہ حال ہی میں بڈھنی نالے میں آئے سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کے وقت دیکھا گیا‘ اور صوبائی حکومت نے فیصلہ کر لیا کہ نکاسی آب کا ایسا نظام وضع کیا جائے تو پانی کے کھلے نالوں کی بجائے زیرزمین پائپ لائنوں پر مشتمل ہو لیکن زیرزمین نکاسی آب کے اِس قدر بڑے منصوبے کو گنجان آباد شہر کے اندرونی علاقوں میں کس طرح بچھایا جائے گا جبکہ پہلے سے موجود زیرزمین نظام آج بھی کفالت کر رہا ہے اور اگر صرف ’شاہی کٹھے‘ پر قائم تجاوزات ہی ہٹا دی جائیں تو پشاور شہر سے نکاسئ آب کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ نئے پائپ لائنوں کے لئے مالی وسائل کون فراہم کرے گا‘ کل لاگت کا تخمینہ کیا ہوگا اور کیا امریکہ کا امدادی ادارہ ’یوایس ایڈ (USAID)‘ جو اس سے قبل پشاور میں پینے کے پانی کی ترسیل کے پائپ لائنوں کی اصلاح کا اعلان کرچکا ہے‘ کیا نئے منصوبے کی مالی و تکنیکی معاونت کرنے کی دلچسپی رکھتا ہے؟ تلخ حقیقت ہے کہ ماضی کی ملتی جلتی ترقیاتی حکمت عملیوں کا جائزہ لیں تو جہاں کہیں بھی نکاسئ آب کو زیرزمین کیا گیا‘ اس کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔
سٹی سرکلر روڈ کے اطراف میں ایسی کئی مثالیں آج بھی دیکھی جا سکتیں ہیں۔درحقیقت سب سے آسان کام پیسہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری ادارے ایک سے بڑھ کر ایک ماہرانہ اور مہنگا حل پیش کرتے ہیں لیکن اس کی خرابیوں کے امکانات اور معیار کے لئے فیصلہ ساز بعدازاں ذمہ دار نہیں ہوتے۔ قومی احتساب بیورو میں زیرالتوأ اور عدالتوں میں بدعنوانی کے زیرسماعت مقدمات کی تفصیلات ملاحظہ کریں کہ کس طرح سرکاری خزانے کو اربوں روپے کے ٹیکے لگانے والے ’وائٹ کالر کریمنلز‘ معزز بھی بنے رہے اور ذاتی مفادات کے لئے سودے بازیاں بھی کرتے رہے! ہم نے ماضی سے کیا سیکھا ہے اور کیا سیکھنا چاہئے یہ الگ سے توجہ طلب سوال ہے۔
افسوس صد افسوس تو احتساب کے اُس قانون پر ہے جس میں بدعنوانی کرنے والے اگر خردبرد کی گئی رقم میں سے محض چند فیصد (یعنی آٹے میں نمک کے مساوی) اَدا کر دے تو اُسے ’باعزت بری‘ کر دیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر ’اصل رقم بمعہ ہزار گنا سود‘ واپس وصول کی جانی چاہئے اور ایسے عناصر کو نشان عبرت بنایا جائے‘ جو سر سے پاؤں تک بدعنوانیوں میں ڈوبے رہے لیکن چونکہ بحیثیت قوم ہم نے بدعنوانی کو دل سے قبول کر لیا ہے اور اس سے اظہار نفرت یا بیزاری نہیں کرتے‘ اِس لئے انواع و اقسام کی خرابیاں اُور بدعنوانیاں ہر دور میں نام بدل بدل کر فیصلہ سازی پر حاوی رہتی ہیں۔
پشاور کی اَشد ضرورت کا تعین کرنے کے لئے ’نومنتخب مقامی (بلدیاتی) حکومتوں‘ کی معلومات اُور بصیرت پر بھروسہ کرنا چاہئے‘ جن کی معاونت مختلف شعبوں کے ماہرین کرسکتے ہیں لیکن اگر فیصلہ سازی کا کام چند منظور نظر ماہرین کے ہاتھوں ہی سرانجام دینا ہے تو اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی اور بدعنوانی سے پاک طرز حکمرانی کے اہداف حاصل کرنا صرف خواب نہیں بلکہ محض خواب ہی رہے گا۔
