Sunday, September 13, 2015

Sep2015: Health is wealth, actually!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جان ہے تو جہان!
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ہوٹلوں (میریٹ و اسلام آباد اِن) اُور نت نئے ذائقوں کے لئے مشہور بیکری (تہذیب) کے فن تعمیر‘ رکھ رکھاؤ‘ ظاہری خوبصورتی و صفائی سے مرعوب ہوئے بناء جب اِنتظامیہ نے اِن معروف دکانوں میں خوراک ذخیرہ رکھنے کے مقامات اُور بالخصوص کچن (کھانے پکانے کی جگہوں) کا معائنہ کیا تو ’اونچی دکان پھیکا پکوان‘ سے زیادہ ایسی حیران کن بے قاعدگیاں سامنے آئیں‘ جن کی کم از کم اِس قدر نامور کمرشل اِداروں سے توقع نہیں تھی اُور یہی سبب تھا کہ صرف واجبی جرمانہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ کچن کو ’سربمہر (سیل)‘ کرتے ہوئے تنبیہ (وارننگ) جاری کر دی گئی لیکن اِنتظامیہ کے لئے یہ بات ’زیادہ حیرت کا باعث‘ ہے کہ ناقص المعیار اشیائے خوردونوش بنا سنوار‘ سجا سجا کر اُور نزاکت و مہارت سے پیش کرنے والوں کے گاہگوں میں کمی نہیں آئی بلکہ مذکورہ ہوٹلوں کی رونقیں جوں کی توں برقرار ہیں! کیا ہم اپنی اور دوسروں کی صحت سے اتنے لاتعلق ہوچکے ہیں کہ حقائق سامنے آنے کے باوجود بھی اپنی عادات ترک یا تبدیل کرنے کو تیار نہیں؟ لمحۂ فکریہ ہے کہ بڑے بڑے ہوٹلوں سے محض تفریح طبع کے لئے رجوع کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد خواتین (اُن بیگمات) کی بھی ہے‘ جن کے لئے ایسی آؤٹنگ اُن کے بلند معاشرتی مقام (اسٹیٹس سیمبل) کا عکاس ہے! دوسروں کی دیکھا دیکھی مصنوعی زندگی اور فیشن زدہ اَندھی تقلید میں اُلجھ کر وقت‘ پیسہ اُور صحت برباد کرنے والوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

اِسلام آباد میں متوسط طبقے بالخصوص ملازمت پیشہ یا سیروسیاحت کے لئے آنے والوں کی اوّلین ترجیح ’بلیو اِیریا‘ میں ’سیور فوڈز‘ کی دکان ہوتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی دھرنوں اُور اسلام آباد میں آئے روز ہونے والی اکثر سیاسی تقاریب میں اِسی ہوٹل کے چاول‘ شامی کباب اور چکن سے تواضع کی جاتی ہے لیکن جب اِنتظامیہ نے ’سیور فوڈز‘ کے تہہ خانے اور بالا خانے میں رکھے ہوئے یخ دانوں (فریزرز) کے ڈھکن کھولے تو پھپھوندی لگا گوشت‘ کباب اور ذبح کی گئی مرغیوں کے ٹکڑے (پیسیز) جنہیں دہی‘ بیسن اور مصالحے لگا کر سٹور کیا گیا تھا تاکہ زیادہ گاہگ آنے کی صورت میں انہیں جلداَزجلد تیار کرکے پیش کیا جاسکے! اُور یہ بات صرف ’سیور اِسلام آباد‘ کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر معروف و غیرمعروف ہوٹلوں یا ریسٹورنٹس کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔
قبل ازیں عمومی تصور یہی تھا کہ ملک کے غریب و متوسط طبقات کی آبادیوں میں اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والے ہی حفظان صحت کے اَصولوں کا خیال نہیں رکھتے اُور صرف ’عام آدمی (ہم عوام)‘ ہی کی صحت خطرات سے دوچار ہے لیکن اسلام آباد میں کھانے پینے کے انتہائی مہنگے اور فیشن ایبل مقامات پر فروخت ہونے والی اشیاء کا جو معیار سامنے آیا ہے‘ اُس سے کم اَز کم اَیک بات واضح ہو چکی ہے کہ ’پشاور سے کراچی تک‘ کی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔

