Tuesday, September 8, 2015

Sep2015: Education & Counciling

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم و رہنمائی!
ایک وقت تھا کہ میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے اور ایم اے کرنا ہی کافی سمجھا جاتا تھا لیکن آج ہر مضمون کی اتنی شاخیں بن چکی ہیں کہ طلباء و طالبات کو مستقبل میں کیا بننا ہے اور اُن کے رجحانات کیا ہیں؟ معیاری درس و تدریس کے ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں میں ’کیریئر کونسلنگ‘ کا خصوصی انتظام وقت کی ضرورت ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ طلبہ سے زیادہ معلم اور معلم سے زیادہ طلبہ بھٹکی ہوئی روحوں کی طرح یہاں وہاں اڑتے پھرتے ہیں! طالب علم کیا کرے‘ یہ بات سوچتے سوچتے وہ ایسے غلط شعبے کا انتخاب کر بیٹھتا ہے‘ جس سے اُس کی صلاحیتیں سامنے نہیں آ پاتیں۔

ہمارے ہاں طلبہ کو عمومی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جو بہت محنتی اور ذہین ہوتے ہیں‘ ان کو زبردستی سائنس پڑھائی جاتی ہے۔ دوسرے وہ طلبہ ہوتے ہیں‘ جو قدرے متوسط ذہنی استعداد کے حامل ہوتے ہیں‘ انہیں کامرس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور جو طلبہ پڑھائی میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے ان کی قسمت میں آرٹس کے مضامین پڑھنا آ جاتا ہے اور یہ سوچے سمجھے بغیر والدین یا بڑے بہن بھائی زبردستی مضامین کا انتخاب کر کے انہیں وہ مضامین پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں جن میں ان کا کوئی رجحان نہیں ہوتا! اگر آپ نے اپنی پسند اور رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے مضامین کا انتخاب کیا ہے اور اس سے جڑا ہوا کوئی شعبہ ہی آپ کی زندگی کا مقصد ہے تو کوئی بھی آپ کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتا اور آپ اپنا مقصد ضرور حاصل کرتے ہیں لیکن اس کے برخلاف اگر آپ نے وہ مضامین پڑھے جن میں آپ کی کوئی دلچسپی نہیں تھی تو آپ کی ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ خودی سے آگاہی ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اگر کسی طالب علم نے اپنے آپ کو پہچان لیا‘ اپنی طاقت و صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے صحیح انداز میں ان کے استعمال کرنے کا فن سیکھ لیا‘ تو کامیابی اُس کا مقدر بن جائے گی‘ ورنہ دوسری صورت میں طالب علم کی مثال کسی ایسی کشتی جیسی ہوگی‘ جو ہوا کے دوش پر ہچکولے کھاتی کبھی یہاں جاتی ہے تو کبھی وہاں۔ میرے ذاتی خیال میں کوئی بھی طالب علم نالائق نہیں ہوتا۔ وہ نالائق تب تک ہوتا ہے جب تک اسے اس کی مرضی کے برخلاف تعلیم دی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں مناسب کریئر کونسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ غلط تعلیمی فیصلے کرتے ہیں اور غلط کریئر کا انتخاب کر کے اپنی زندگیاں برباد کر لیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں سکولوں‘ کالجوں اور جامعات کی سطح پر باقاعدہ ’کریئر کونسلر‘ تعینات کیے جائیں‘ جو بچوں کے ذہنی رجحان کو دیکھتے ہوئے انہیں مناسب مشورے دے سکیں ورنہ پاکستان کا یہی حال رہے گا کہ بجلی گھر تعمیر ہو نہیں رہے لیکن الیکٹریکل انجینیئر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں تیار ہو رہے ہیں! جو ملکی خزانے اور اپنے ہی گھر پر بوجھ کے علاؤہ اور کچھ بھی نہیں۔

کیرئیر کونسلنگ کی بات کوئی ایسی انوکھی یا قابل عمل بھی نہیں کہ اسے نظرانداز کر دیا جائے۔ پاکستان ہی میں ایسے ادارے موجود ہیں جو بچوں کے ذہنی رجحانات جاننے کے لئے وقتاً فوقتاً متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں بطور خاص ’بیکن ہاؤس سکول سسٹم‘ کا نام لیا جاسکتا ہے جس کی بنیاد نومبر 1975ء میں رکھنے والوں کے نزدیک امریکہ کا مخصوص ماحول اور ضرورت تھی لیکن بعدازاں اس سکول کی شاخیں 9 ممالک میں پھیل گئیں اور فی الوقت ڈھائی لاکھ بچے اِس نظام سے وابستہ ہیں جن میں ایک لاکھ طالب علموں کا تعلق صرف پاکستان سے ہے۔ اسی نظام کے تحت ایک متوزی تعلیمی نظام بھی تخلیق دیا گیا جسے ’ایجوکیٹرز‘ کا نام دیا گیا اور پاکستان میں قریب ڈیڑھ لاکھ بچے اس نظام سے منسلک ہیں۔ ’بیکن ہاؤس سکول سسٹم‘ کی خاص بات ہی یہ ہے کہ اس میں نصابی کتب میں درج اسباق ازبر کرانے کے ساتھ طلباء و طالبات کے ذہنی رجحانات پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اُن کی شخصیات کے چھپے ہوئے پہلوؤں کو تلاش کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے اساتذہ کی تربیت کا برابر اہتمام رہتا ہے۔

مضامین کے انتخاب کے وقت طلباء و طالبات کی رہنمائی کے لئے خصوصی ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’بیکن ہاؤس سکول سسٹم‘ کی ماہانہ فیسیں ادا کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ اوسطاً ساٹھ ہزار روپے ماہانہ فیس کے عوض تعلیم حاصل کرنے والے بچے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک منظم و مرتب تعلیمی نظام میسر آیا ہے لیکن اگر خیبرپختونخوا حکومت چاہے تو سرکاری تعلیمی اِداروں میں بھی ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے آغاز پر بچوں کے ذہنی رجحانات جاننے کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ علاؤہ اَزیں نجی تعلیمی اِداروں کے قواعد میں ترمیم و نظرثانی کرتے ہوئے ’کیرئیر کونسلنگ‘ کو تعلیم کے ساتھ لازم وملزوم قرار دیا جائے۔

No comments:

Post a Comment