Sunday, September 6, 2015

Potpourri

Potpourri
ملی جلی باتیں
جی ایچ کیو: اگر ہم گذشتہ دو برس کے عرصے میں پاکستان کی فوج کے حربی وسائل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصے میں جنگی سازوسامان میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا لیکن اگر ہم پاک فوج کی ساکھ اور مقبولیت کی بات کریں تو یہی وہ عرصہ ہے جب فوج کے بارے میں عوام میں پسندیدگی کی شرح بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

تین باتیں:
پہلی بات: پاک فوج جرائم اور سیاست کے درمیان بنے ہوئے تعلق کو ختم کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لئے عملی اقدامات میں دو فہرستیں شاید مرتب کی گئی ہوں گی جس میں دوسری فہرست کے لوگوں پر پہلے ہاتھ ڈالا گیا اور اس کے بعد پہلی فہرست میں درج ناموں کی باری آئے گی جیسا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری‘ جن کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ اُن کی گرفتاری کا مقصد درحقیقت پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن آصف علی زرداری پر گرفت کرنی ہے۔ دوسری بات: کراچی میں جاری کاروائی جو کہ پہلے خاص اہداف کے خلاف تھی اب اسے مزید اہداف کے تابع کر دیا گیا ہے۔ تیسری بات: دہشت گردی اور بدعنوانی میں فرق ہے۔ یاد رہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے 25 اگست کو پہلی مرتبہ کھلے عام ہونے والی باتوں میں ’بدعنوانی (کرپشن)‘ کا لفظ استعمال کیا۔

موجودہ تناظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اِس ساری صورتحال کا منطقی انجام کیا ہوگا؟ ابتدأ اس لئے ہوئی کہ ایک طرز حکمرانی میں خرابیاں موجود تھیں اور بہترطرز حکمرانی کے حصول میں ایک طرح کا خلأ پایا جاتا تھا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوج کو میدان میں اُترنا پڑا اور پھر وہ خلأ میں الجھ سی گئی۔ سال 2013ء کی بات ہے جب کراچی میں حکمرانی نام کی شے کا وجود نہیں تھا اور ایک سال 2 ہزار 507 افراد کو قتل کیا گیا۔ کسی بھی ایک شہر میں اس قدر قتل دنیا کے کسی دوسرے شہر میں نہیں ہوئے۔ سال 2015ء میں جبکہ رینجرز نے قانون کی حکمرانی بحال کرنے کے لئے کاروائی کا آغاز کر رکھا ہے تو کراچی میں ہونے والی قتل کی وارداتوں میں اب تک 80فیصد جیسی غیرمعمولی کمی آئی ہے اور رواں برس ہونے والے قتل 414ہیں لیکن سوال اپنی جگہ بدستور موجود ہے کہ آخر اس صورتحال کا منطقی حل کیا ہوگا؟ آخر ہم ایسا کیا اختیار کر سکتے ہیں جس سے سیاسی حکومتیں اپنے طرز حکمرانی کی اصلاح کر لیں۔


حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو شک بلکہ اس بات پر انتہائی شک کا شکار ہے کہ فوج کے ارادے کیا ہیں۔ کیا فوج صرف جرائم اور دہشت گردوں ہی کے خلاف کاروائی کر رہی ہے یا مستقبل قریب میں وہ سیاسی کرداروں پر بھی ہاتھ ڈالے گی جنہوں نے سنگین نوعیت کی مالی بدعنوانیاں کی ہیں۔اگر زمینی حقائق کی بات کی جائے تو حکومت کا مرکز اسلام آباد سے پاک فوج کے صدر دفتر راولپنڈی منتقل ہو چکا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف پر بہت دباؤ ہے۔ وہ ایک رسی پر چلنے کی مانند تیز ہواؤں میں اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری اور الطاف حسین مطالبہ کرچکے ہیں کہ کراچی میں جاری آپریشن میں نرمی اختیار کی جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کی صورتحال ملاحظہ کیجئے کہ چیف سیکرٹری سندھ صدیق میمن پانچ لاکھ روپے کے عوض اِن دنوں ضمانت قبل از گرفتاری کئے بیٹھے ہیں۔ اُنہیں گرفتاری کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ غلام حیدر جمالی سے قومی احتساب بیورو (نیب) پوچھ گچھ کر رہی ہے اور اسی طرح اے آئی جی‘ فدا حسین‘ علیم جعفری‘ ڈی آئی جی‘ مقصود میمن‘ ایس ایس پی سمیت چیئرمین سی ایم انسپکشن ٹیم عبدالسبحان میمن نے بھی ضمانت قبل از گرفتاری کرا رکھی ہے۔
آصف علی زرداری کے سامنے چار امکانات ہیں۔ رینجرز سے اختیارات واپس لئے جائیں۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہوا جائے۔ سڑکوں پر احتجاج کیا جائے یا پھر عدالتوں میں آئینی جنگ لڑی جائے لیکن یہ سبھی آپشن کسی نہ کسی حد تک قابل عمل ہیں۔ مثال کے طورپر جہاں تک سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بات ہے تو پیپلزپارٹی مقبولیت کی اس کم ترین سطح پر ہے جہاں وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ لے دے کر اُس کے پاس دو ہی آپشن بچے ہیں کہ ایک تو اسمبلیوں میں شور شرابہ کیا جائے اور دوسرا آئینی جنگ لڑی جائے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ الطاف حسین کے بغیر پارٹی کو برقرار رکھنا ممکن ہے اور اس ’مائنس ون‘ فارمولے کے بارے میں بہت کہچ کہا جارہا ہے۔ جہاں سے اسمبلیوں سے ایم کیوایم کے استعفوں کا تعلق ہے تو وہ صرف ذرائع ابلاغ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا عمل ہے۔

تحریک انصاف کے لئے بلدیاتی انتخابات نیک شگون جیسا ہے۔ طرز حکمرانی میں خرابیاں اور خلأ پر کرنے کے لئے تحریک انصاف سے زیادہ موزوں نہ تو کوئی دوسری جماعت ہے اور نہ ہی کسی دوسری جماعت نے متبادل قیادت کے طور پر خود کو پیش کرنے کے لئے اس قدر تیاری کر رکھی ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment