ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم کا فتنہ!
تعلیم کا فتنہ!
’’علم کیا‘ علم کی حقیقت کیا: جیسی جس کے گمان میں آئے‘‘ لیکن سردست تڑپ
’علم کی حقیقت‘ تک رسائی سے متعلق نہیں بلکہ اُس جامع عمل کے بارے میں ہے
جسے ’’تعلیم‘‘ کہتے ہیں۔ اگرچہ آئین کی رو سے ہر بچے کے لئے بلاامتیاز‘
معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن وفاقی
حکومت نے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے لائی گئی ایک آئینی ترمیم
کے ذریعے بنیادی‘ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سے متعلق وزارتیں (ذمہ داریوں) کو
صوبائی حکومتوں کے حوالے کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اِس ’آئینی
ذمہ داری‘ کو کچھ اِس انداز سے مزید تقسیم کر دیا کہ اب وفاق یا صوبوں میں
سے کسی کو بھی طبقاتی‘ استحصالی‘ دوہرے‘ غیرمعیاری یا پھر درآمدی نظام
تعلیم رائج کرنے کے لئے ذمہ دار (مرتکب) قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر حکومتی
اداروں میں دی جانے والی تعلیم کا معیار قابل بیان ہوتا تو کوئی وجہ نہیں
تھی کہ ملک کے ساٹھ فیصد سے زائد والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو ایسے نجی
تعلیمی اداروں کے حوالے کرتے کہ جہاں درس و تدریس کا عمل منافع بخش کاروبار
ہونے کے ساتھ ایک اُور منفی اثر بھی رکھتا ہے کہ اِس پر اسلام اور مشرقی
اقدار کی بجائے مغربی معاشرے کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ایک خاص سوچ کے تابع
مشینی انداز میں بول چال‘ ملنے جلنے یا اُٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے‘ عمومی
اَدب آداب‘ کھانے پینے حتیٰ کہ سونے جاگنے کے اطوار رکھنے والے اجنبیوں کی
تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
والدین مسرور ہیں کہ اُن کی اولادیں انگریزی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سانس تک نہیں لیتیں لیکن بقول اِقبالؒ : ’’اللہ سے کرے دُور‘ تو تعلیم بھی فتنہ‘‘ تو کیا اقدار سے عاری ماحول میں بچوں کی اُس ذہنی اُور فکری پرورش کے خوفناک نتائج کے بارے میں بھی کبھی سوچا گیا‘ جو ہماری بنیادوں کو مسلسل کھوکھلا کئے جا رہا ہے؟ تعلیم کے نام پر من چاہی قیمت وصول کرنے والوں کو جس انداز میں کھلی چھوٹ حاصل ہے وہ اپنی جگہ لمحۂ فکریہ لیکن مغربی نصاب کی پاکستان میں مقبولیت اور غیرملکی امتحانی بورڈز کے تحت امتحانات لینے کا عمل جس خاموشی و تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے وہ دن دور نہیں کہ جب اسلام آباد میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کرانے کی طرح پاکستان کا اپنا تعلیمی نصاب اور امتحانی بورڈز کی اہمیت و ضرورت صرف اتنی ہی باقی رہ جائے گی کہ اِس کے ذریعے کم مالی وسائل رکھنے والوں کے بچے ’ماسٹرز‘ کرنے کے باوجود بھی صرف ’درجۂ چہارم‘ کی ملازمتیں تلاش کرتے پھریں گے!
