Wednesday, September 9, 2015

Sep2015: Lowcost democracy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کم خرچ طرز حکمرانی!
خیبرپختونخوا میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے جاری دور حکومت کا موزانہ اگر ماضی کی دہائیوں سے بھی کیا جائے تو بلاشک و شبہ ’تھانہ و کچہری‘ کے مزاج (کلچر) میں بہتری آئی ہے لیکن یہ واجبی بہتری نہ تو نظام کی اصلاح کے حوالے سے ہے اور نہ ہی ’اَندھا دُھند اِختیارات‘ قابو میں لانے‘ پولیس فورس میں ایسا نظم وضبط متعارف کرانے کہ جس میں وہ اپنے اعلیٰ و ادنیٰ حکام کی طرح عام آدمی کو بھی عزت و تکریم سے نوازیں‘ آبادی کے تناسب سے پولیس کی افرادی قوت‘ مالی و تکنیکی وسائل اور تربیتی مواقعوں میں خاطرخواہ اضافہ‘ پولیس کی صفوں سے کالی بھیڑوں کی صفائی‘ ماضی و حال میں ناجائز ذرائع سے صاحبان ثروت بننے والے پولیس اہلکاروں کا احتساب (ہر پولیس اہلکار کے اثاثہ جات کی تفصیلات اکٹھا کرنا)‘ تھانہ جات میں ایک زمانے سے تعینات اہلکاروں کے جرائم منظم پیشہ عناصر سے روابط یا پھر پولیس کی ساکھ اِس حد تک بہتر بنا دی جائے کہ اِس سے متعلق عام آدمی کی رائے تبدیل ہو جائے۔ ضرورت بہت سے محاذوں پر بیک وقت کام کرنے کی تھی اُور ہے۔ حسب حال اِصلاحی ترجیحات کے تعین میں اعلیٰ حکام کی توجہ نمائشی اِقدامات پر ’زیادہ مرکوز‘ ہونے کے سبب اگرچہ بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے لیکن موقع ہے کہ ’مؤثر پولیسنگ‘ جیسے کثیرالجہتی ہدف کا تعین کرتے ہوئے اُس ایک شعبے کو فعال بنایا جائے‘ جو پولیس اِہلکاروں سے متعلق ’عوامی (عام آدمی کی) شکایات‘ کا ہے۔ عجب ہے کہ پولیس سمیت جملہ سرکاری محکموں سے شکایت صرف عام آدمی کو ہی رہتی ہے‘ خواص جانتے ہیں کہ اُنہیں کس ’چینل‘ کا استعمال کرنا ہے!

یادش بخیر پبلک سیٖٖٖفٹی کمیشن (Public Safety Commission) نامی ایک ادارہ ہوا کرتا تھا‘ جس کا کام تھا کہ اگر کسی پولیس اہلکار کی کارکردگی یا جانبداری کے بارے میں کسی شخص کو شکایت ہو‘ تو وہ اِس سے رجوع کرے لیکن گذشتہ بلدیاتی دور حکومت کے اِختتام (سال 2007ء) کے بعد سے یہ ادارہ ’غیرفعال‘ ہے۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا آغاز 31مئی 2013ء کے روز ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی پرویز خٹک کے بطور 16ویں وزیراعلیٰ حلف لینے سے ہوا۔ جس کے بعد کابینہ کی تشکیل اور دیگر انتظامی اَمور نمٹانے میں مزید کئی ہفتے لگ گئے تاہم امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کا ذکر سیاسی قیادت کے بیانات میں شروع دن ہی سے ملتا ہے۔ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی سیاستدانوں نے اپنی مرضی کے صوبائی اور اضلاع میں پولیس سربراہ تعینات کئے‘ کیونکہ اہلیت کا کوئی دوسرا تصور ہی موجود نہیں! حکومت اور پولیس حکام کے درمیان ملاقاتیں کا سلسلہ بھی ماضی کی طرح روایتی رہا جو صرف صوبائی دارالحکومت پشاور کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اِس مرتبہ حکمراں جماعت کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ ’بنی گالہ‘ (اسلام آباد) تک پھیل گیا۔ غوروخوض اُور مشاورت کے اِس عمل میں کیا جانے والا سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ پشاور پولیس کو ’انسداد پولیو مہمات‘ کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا لیکن جہاں تک عام آدمی کی توقعات تھیں یعنی محکمۂ پولیس کے کسی اہلکار کے بارے شکایات درج کرانے کی جو کمی تھی وہ جوں کی توں برقرار رہی۔ یاد رہے کہ محکمۂ پولیس کے قواعد ’پولیس آرڈر 2002ء‘ کے تحت ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ بنایا گیا تھا‘ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اگر کسی شخص کو یہ محسوس ہو کہ پولیس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے تو وہ مذکورہ ادارے (کمیشن) سے رابطہ کرے گا۔ اِس مقصد کے لئے خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ایک ایک ’پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹ کمیشن‘ کا قیام عمل میں لانا تھا جس کے لئے الگ مالی وسائل (بجٹ) مختص کرنا بھی قواعد کے تحت ضروری قرار دیا گیا۔ اِس کمیشن کے اراکین کی اہلیت بھی طے کی گئی تھی کہ ایسا کوئی بھی شخص جو کسی سیاسی جماعت کا فعال رکن ہو یا گذشتہ چھ ماہ میں کسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہا ہو‘ وہ اِس کمیشن کا بطور ’رکن‘ حصہ نہیں بننے کا اہل نہیں ہوگا۔ الفاظ کی حد تو سب کچھ بہت ہی خوشگوار (مثالی) دکھائی دے رہا تھا لیکن بات قواعد تشکیل کرنے کی حد تک ہی محدود یا سمٹ کر رہ گئی اور فیصلوں کا وسعت کے ساتھ اطلاق یا اُن پر عمل درآمد نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کسی سیاسی حکومت کے دور میں کوئی ایک ایسا ادارہ بھلا کیسے کام کر سکتا ہے‘ جس کے اراکین لازماً غیرسیاسی ہوں؟ آخر ہمارے معاشرے میں ایسے پڑھے لکھے‘ دانشور فکر رکھنے والے فارغ البال کہاں سے میسر آئیں گے جن کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی بھی نہ ہو اُور انہیں ریٹائر ہونے کے بعد ملازمت کرکے اپنا گزراوقات بھی نہ کرنا پڑے؟ جب پولیس کے صوبائی سربراہ اور ضلعی سطح پر اِنتظامی نگرانوں سمیت تھانہ جات و چوکیوں کے نگران و محرر تک ’چنے‘ جاتے ہوں وہاں کسی اَیسے اِدارے کا وجود کیونکر عملاً ممکن ہوسکتا ہے‘ جو خالصتاً غیرسیاسی ہو؟ کیا سیاسی ہونا اتنی ہی بُری بات ہے کہ یہ ’’اچھے خاصے اہل‘‘ شخص کو ہی ’’نااہل‘‘ بنا دے؟ آخر ایسا کیوں نہیں لکھا گیا کہ ’’پبلک سیفٹی اور پولیس کمپلینٹ کمیشن‘‘ کے اراکین کا انتخاب صوبائی حکومت کی صوابدید پر ہوگا اور اگر مذکورہ کمیشن عوام کی خواہشات یا توقعات کے مطابق اپنا کردار غیرجانبداری اور اصولوں کے مطابق اَدا نہیں کرے گا‘ تو اس کی ذمہ دار کمیشن کے اراکین نہیں بلکہ صوبائی حکومت ہوگی!؟ اَفسوس کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو ایک ایسا نظام سمجھا گیا ہے جس میں اختیارات تو افراد کی حد تک مرکوز رہیں لیکن ذمہ داریاں اس حد تک تقسیم کردی جائیں کہ عوام کو یہ بات معلوم ہی نہ ہو سکے کہ اُن کے مسائل و مشکلات کے لئے اَصل ذمہ دار کون ہے!

