Thursday, September 10, 2015

Sep2015: Grey shades of Governance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
طرزحکمرانی: ظاہری تقاضے
کسی دانا سے جب یہ پوچھا گیا کہ ’’آپ نے عقل کہاں سے حاصل کی؟‘‘ تو اُنہوں نے اپنے مشاہدے کا ذکر کیا۔ دوسروں کے وہ سبھی کام جن کے نتائج اچھے نہیں ہوتے‘ انہیں ترک اور جن تجربات کے نتائج حوصلہ افزأ تھے اُنہیں اختیار کرتا چلا گیا۔ فہم و فراست میں اضافے کے لئے ’مشاہدے کی صلاحیت‘ تیزدھار ہونی چاہئے۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے جب ’سی این جی‘ کی طاقت سے چلنے والی ایسی تمام مسافر گاڑیوں کو نوٹسیز جاری کئے جو بالخصوص تعلیمی اداروں سے منسلک تھیں اور طلباء و طالبات کی حفاظت کے پیش نظر ’سی این جی ایندھن‘ کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا حکمنامہ جاری کیا گیا تو خیبرپختونخوا حکومت کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اِس سلسلے میں جاری بے قاعدگی کا نوٹس لیتی اور تعلیمی اِداروں کے زیراستعمال ’ٹرانسپورٹ‘ کو محفوظ بنانے کے علاؤہ گنجائش سے زیادہ بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سوار کرنے کا فوری نوٹس لیا جاتا۔ اِنہی سطور میں اِس سے قبل بھی ’بچوں کو سکول لانے لیجانے والی زیراستعمال نجی گاڑیوں‘ کے حوالے سے گزارشات پیش کرتے ہوئے والدین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ’باوجود دیکھنے اور سننے‘ کے خود کو لاتعلق بنائے ہوئے ہیں تو اِس تجاہل عارفانہ کی روش بھی ترک ہونی چاہئے۔

خوش خبری ہے کہ ضلع پشاور کے ٹریفک حکام کو (بالآخر) اِحساس ہوگیا ہے کہ ’’سکول بسیں‘ ویگنیں‘ سوزوکی وینز اور چھوٹی بڑی دیگر گاڑیوں کو نظم وضبط کا پابند ہونا چاہئے!‘‘ اِس سلسلے میں پشاور کے کم اَز کم 60 بڑے تعلیمی اِداروں کو ٹریفک پولیس کی جانب سے نرم لب و لہجے میں ہدایات ارسال کی گئیں ہیں جو آئندہ چند روز میں وصول ہونا بھی شروع ہو جائیں گی جن میں تحریر ملے گا کہ 1: سکول وینز کے ڈرائیور (ڈرائیونگ) لائسینس یافتہ ہونے چاہیءں۔ 2: سکول وینز کے اِنجن دھواں دھار ماحولیاتی آلودگی میں اِضافے کا سبب نہیں ہونے چاہیءں۔ 3: سکول وینز کو کھڑا (پارک) کرنے کے لئے مقررہ مقامات اور نجی ملکیت کی جگہیں ہونی چاہیءں اور چوتھا حکم یہ ہے کہ گنجائش سے زیادہ بچوں کو سکول وینز میں سوار نہ کیا جائے۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے اگرچہ ’سی این جی ایندھن‘ کے استعمال کی جانب توجہ نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ہر گاڑی ایک چلتا پھرتا ’بم‘ جیسی ہے جس پر بچے ہر روز سوار ہوتے ہیں! خدا نہ کرے کسی حادثے کی صورت میں ناقابل تلافی جانی نقصان ہونے کا اندیشہ موجود ہے‘ اِس لئے ٹریفک حکام سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ ’سی این جی سلینڈرز‘ کے استعمال کو نہ صرف تعلیمی اداروں کے لئے گاڑیوں میں ممنوع قرار دیں بلکہ جملہ پبلک ٹرانسپورٹ کو پابند کریں کہ اگر وہ کرائے پیٹرول اُور ڈیزل (ایندھن) کے فی لیٹر نرخوں کے مطابق وصول کرتے ہیں تو پھر ’سی این جی‘ استعمال نہیں کرسکتے۔ یہی حکمنامہ تین سواریوں والے آٹورکشاؤں اور چھ سواریوں والے چنگ چئی و دیگر چھوٹی سواریوں کے لئے بھی ہونا چاہئے۔ گنجان آباد‘ تنگ شاہراؤں والے شہر کے اندرونی علاقوں میں بڑی بسوں کے داخلے پر پابندی اور دس سے بارہ سواریوں کی گنجائش والی ’موڈیفائیڈ سوزوکی وینز‘ کا استعمال متعارف ہونا چاہئے۔ سکولوں کے لئے بارہ سے پندرہ سال سے پرانے ماڈل کی بسیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تاکہ پشاور میں فضائی آلودگی اُور شورکم سے کم کیا جا سکے۔