وفاقی حکومت کے اِدارے ’مسابقتی کمیشن آف پاکستان (www.cc.gov.pk)‘ نے ’کمپیٹیشن ایکٹ 2010ء‘ کے تحت نجی تعلیمی اِداروں کو ماہانہ فیسوں اُور دیگر اخراجات کی مد میں من چاہی وصولیاں کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے والدین سے درخواست کی ہے کہ وہ اِس متعلق اپنی شکایات oftcomplaints@cc.gov.pk (اِی میل) پر ارسال کریں۔ اس بارے میں اگرچہ زیادہ کھل کر بات نہیں کی گئی اُور نہ ہی اُن حالات و واقعات کا ذکر ویب سائٹ پر موجود ہے جس کی وجہ سے یہ نوٹس لینے کی ضرورت پیش آئی‘ کیونکہ تعلیمی اِداروں کی بھاری فیسیں اور بھاری بھرکم سکول بیگز کا مسئلہ صرف غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو درپیش ہے‘ جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں‘ انہیں کم ازکم ساٹھ ہزار روپے ماہانہ فیس ادا کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں! حسب آمدنی ٹیکس ادا نہ کرنے والے سرمایہ داروں کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ’ٹھگ‘ معزز بنا ہوا ہے اور اگر آپ کو اِس حقیقت سے اتفاق نہ ہو تو خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے سپرئم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد کے اُن ریمارکس پر توجہ کیجئے جو اُنہوں نے گذشتہ روز (سات ستمبر) کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیتے ہوئے کہا کہ ’’ٹیکس ادا نہ کرنے سے وصولی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہر بنگلے کے دروازے پر دستک دی جائے اور پوچھا جائے کہ یہ بنگلہ کہاں سے حاصل ہونے و الی آمدنی سے بنایا گیا اُور اگر صاحب خانہ کے پاس جواب نہ ہو تو وہ بنگلہ سرکار ضبط کر لے!‘‘
المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کی کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جو اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرے۔ حتیٰ کہ احتساب کا قانون اور احتساب کے ادارے کے سربراہ کی تعیناتی بھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کرتے ہوئے ایسے منظور نظر فرد کا چناؤ کیا جاتا ہے‘ جو دونوں جماعتوں کے لئے یکساں قابل قبول بھی ہو اور اُس کی وفاداری کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی جماعت کی جانب نہ ہو! یہی طریقۂ کار الیکشن کمیشن کے سربراہ کے چناؤ کے لئے بھی رکھا گیا ہے! مسابقتی کمیشن کا احوال سنیئے کہ اِس نے سال 2013ء میں 5‘ سال 2014ء میں صفر ‘اور رواں برس اب تک صارفین کا استحصال کرنے کی پاداش میں مختلف نجی اِداروں کو 11 نوٹس جاری کئے ہیں۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر معاملات طے پا جائیں گے اور پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ اصل کہانی کیا تھی۔ جھوٹ لگتا ہے کہ کسی ’وی وی آئی پی‘ کے بچے کو نجی سکول کی من چاہی کلاس میں داخلہ نہیں دیا گیا اور نجی سکولوں نے اجتماعی طور پر ’چوری شدہ ٹیکس‘ سے دیئے جانے والا ماہانہ حصے کی شرح بڑھانے سے انکار کر دیا ہے جس پر اچانک مسابقتی کمیشن جاگ اُٹھا ہے جبکہ پوری قوم سو رہی ہے!
والدین مسرور ہیں کہ اُن کی اولادیں انگریزی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سانس تک نہیں لیتیں لیکن بقول اِقبالؒ : ’’اللہ سے کرے دُور‘ تو تعلیم بھی فتنہ‘‘ تو کیا اقدار سے عاری ماحول میں بچوں کی اُس ذہنی اُور فکری پرورش کے خوفناک نتائج کے بارے میں بھی کبھی سوچا گیا‘ جو ہماری بنیادوں کو مسلسل کھوکھلا کئے جا رہا ہے؟ تعلیم کے نام پر من چاہی قیمت وصول کرنے والوں کو جس انداز میں کھلی چھوٹ حاصل ہے وہ اپنی جگہ لمحۂ فکریہ لیکن مغربی نصاب کی پاکستان میں مقبولیت اور غیرملکی امتحانی بورڈز کے تحت امتحانات لینے کا عمل جس خاموشی و تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے وہ دن دور نہیں کہ جب اسلام آباد میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کرانے کی طرح پاکستان کا اپنا تعلیمی نصاب اور امتحانی بورڈز کی اہمیت و ضرورت صرف اتنی ہی باقی رہ جائے گی کہ اِس کے ذریعے کم مالی وسائل رکھنے والوں کے بچے ’ماسٹرز‘ کرنے کے باوجود بھی صرف ’درجۂ چہارم‘ کی ملازمتیں تلاش کرتے پھریں گے!
