Monday, September 7, 2015

Sep2015: Peshawar feels disappointed!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اُمید و نااُمیدی
سیاست کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اگر نظم وضبط اور اِجتماعی مفاد کے لئے جماعتی نظریات کی تابع نہ ہو! حقوق کے تحفظ کی بجائے تعصب اور امتیازات عام ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ سیاست کی قیادت افراد اُور گھرانوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کے لئے ہوئے عام انتخابات کے نتائج میں اگرچہ تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں نے نمایاں تعداد میں کامیابی حاصل کی لیکن بہت سی جگہوں پر ناکامی کی وجہ بھی خود تحریک انصاف کے اپنے ہی کارکن ثابت ہوئے جنہوں نے پارٹی کی جانب سے نامزد اُمیدواروں کی مخالفت میں ووٹ دیا یا پھر ضلع و تحصیل کی سطح پر نظامت و نائب نظامت جیسے کلیدی عہدوں پر خود اُمیدوار بن کر سامنے آئے۔ حیران کن مماثلت یہ ہے کہ جماعتی نظم و ضبط سے بغاوت کرنے والے انہی کرداروں نے علم بغاوت اِس مرتبہ بھی بلند کیا جن سے متعلق جماعتی انتخابات کے بعد درجنوں شکایات پارٹی کی مرکزی قیادت کو اِرسال کی گئیں لیکن رسمی کاروائی سے زیادہ کچھ نہ کیا جاسکا۔ سردست خیبرپختونخوا کے ایسے 56 رہنماؤں سے تحریری جواب طلبی (شوکاز نوٹسیز کے ذریعے) کی گئی ہے‘ جنہوں نے نظامت و نائب نظامت میں کھل کر یا درپردہ پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی۔ اِن میں نہ صرف سرگرم پارٹی کارکن بلکہ تحریک انصاف کے صوبائی صدر‘ سینیٹ کی رکنیت رکھنے والا ایک ذی وقار‘ رکن صوبائی اسمبلی اور درجنوں کی تعداد میں ضلع و تحصیل کے (نومنتخب) کونسلرز (نمائندے) شامل ہیں۔ اگر تحریک انصاف کی صفوں میں انتشار ہے تو یہ اعزاز بھی تحریک انصاف ہی کو حاصل ہے کہ اس نے بڑے عہدوں پر فائز اپنے رہنماؤں کے احتساب کی روایت قائم کی ہے۔ کیا کسی دوسری حکومت کے دور میں یہ بات سوچی بھی جا سکتی تھی کہ کسی وزیر یا حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی کو بدعنوانی کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہو؟ ماضی کی تو روایت رہی ہے کہ بدعنوانیوں کی داستانیں حکومتیں ختم ہونے کے بعد منظرعام پر آتی ہیں اور ہمیشہ ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے خارج کر دی جاتی ہیں! یہاں معاملہ یہ ہے کہ مال کھا کر ڈکار بھی نہیں آیا تھا کہ دھر لئے گئے!

شفاف طرز حکمرانی اور صاف ستھری سیاست کی داغ بیل ڈالنے کے لئے تحریک انصاف کو ابھی بہت سے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور محض چند درجن افراد سے ’تحریری جواب طلبی‘ کے ذریعے تنظیم کے آئینی تقاضے پورے کرنے کی حد تک محدود رہنے سے خاطرخواہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ دوسری اہم بات دیگر سیاسی جماعتوں سے متعلق ہے کہ جنہوں نے ’ہارس ٹریڈنگ‘ کے عنوان سے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کی وفاداریاں اپنے حق میں یا حسب منشاء استعمال کیں۔ اگر جملہ سیاسی جماعتیں ایسے مفادپرست و موقع پرست ’بکاؤ مال‘ کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے تو یہ سیاسی جماعتیں اُس امتحان میں ’فیل‘ قرار پائیں گی‘ جس کے مراحل صرف اُن کی انتخابی کارکردگی سے متعلق نہیں بلکہ امانت و دیانت کی ایسی مثالیں قائم کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے‘ جس سے دیکھا دیکھی تہذیب و تمدن کی شعوری منزلیں طے ہوتی چلی جائیں۔

