Saturday, September 12, 2015

National secuirty needs & international cooperation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محتاط سیاست!
خوش آئند ہے کہ پاکستان اُور روس کے درمیان دفاعی تعاون بڑھ رہا ہے‘ پاکستان روس سے ’ایم آئی 35ایم ہیلی کاپٹر‘ کے علاؤہ جدید رین (فورتھ جنریشن کے) ’سینحوئی ایس یو 35‘ لڑاکا جیٹ طیارے حاصل کرے گا۔ روس کے ساتھ دفاعی سازوسامان کی خرید و فروخت خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اس سے قبل روس کے ساتھ انسداد دہشت گردی اُور اقتصادی میدان میں بھی معاہدے ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے خارجہ پالیسی کو پہلے سے زیادہ لچکدار بناکر بھارت کی نیند اُڑا دی ہے۔ روس اس خطے میں ویٹو پاور کا حامل ملک ہے۔ 1980ء کی دہائی تک اس کا طوطی بولتا تھا‘ تب پاکستان نے اس کی طاقت کے سامنے بند باندھا اور ا س کی گرم چشموں تک رسائی ناممکن بنائی لیکن اب اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ روس کے دفاعی آلات آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ روس کی جانب سے جنگی سازو سامان کی فروخت کے معاہدوں کے علاؤہ پاکستان میں تعمیراتی کاموں کے منصوبوں میں دلچسپی تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کڑی ہے۔ پانچ دہائیوں کے بعد دوبارہ پاکستان کے تیل و گیس کے شعبے میں روس سرمایہ کاری اور گیس لائن کا جال بچھانے پر بھی غور کررہا ہے۔ یقینی طور پر اس سے دونوں ممالک کے تعلقات مستحکم ہوں گے۔ روسی نائب وزیر خارجہ نے تو کہہ دیا ہے کہ توقع ہے بھارت حسد نہیں کرے گا۔ بھارت کو حسد کرنا بھی نہیں چاہئے۔ عرب امارات کی بھارت میں سرمایہ کاری پر ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو بھارت کو بھی حسد سے گریز کرنا چاہئے۔ جنگی جہازوں کے ملنے کے بعد یقینی طور پر خطے میں طاقت کا توازن قائم ہوگا اور پاکستان کا دفاع مزید مضبوط ہوگا۔

گذشتہ چند برس میں بھارت اور مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کے درمیان عسکری شعبے میں بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ روس کو شکایت ہے کہ بھارت اُس سے دور ہوتا جا رہا ہے اور یہی وہ وقت ہے کہ جب پاکستان کو روس کے قریب ہو کر فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ امریکہ پر بھروسہ ایک حد تک تو سودمند ہے اور پاکستان کو بھی بھارت کی طرح اپنے مفادات کے لئے یک سو ہونا پڑے گا۔ مثال کے طور پر بھارت روس کے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کی افواج کے پاس 70فیصد سے زیادہ اسلحہ روسی ساخت کا ہے لیکن سال 2011ء میں جب بھارتی فضائیہ کے لئے 126 جدید طیارے خریدنے کا 11ارب ڈالر کا ٹینڈر‘ روس کی بجائے فرانس کی ایک طیارہ ساز کمپنی کو دیا گیا تو روس کے لئے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔ اسی طرح 2012ء میں ایک ارب ڈالر مالیت کے بھاری بوجھ اٹھانے والے ہیلی کاپٹر خریدنے کا آرڈر‘ بھارت نے روس کی بجائے امریکہ کی بوئنگ کمپنی کو دے دیا تو روس نے اِس پر مزید ناراضگی کا اظہار کیا تاہم بھارت کی طرف سے ان اقدامات کا جواز بھی موجود ہے۔ بھارت اور روس کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات بلکہ مضبوط اتحاد سرد جنگ کے زمانے میں قائم ہوا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمہ ور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جس طرح دنیا کے دیگر ممالک نے اپنی اپنی خارجہ پالیسیوں کی سمتیں تبدیل کر لیں‘ اس طرح بھارت نے بھی بھی دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات ازسرنو قائم کرنے کی کوشیں کیں تاکہ روس پر اس کے انحصار کا خاتمہ ہو سکے۔

بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کے کئی ایسے اقدامات ہیں‘ جنہیں باریک بینی سے دیکھنا چاہئے۔ اُنہوں نے ملک کے دس ہزار دیہات کو بجلی فراہم کرنے کے لئے جس طرح کا ہدف مقرر کیا ہے اور ساتھ ہی بجلی کے محتاط استعمال کے لئے ملک گیر مہم چلا رہے ہیں‘ اُس سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر توانائی کے ’نندی پور منصوبے‘میں بدعنوانی کی بازگشت ایک ایسا المیہ ہے‘ جس کے منفی اثرات نیشنل ایکشن پلان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ موجودہ حکومت نے بجلی کا مسئلہ تین مہینے میں حل کرنے کا وعدہ کر کے عوام سے ووٹ حاصل کئے تھے لیکن اڑھائی سال گزرنے کے باوجود قوم سے کئے وعدے کو پورا نہیں کئے جا سکے۔ نندی پور پراجیکٹ کا منصوبہ بائیس ارب روپے سے شروع ہوا لیکن اب تک اس منصوبے پر ایک سو بیس ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس منصوبے کے افتتاح کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کئے لیکن دو دن کے بعد یہ منصوبہ ٹھس ہو گیا تھا۔ یہ بات صرف وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ خود وزیراعظم کو قوم سے خطاب میں واضح کرنی چاہئے کہ اٹھاون ارب روپے کے منصوبے پر اگر ایک سو بیس ارب روپے خرچ ہو جائیں تو اسے بد انتظامی اور بدعنوانی کا نام اگر نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ نواز لیگ تحریک انصاف کے کام کو آسان کر رہی ہے اور حزب اختلاف کے لئے عام انتخابات میں دھاندلی کے بعد ہاتھ آنے والا یہ ’نیا ایشو‘ خوب اُچھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے حقائق مزید الجھ گئے ہیں کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ مبینہ بدعنوانوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اِس منصوبے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو منظر عام پر لائیں۔

سابق حکومت اور موجودہ حکومت میں جن جن لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ایم ڈی پیپکو نے پندرہ ارب روپے کی بدعنوانی کے جو ثبوت دکھائے ہیں۔ ان کی روشنی میں ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اُور منصوبے میں ضائع ہونے والی قومی دولت کی پائی پائی کا حساب لیا جائے!

No comments:

Post a Comment