وفاقی حکومت کے اِدارے ’مسابقتی کمیشن آف پاکستان (www.cc.gov.pk)‘ نے ’کمپیٹیشن ایکٹ 2010ء‘ کے تحت نجی تعلیمی اِداروں کو ماہانہ فیسوں اُور دیگر اخراجات کی مد میں من چاہی وصولیاں کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے والدین سے درخواست کی ہے کہ وہ اِس متعلق اپنی شکایات oftcomplaints@cc.gov.pk (اِی میل) پر ارسال کریں۔ اس بارے میں اگرچہ زیادہ کھل کر بات نہیں کی گئی اُور نہ ہی اُن حالات و واقعات کا ذکر ویب سائٹ پر موجود ہے جس کی وجہ سے یہ نوٹس لینے کی ضرورت پیش آئی‘ کیونکہ تعلیمی اِداروں کی بھاری فیسیں اور بھاری بھرکم سکول بیگز کا مسئلہ صرف غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو درپیش ہے‘ جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں‘ انہیں کم ازکم ساٹھ ہزار روپے ماہانہ فیس ادا کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں! حسب آمدنی ٹیکس ادا نہ کرنے والے سرمایہ داروں کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ’ٹھگ‘ معزز بنا ہوا ہے اور اگر آپ کو اِس حقیقت سے اتفاق نہ ہو تو خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے سپرئم کورٹ کے جج جسٹس دوست محمد کے اُن ریمارکس پر توجہ کیجئے جو اُنہوں نے گذشتہ روز (سات ستمبر) کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیتے ہوئے کہا کہ ’’ٹیکس ادا نہ کرنے سے وصولی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہر بنگلے کے دروازے پر دستک دی جائے اور پوچھا جائے کہ یہ بنگلہ کہاں سے حاصل ہونے و الی آمدنی سے بنایا گیا اُور اگر صاحب خانہ کے پاس جواب نہ ہو تو وہ بنگلہ سرکار ضبط کر لے!‘‘
المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کی کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جو اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرے۔ حتیٰ کہ احتساب کا قانون اور احتساب کے ادارے کے سربراہ کی تعیناتی بھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کرتے ہوئے ایسے منظور نظر فرد کا چناؤ کیا جاتا ہے‘ جو دونوں جماعتوں کے لئے یکساں قابل قبول بھی ہو اور اُس کی وفاداری کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی جماعت کی جانب نہ ہو! یہی طریقۂ کار الیکشن کمیشن کے سربراہ کے چناؤ کے لئے بھی رکھا گیا ہے! مسابقتی کمیشن کا احوال سنیئے کہ اِس نے سال 2013ء میں 5‘ سال 2014ء میں صفر ‘اور رواں برس اب تک صارفین کا استحصال کرنے کی پاداش میں مختلف نجی اِداروں کو 11 نوٹس جاری کئے ہیں۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر معاملات طے پا جائیں گے اور پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ اصل کہانی کیا تھی۔ جھوٹ لگتا ہے کہ کسی ’وی وی آئی پی‘ کے بچے کو نجی سکول کی من چاہی کلاس میں داخلہ نہیں دیا گیا اور نجی سکولوں نے اجتماعی طور پر ’چوری شدہ ٹیکس‘ سے دیئے جانے والا ماہانہ حصے کی شرح بڑھانے سے انکار کر دیا ہے جس پر اچانک مسابقتی کمیشن جاگ اُٹھا ہے جبکہ پوری قوم سو رہی ہے!
No comments:
Post a Comment