پشاور ٹریفک پولیس کے اعلیٰ اہلکار سے ہوئی بات چیت میں معلوم ہوا کہ حکام کو سب سے زیادہ تشویش فی گاڑی گنجائش سے زیادہ بچوں کو سوار کرنے کے بارے میں ہے۔ حالانکہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ و سنجیدہ ہے۔ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی جانب سے بین الاضلاعی و بین الصوبائی کرائے ناموں کا اجرأ باقاعدگی سے کیا جاتا ہے جس پر عمل درآمد نہ ہونا ایک الگ موضوع ہے لیکن سکول وینز کے کرائے طے کرنے کے لئے کوئی اتھارٹی (سرکاری نگران ادارہ) موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیسوں کی مد میں من چاہے اضافے کے ساتھ بالخصوص نجی تعلیمی ادارے متوسط گھرانوں کی ہر اُس کمزوری کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں‘ جو خاطرخواہ مالی وسائل نہیں رکھتے یا جن کے پاس سرکاری گاڑیاں اور سرکاری اہلکار بطور ذاتی ڈرائیور نہیں ہوتے۔ مقام افسوس ہے کہ اگر ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘ ٹریفک پولیس اُور نگران ایجوکیشن بورڈ ’جانوروں کی طرح انسانی بچوں کو ہانکتے ہوئے سکول لانے لیجانے کا نوٹس نہیں لیتے‘ تو اِس بارے میں ہائی کورٹ بھی خاموش ہے اور وہ ’مفاد عامہ‘ میں ’سوموٹو (ازخود) نوٹس‘ نہیں لے رہی۔ ایک سے بڑھ کر ایک معزز دانشور وکیل موجود ہے لیکن فرصت نہیں کہ ایک آدھ کیس ہی دائر کرکے ’ثواب دارین‘ حاصل کیا جائے! صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’’پشاور شہر کی حدود میں 20ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن کی گاڑیوں سے بچے لٹک کر سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور جس گاڑی میں دس بچوں کو بٹھانے کی گنجائش ہوتی ہے وہاں (دھرلے سے) بیس سے تیس بچوں کو سوار کرایا جاتا ہے۔‘‘ اِس سلسلے میں حکام کی توجہ ایک باریک نکتے کی جانب بھی مبذول کرانے کا یہی نادر موقع ہے۔ ڈرائیوروں کے ساتھ اگلی سیٹ پر بچوں (طلباء و طالبات‘ چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہوں) کے بیٹھنے پر پابندی عائد ہونی چاہئے‘ اس کی کئی ایک اخلاقی وجوہات ہیں‘ اصولی طور پر ڈرائیور اور بچوں کے درمیان اس قدر قربت درست نہیں کہ وہ ایک معمول کے مطابق جڑ کر سفر کریں۔ دوسری بات سکولوں کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ نہ تو ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال کریں اور نہ ہی گاڑیوں میں ’ایف ایم ریڈیو‘ یا ’یو ایس بی‘ ایل سی ڈی‘ ڈی وی ڈی (ڈسپلے سکرین) سے من پسند موسیقی (فلمی ٹوٹوں یا رقص) سے محظوظ ہوں۔ سکول کی گاڑیوں میں ذومعنی اشعار‘ فلمی ستاروں کی تصاویر‘ اسٹیکرز اور ڈیکوریشن کے نام پر لگائے گئے درجنوں آئینے بھی ہٹائے جائیں تاکہ ڈرائیورز کی توجہ اُن کے اصل کام (ذمہ داری) پر مرکوز رہے۔

سکول وینز کا الگ رنگ‘ الگ کٹیگری کا لائسینس‘ ڈرائیوروں کی کسی ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت‘ ڈرائیورز کے کوائف کی ڈیٹابیس‘ ہر گاڑی میں سی سی ٹی وی کیمرہ (جس میں گاڑی کی رفتار اور وقت خودکار انداز سے محفوظ ہو) اور ’جی پی ایس‘ آلہ کی تنصیب ضروری ہے تاکہ اگر کوئی سکول وین کسی ضلع کی مقررہ حدود اور مقررہ راستے کے علاؤہ کسی اُور طرف گامزن ہو تو متعلقہ حکام کو بروقت اطلاع ہوسکے۔ سکول وینز کے لئے ڈرائیور بننے والوں کی اپنے متعلقہ تھانے سے کلیئرنس ضروری قرار دی جائے تاکہ منشیات کے عادی یا نفسیاتی اُلجھنوں اور جرائم میں ملوث اَفراد اِس شعبے میں طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے شوق پورے نہ کریں۔ یہ صرف حساس نہیں بلکہ انتہائی حساس معاملہ ہے‘ بہتر طرز حکمرانی کلی طور پر پوشیدہ عمل نہیں بلکہ اِس کے کچھ ظاہری تقاضے بھی ہیں۔

درحقیقت یہ ذمہ داری خالصتاً ضلعی حکومت (بلدیاتی نمائندوں) پر عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر عملی اقدامات کریں اور اگر ’نجی تعلیمی اِداروں‘ کا قبلہ راتوں رات درست نہیں ہوسکتا تو کم از کم ماہانہ فیسیں مقرر کرنے کا فارمولہ اُور بچوں کی آمدورفت کے معاملات طے کرتے ہوئے والدین (بطور صارفین) کی راحت اور انہیں اِس بات کا لطیف احساس دلایا جائے کہ ’’فیصلہ ساز اپنے اہل و عیال کی طرح عام آدمی (ہم عوام) کے بچوں کی سہولت اُور حفاظت کے بارے میں بھی زیادہ نہیں تو یکساں فکرمند ضرور ہیں!‘‘

No comments:

Post a Comment