سال 2002ء میں بننے والے مذکورہ کمیشن کے سال 2007ء تک کے سفر میں ہزاروں ایسی عوامی شکایات کا اَزالہ ہوا‘ جو مقدمات (ایف آئی آرز) کے درج نہ ہونے‘ پولیس اہلکاروں کے بذات خود جرائم میں ملوث ہونے‘ اختیارات کے بیجا یا غلط استعمال اور کسی تنازعہ میں پولیس اہلکاروں کے جانبدار رویئے سے متعلق تھیں۔ قابل ذکر ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت نے مذکورہ کمیشن کو فعال کرنے کے لئے کچھ اقدامات کئے ہیں اور اس سلسلے میں اضلاع کی سطح پر جس نگران تنظیمیں تشکیل دینے کا تصور سوچا گیا ہے اُن میں تین تین قانون ساز ایوانوں اور ضلعی کونسل کے اراکین جبکہ تین (غیرسیاسی) اراکین کا تعلق عوام سے ہوگا۔ درون خانہ ہر ضلع کی سطح پر اِس 9رکنی کمیٹی کی تشکیل کے لئے فہرستیں مرتب کر لی گئیں اُور عمل درآمد کاآغاز وزیراعلیٰ کی منظوری سے ہونے کا انتظار ہے۔ یاد رہے کہ ’پبلک سیفٹی کمیشن‘ کے ضلعی چیئرمین کا عہدہ ’سیشن جج‘ کے مساوی ہوگا‘ جو ایک معزز و بااختیار مقام ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ضلعی کمیشن کی سربراہی کے لئے فہرستیں مرتب کرنے سے زیادہ اُن کی منظوری و تبدیلی کے لئے سیاست میں سرمایہ کاری کئے بیٹھے افراد اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دقیقیے تاخیر ہو رہی ہے!

آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بہت سے سوالات ہیں مثلاً کسی ایک سرکاری محکمے (مثلاً پولیس) ہی کے متعلق شکایات کے بارے اِس قدر وسیع و عریض عہدوں کو جال بچھانے کی آخر ضرورت کیا ہے؟ پبلک سیٖفٹی کا یہی کام ضلعی یا تحصیل ناظمین کیوں نہیں کرسکتے‘ جنہیں الگ دفاتر‘ عملہ اور خطیر مالی وسائل و اختیارات حاصل ہیں؟ وزیراعلیٰ تک شکایات پہنچانے کے لئے ’کمپلینٹ سیل‘ کا مرتب شدہ ’آن لائن نظام‘ کیوں فعال نہیں کیا جاسکتا جہاں بذریعہ ڈاک‘ فون کال‘ فیکس‘ ای میل‘ ویب سائٹ یا حاضر ہو کر تحریری طور پر بمعہ ثبوتوں کسی بھی محکمے سے متعلق شکایات درج کرائی جا سکیں؟ کیا سرکاری مالی وسائل کا محتاط اِستعمال اُور کم خرچ‘ بالانشین طرزحکمرانی (مثالی جمہوریت) قائم نہیں کی جاسکتی؟
How to achieve effective policing in KP. Let the accountability first and listen the public complaints about polic

No comments:

Post a Comment