ستر لاکھ کی آبادی والے شہر میں ’نکاسئ آب‘ کا مسئلہ چٹکیاں بجاتے ہی مستقل بنیادوں پر حل کر لیا جائے گا‘ اِس سے زیادہ ’سخن دلنواز‘ کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پشاور کے ’زیرآب‘ آنے سے نہ صرف روزمرہ عمومی معاشرت بلکہ کاروباری و تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ نئی حکمت عملی کے حوالے سے ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور‘ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس منعقد ہوا‘ جس میں آئندہ پچاس سال کی ضروریات کا تعین کرنے اور نکاسئ آب کے مسئلے کے حل کے لئے ایک ایسے چوڑی دار پلاسٹک کے پائپ بچھانے پر اتفاق کیا گیا‘ جو موسمی اثرات کے علاؤہ غیرمعمولی حالات میں پانی کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس میں (ٹھوس) گندگی (کوڑاکرکٹ) کی وجہ سے بننے والی رکاوٹ کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بھی متاثر نہیں ہوتا۔ جس نئی قسم کی پلاسٹک سے یہ پائپ تیار کئے جاتے ہیں اُس کی قسم کو ’پولی وینائل کلورائیڈ‘ سے تیار کیا جاتا ہے جو پلاسٹک ہی طرح ایک لچکدار مادہ ہے جو زیادہ مضبوط اور پائیدار ثابت ہوا ہے اور نکاسئ آب کے لئے اِس قسم کی پائپ لائن بچھانے کے تجربات ملک کے دیگر حصوں میں پہلے ہی کئے جاچکے ہیں اور بات صرف پاکستان کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ حکام کو فراہم کی جانے والی دستاویزات کے مطابق ’پیچدار ساخت‘ والے یہ نئی قسم کے پائپ عراق‘ ہنگری‘ البانیہ اور بلغاریہ میں بھی استعمال ہو رہے ہیں‘ اِن میں کنکریٹ کے مقابلے زیادہ رفتار سے پانی و گندگی لیجانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ’یو پی وی سی (uPVC)‘ کہلانے والے یہ پائپ قیمت میں بھی نسبتاً کم ہوتے ہیں‘ اگرچہ ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز‘ کے حکام نے ’یو پی وی سی پائپ لائن‘ بچھانے کی منظوری دے دی ہے لیکن اِن پائپ لائن کی خریداری اُس ریگولیٹری اتھارٹی کی اجازت حاصل کئے بناء ممکن نہیں جو جملہ سرکاری خریداریوں کرتی ہے۔
بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش کی جانے والی مفصل رپورٹ میں کہا گیا ہے ’یو پی وی سی پائپ‘ تین مقاصد کے لئے استعمال کئے جائیں گے۔ ایک تو پشاور میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اِن سے استفادہ کیا جائے گا۔ دوسرا نکاسی آب اور تیسرا ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے کے منصوبوں میں اِنہیں استعمال کیا جائے گا۔ جو نجی ادارہ یہ پائپ فراہم کرے گا‘ وہ قبل ازیں پاکستان میں تین بڑے منصوبے مکمل کر چکا ہے۔ یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ پشاور کو نکاسئ آب کے لئے توسیعی‘ جامع اور نئے ترقیاتی منصوبے کی ضرورت ہے جیسا کہ حال ہی میں بڈھنی نالے میں آئے سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کے وقت دیکھا گیا‘ اور صوبائی حکومت نے فیصلہ کر لیا کہ نکاسی آب کا ایسا نظام وضع کیا جائے تو پانی کے کھلے نالوں کی بجائے زیرزمین پائپ لائنوں پر مشتمل ہو لیکن زیرزمین نکاسی آب کے اِس قدر بڑے منصوبے کو گنجان آباد شہر کے اندرونی علاقوں میں کس طرح بچھایا جائے گا جبکہ پہلے سے موجود زیرزمین نظام آج بھی کفالت کر رہا ہے اور اگر صرف ’شاہی کٹھے‘ پر قائم تجاوزات ہی ہٹا دی جائیں تو پشاور شہر سے نکاسئ آب کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ نئے پائپ لائنوں کے لئے مالی وسائل کون فراہم کرے گا‘ کل لاگت کا تخمینہ کیا ہوگا اور کیا امریکہ کا امدادی ادارہ ’یوایس ایڈ (USAID)‘ جو اس سے قبل پشاور میں پینے کے پانی کی ترسیل کے پائپ لائنوں کی اصلاح کا اعلان کرچکا ہے‘ کیا نئے منصوبے کی مالی و تکنیکی معاونت کرنے کی دلچسپی رکھتا ہے؟ تلخ حقیقت ہے کہ ماضی کی ملتی جلتی ترقیاتی حکمت عملیوں کا جائزہ لیں تو جہاں کہیں بھی نکاسئ آب کو زیرزمین کیا گیا‘ اس کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔
سٹی سرکلر روڈ کے اطراف میں ایسی کئی مثالیں آج بھی دیکھی جا سکتیں ہیں۔درحقیقت سب سے آسان کام پیسہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری ادارے ایک سے بڑھ کر ایک ماہرانہ اور مہنگا حل پیش کرتے ہیں لیکن اس کی خرابیوں کے امکانات اور معیار کے لئے فیصلہ ساز بعدازاں ذمہ دار نہیں ہوتے۔ قومی احتساب بیورو میں زیرالتوأ اور عدالتوں میں بدعنوانی کے زیرسماعت مقدمات کی تفصیلات ملاحظہ کریں کہ کس طرح سرکاری خزانے کو اربوں روپے کے ٹیکے لگانے والے ’وائٹ کالر کریمنلز‘ معزز بھی بنے رہے اور ذاتی مفادات کے لئے سودے بازیاں بھی کرتے رہے! ہم نے ماضی سے کیا سیکھا ہے اور کیا سیکھنا چاہئے یہ الگ سے توجہ طلب سوال ہے۔
افسوس صد افسوس تو احتساب کے اُس قانون پر ہے جس میں بدعنوانی کرنے والے اگر خردبرد کی گئی رقم میں سے محض چند فیصد (یعنی آٹے میں نمک کے مساوی) اَدا کر دے تو اُسے ’باعزت بری‘ کر دیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر ’اصل رقم بمعہ ہزار گنا سود‘ واپس وصول کی جانی چاہئے اور ایسے عناصر کو نشان عبرت بنایا جائے‘ جو سر سے پاؤں تک بدعنوانیوں میں ڈوبے رہے لیکن چونکہ بحیثیت قوم ہم نے بدعنوانی کو دل سے قبول کر لیا ہے اور اس سے اظہار نفرت یا بیزاری نہیں کرتے‘ اِس لئے انواع و اقسام کی خرابیاں اُور بدعنوانیاں ہر دور میں نام بدل بدل کر فیصلہ سازی پر حاوی رہتی ہیں۔
پشاور کی اَشد ضرورت کا تعین کرنے کے لئے ’نومنتخب مقامی (بلدیاتی) حکومتوں‘ کی معلومات اُور بصیرت پر بھروسہ کرنا چاہئے‘ جن کی معاونت مختلف شعبوں کے ماہرین کرسکتے ہیں لیکن اگر فیصلہ سازی کا کام چند منظور نظر ماہرین کے ہاتھوں ہی سرانجام دینا ہے تو اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی اور بدعنوانی سے پاک طرز حکمرانی کے اہداف حاصل کرنا صرف خواب نہیں بلکہ محض خواب ہی رہے گا۔
No comments:
Post a Comment