Friday, September 11, 2015

Sep2015: Intolerance and national secuirty situation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عدم برداشت
مقام افسوس ہے کہ ایسی کوئی ایک بھی سیاسی جماعت‘ تنظیم‘ نسلی‘ لسانی گروہ یا قبیلہ نہیں کہ جہاں روئیوں اُور اقدار کی مثالیں بیان کرتے ہوئے تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہو۔ نتیجہ روزمرہ معاشرت میں نظر آنے والی مثالیں ہیں کہ جہاں ہر دوسری بحث دھیمی آواز میں تبادلہ خیال سے شروع ہو کر تیز آواز میں چِلانے اور پھر لاتوں اور گھونسوں کا روپ دھار لیتی ہے! ہماری ہر بحث تشدد کی طرف کیوں چلی جاتی ہے؟ لوگ لڑنا نہیں چاہتے لیکن پھر بھی کسی کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور بات بڑھ جاتی ہے۔ کیا ہمارے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں یا ہمیں لگتا ہے کہ ہماری مؤثر ترین دلیل ہمارا گھونسہ ہے؟

جن معاشروں میں ’اختلاف رائے‘ کی گنجائش نہیں ہوتی‘ اُن کے ہاں تخلیقی خیالات و نظریات کی شاخیں سوکھی رہتی ہیں۔ پھل پھول لگنے کے لئے ’نئی کونپلوں‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اگر لڑائی میں ہاتھ کا اٹھ جانا انتہائی معمولی بات ہے بلکہ بہت سی چھوٹی باتوں پر بھی اسلحہ نکل آتا ہے اور بعد میں اپنی جھوٹی انا کی خاطر اس کا استعمال مزید خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔ بچوں کو ہتھیاروں والے کھلونے خرید کر دینے والوں کا احساس نہیں کہ وہ کس جرم میں ملوث ہو رہے ہیں اور اپنا مستقبل ایک ایسی سوچ کے حوالے کر رہے ہیں جو ماردھار سے بھرپور ہوگا! سوچئے کہ مغربی معاشرے میں مار کٹائی کا کلچر کیوں عام نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی تربیت مار کٹائی کے ذریعے نہیں ہوتی‘ اوائل سے ہی بچوں کو دلائل سے قائل کیا جاتا ہے‘ بچوں کو سوال کرنے سے نہیں روکا جاتا اور نہ ہی ٹوکا جاتا ہے۔ بچوں پر والدین اور بھائی بہن تو کیا کسی بھی شخص کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی‘ اس لئے غصے اور ناراضگی کا اظہار صرف اور صرف باتوں سے کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اگر ہمیں کسی معاشرے میں الفاظ کی حقیقی قدر دکھائی دیتی ہے تو وہ مغربی معاشرہ ہے جہاں ’تھینک یو‘ اُور ’ایکسویز می‘ جیسے الفاظ محض رسمی نہیں بلکہ معنوی انداز میں بولے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ بچوں کو درس و تدریس تربیت کے بہانے اُن کی ٹھکائی کرے۔ دس ستمبر کی شام جب ہمارے وزیرداخلہ ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عملدرآمد کا ذکر کر رہے تھے تو انہوں نے انتہاء پسندی کو فروغ دینے والے محرکات کا قلع قمع کرنے کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اگر ہمارے رویئے تبدیل نہیں ہوں گے‘ اگر ہم دلیل سے بات کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے تو حالات محض قوانین و قواعد کے زور سے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ تجربے کی وہ کنگھی جو بال اجڑ جانے کے بعد ہاتھ میں آئے چہ معنی؟ عہد جوانی میں جب سبھی جھوم جھام کر چلتے ہیں تب یہ متانت کا ہنر ہاتھ کیوں نہیں آتا اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں تو لوگ ساری ساری عمر انسانی مزاج کی پہلی سیڑھی جسے مقابلے کا ماحول کہا جاتا ہے‘ اس سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔ اس درجے کی وضاحت کچھ ایسے کی جا سکتی ہے کہ آپ کسی چائے خانے میں کسی دوست سے کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں‘ اتنے میں ایک شخص کسی ساتھ والی میز سے آپ کی دلیل کی مخالفت شروع کر دیتا ہے۔ کہتا ہے اجی چھوڑیئے آپ کو کیا پتہ‘ مجھے سب پتا ہے وغیرہ۔ ایسے لوگ بدلہ لینے اور دل میں کینہ رکھنے وغیرہ کی صلاحتیوں سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ کمال کے کارکن (حامی) ہوتے ہیں‘ آپ ان کی تعریف کر کے جس کام پر لگانا چاہیں لگا سکتے ہیں‘ جب تک ان کی انا کا مساج ہوتا رہے، ان سے چوبیس گھنٹے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اکثر کارکن اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کا مطلب کھلا دشمنی کا پیغام ہے! اس مقابلہ باز قسم کے انسانوں کی بستی میں کسی کا خون کھول جانا بڑی عام سی بات ہے‘ گھور کر دیکھ رہا تھا‘ کسی گلی سے گزر رہا تھا‘ کھانس کر گزرا‘ پیٹھ پھیر لی اور اس قماش کے دیگر دلائل سے کبھی بھی کہیں بھی کسی کا بھی گریبان پکڑا جا سکتا ہے۔ تھوڑے طاقتور ہوں تو مار پیٹ بھی کی جا سکتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب رویئے ہمارے معاشرے میں کیونکر آ گئے۔ مذہب کی بحثوں میں ایک دوسرے کو کافر بنا کر گردن مار دینے کے فتوے دینا بھی ہمارا ہی محبوب مشغلہ کیوں ہے؟ تھپڑوں کے بغیر ہم بچوں کو کیونکر سمجھا نہیں پاتے؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں حکم منوانے کا ’اوزار‘ ڈنڈا کیوں ہے اور مخالفین کو دھونس‘ دھمکیوں اور گھونسوں سے متاثر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ بچپن سے ہی سمجھانے اور سکھانے کے ان طریقوں کے ہوتے ہوئے ہم یہ سوال بھی کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری قوم پرتشدد کیوں ہے کیونکہ جواب کہیں پوشیدہ نہیں بلکہ ہمارے سامنے موجود ہے!

نیشنل ایکشن پلان کی تحت ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن چینلوں کو ایسے پروگرام اور ڈرامے پیش کرنے سے روکا جائے‘جس میں حقیقی دنیا کے جرائم کی ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے۔ وہ ایک جرم جو کسی دیہی علاقے کے کونے میں رونما ہوتا ہے اُسے پوری دنیا کے سامنے پیش کرکے پاکستانی معاشرے کی جس اَنداز میں خدمت کی جا رہی ہے‘ وہ ذلت آمیز بھی ہے اور سوہان روح بھی۔ سوچئے کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں اور اصلاح کی اِبتدأ کہاں سے ہونی چاہئے!

No comments:

Post a Comment