تحریک انصاف کے لئے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ جماعتی فیصلہ سازی میں اختیارات رکھنے والوں کو اپنی ذات کے علاؤہ کسی دوسرے میں خوبیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ یہی محرک صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر موزوں اُمیدواروں کے چناؤ کے وقت پیش آیا جبکہ سینیٹ اور بعدازاں بلدیاتی انتخابات کے لئے ضلع و تحصیل کے کئی ’پارٹی ٹکٹ‘ بھی ’’اتفاقاً‘‘ اُنہی افراد کے حصے میں آئے جو کسی نہ کسی صورت صوبائی حکومت یا مرکزی قیادت کے قریب تھے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ کسی ضلع میں صوبائی وزیر کے بھائی کے علاؤہ کوئی دوسرا پارٹی کارکن اہل ہی دکھائی نہ دیتا ہو! مقامی حکومتوں کے انتخاب کے لئے ہری پور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ اُور مانسہرہ کے اضلاع میں جو کچھ ہوا‘ اس کے لئے صوبائی چیف ایگزیکٹو بھی ذمہ دار ہیں‘ جن کی سہل پسند طبعیت جنونی کارکنوں کو صرف اُن کی ذات ہی سے نہیں بلکہ تحریک سے فاصلہ رکھنے کی مؤجب ہے۔

روایت شکن ’تحریک انصاف‘ کی قیادت جس انداز میں مشکل فیصلوں سے گریز کر رہی ہے‘ اس سے ’پشاور‘ جیسے مرکز میں پارٹی کی مقبولیت اگر کم نہیں تو متاثر ضرور ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سکندر پورہ کے رہائشی اُس پینافلیکس پوسٹر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے‘ جس میں صرف اہل علاقہ ہی نہیں بلکہ پورے انتخابی حلقے کے رہنے والوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی منچلے نے ’’تلاش گمشدہ‘‘ کے زیرعنوان لکھ چھوڑا ہے کہ ’’ہمارے حلقے سے مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی لاپتہ ہیں۔ آخری مرتبہ اُن کو ٹیلی ویژن کے ایک ’ٹاک شو‘ میں بڑی بڑی باتیں کرتے سنا گیا تھا۔ جن کو معلوم ہو‘ قریبی ’ایدھی سنٹر‘ کو مطلع کریں۔ اطلاع دینے والے کو تحریک انصاف کا جھنڈا بطور انعام دیا جائے گا۔‘‘ اِس عبارت میں چھپا طنز اُس سیاسی غلطی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جب پشاور سے غیرمقامی کارکن کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا گیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پشاور شناسی ایک ایسی نعمت ہے جو یہاں قیام پذیر ہونے والے بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ بہرکیف سمجھنا ہوگا کہ سیاست کے برگ وبار اتفاقیہ یا حادثاتی کارکردگی کا نتیجہ نہیں ہوتے اور نہ ہی حاصل ہونے والی انتخابی کامیابی پر اکتفا کرلیا جاتا ہے بلکہ اِس عملی شعبے کے عملی تقاضے یہ ہیں کہ ہر دن اِس یقین کے ساتھ نئی فصل کاشت کی جائے کہ آنے والا ہر سال اور ہر دن بھی ہمارا ہی ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی دلچسیاں صوبہ پنجاب جبکہ صوبائی قیادت موجودہ پہلے موقع کو آخری سمجھتے ہوئے قناعت کئے بیٹھی ہیاُور وہ کم از کم خیبرپختونخوا کی حد تک (آئندہ) کسی اہم سیاسی کردار اُور کسی بڑی ذمہ داری کے ادا کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار (آمادہ) ہی نہیں۔
Banner hanged in Sikandar Town Peshawar showing displeasure of elected MPA of PTI Shoukat Yusufzai

No comments:

Post a Comment