 ’ناجائز‘ منافع خوری اپنی جگہ لیکن صحت و صفائی کے مقررہ معیار اُور اِن سے متعلق قواعد و ضوابط پر عمل درآمد ممکن بنانے والے حکومتی اِداروں کی کارکردگی کھل کر سامنے آ گئی ہے اُور کوئی وجہ نہیں وسیع تر عوامی مفاد اور پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے ملاوٹ شدہ‘ غیر معیاری اُور خراب اشیائے خوردونوش بنانے والوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کاروائی کی جائے۔ اِس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اُور بھاری جرمانے عائد کرنے کے علاؤہ نگرانی کے عمل کو مغربی ممالک کی طرح ایک سے زیادہ اداروں کے حوالے کرنا ہوگا تاکہ ملی بھگت اور بدعنوانی کے امکانات کم کئے جا سکیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مغربی معاشرے میں اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کی مسلسل نگرانی کا عمل ہمارے ہاں کی طرح ’موسمی‘ وقتی یا جذباتی‘ نہیں ہوتا اور دوسرا وہاں کے ’کمرشل کچن ایریاز‘ میں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کرنا ایک لازمی ضرورت ہوتی ہے‘ جن کی لمحہ بہ لمحہ ریکارڈنگز محفوظ (سیو) ہو رہی ہوتی ہیں اُور اِنتظامیہ اچانک دوروں کے دوران اُن محفوظ شدہ ریکارڈنگز کا مشاہدہ کرنے کے علاؤہ کسی بے قاعدگی کی صورت اُن کا ریکارڈ بھی اپنے پاس بطور ثبوت رکھتی ہے۔ علاؤہ ازیں ہر ہوٹل یا دکان میں کھانے پکانے اور اشیاء کو ذخیرہ رکھنے کا ایک تربیت یافتہ نگران ملازم رکھنا ضروری ہوتا ہے‘ جس کی جملہ ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہوتی ہے وہ کچن ایریا میں کام کرنے والے عملے کی صحت کا معائنہ باقاعدگی سے کروائے اور کسی بھی ایسے ملازم کو کچن میں کام کرنے کی اجازت نہ دے‘ جو نزلہ‘ زکام‘ کھانسی یا کسی سبب بخار میں مبتلا ہو۔ مغربی ممالک میں ہوٹل‘ ریسٹورنٹ‘ چائے (کافی) خانہ یا سڑک کنارے برگر آئس کریم یا دیگر اشیاء فروخت کرنے کے خواہشمندوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ میونسپل اداروں سے اجازت نامہ (لائسینس) حاصل کریں‘ جس کے ساتھ صفائی کی صورتحال سے متعلق مرتب کی گئیں ہدایات کو حلفاً تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے اُور بناء اجازت نامہ حاصل کئے اشیائے خوردونوش فروخت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!

پشاور کی مثال لیں‘ جہاں ضلعی انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود بھی اشیائے خوردونوش کا معیار و صفائی کا کم سے کم معیار حاصل ہوتا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ فٹ پاتھ تو کیا نکاسی آب کے نالے اور نالیوں کے کنارے‘ پاؤں کے بل بیٹھ کر کھانے پینے والوں کو نہ تو تعفن پریشان کرتا ہے اور نہ ہی گندگی و غلاظت کے مناظر نظر آتے ہیں! اگر ہر گلی کوچے اور ہر نکڑ پر کھانے پینے کے مراکز ہونا ضروری ہیں تو اُن کے لئے درجات مقرر کرکے صفائی و حفظان صحت کے کم سے کم معیار بھی مقرر ہونے چاہیءں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پشاور میں ’فوڈ سٹریٹ‘ بنا کر جابجا سرراہے کھانے پینے کی دکانیں ایک ہی مقام پر جمع نہیں کی جاسکتیں؟

ضلعی انتظامیہ اِس سلسلے میں نئے اجازت ناموں (لائسینسوں) کا اجرأ کر سکتی ہے‘ جن کے ساتھ نرخنامہ‘ طے شدہ قواعد اور ہدایات پر عمل درآمد کا حلفیہ تحریری اقرار نامہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومت ملاوٹ و ناقص المعیار اشیاء فروخت کرنے والوں کے لئے زیادہ سخت سزائیں متعارف کرا سکتی ہے اور اس سلسلے میں نئی قانون سازی ضروری ہے کیونکہ موجودہ قانون کے تحت اگر کسی کو جرمانہ ہو بھی جائے تو وہ دن کی سزا یا چند لاکھ روپے خرچ کرنے کے عوض پھر سے دکان سجا بلکہ بڑھا دیتا ہے! اصولی طور پر اس بات پر بھی عملدرآمد ہوناچاہئے کہ کسی ہوٹل میں استعمال ہونے والے گھی یا کوکنگ آئل کا نام کیا ہے اور نرخنامے کے ساتھ وہاں اشیائے خوردونوش میں استعمال ہونے والے اجزأ کی تفصیلات بھی آویزاں ہونی چاہیئں۔

خیبرپختونخوا کی سطح پر ہر ضلعی انتظامیہ کا ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ’پبلک ہیلتھ‘ یا مقررہ نرخنوں سے زائد قیمتیں وصول کرنے والوں سے متعلق شکایات درج کرانے کا نظام وضع کرے کیونکہ یہ معاملہ انسانی صحت سے متعلق ہے اور ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ’’جان ہے تو جہان ہے!‘‘
Unhygienic food and beverages are big concern for those prefer to hangouts

No comments:

Post a Comment