Monday, September 14, 2015

Sep2015: Out of reach health facilities

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
علاج معالجہ: بنیادی خامیاں!
انسداد پولیو کے خلاف جاری جدوجہد کے سلسلے میں ’قومی سطح پر‘ تین روزہ مہم کا آغاز چودہ ستمبر کے روز کرتے ہوئے متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ’’سال دو ہزار پندرہ کے دوران ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ صرف 13 کیسیز سامنے آئے‘ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ پولیو وائرس کو شکست دینے کے سلسلے میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ سال 2014ء کے دوران 32 پولیو کیسیز سامنے آئے تھے لیکن سردست مسئلہ یہ نہیں کہ صرف ایک پولیو کا مرض ہی صحت کے شعبے میں پائے جانے والے نقائص کا بیان ہے بلکہ دیگر کئی ایسے امراض ہیں جو اگرچہ پولیو جتنے خطرناک نہیں لیکن اُن سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد اور بیماری کا ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کی شرح تشویشناک ہے۔ ایک مسئلہ شعبۂ صحت کے لئے مختص کئے جانے والے سرکاری وسائل کا بھی ہے کہ جس کا بڑا حصہ غیرترقیاتی امور کی نذر ہو رہا ہے! مثال کے طور پر خیبرپختونخوا میں سال 2007ء سے ’صحت کے بنیادی مراکز (بی ایچ یوز)‘ کے لئے مختص کئے جانے والے مالی وسائل اِس حد تک کم ہیں کہ اِن سے تعمیرومرمت کے کام نہیں کرائے جا سکتے۔ ایسی صورتحال میں صحت کے ہر بنیادی مرکز کے لئے سالانہ صرف 45 ہزار روپے کی رقم مختص کرنا کسی بھی طور پر کافی نہیں جبکہ 25 کروڑ روپے اِن مراکز کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہو رہے ہوں۔ صحت کے بنیادی مراکز کی حالت زار اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ خود محکمانہ رپورٹ کی مطابق خیبرپختونخوا کے ’’200 بنیادی صحت کے مراکز انتہائی خراب حالت میں ہیں۔‘‘

خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی کل 784 سہولیات ہیں جن میں 100 ایسی ہیں جہاں بنیادی سہولیات میسر نہیں اور 200 ایسی ہیں جن کی خستہ حالی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ یہ صورتحال پشاور‘ ہری پور‘ مانسہرہ‘ نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ ہنگو اور لکی مروت کے اضلاع میں زیادہ سنگین ہے۔ کیا یہ امر تشویشناک نہیں کہ سال 2007ء سے خیبرپختونخوا میں صحت کے بنیادی مراکز کی عمارتوں کی تعمیرومرمت کے لئے الگ سے مالی وسائل مختص نہیں کئے گئے!؟ اور جب صحت کے بنیادی مراکز میں سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تو وہاں علاج معالجہ نہیں ہورہا تو اس کا بوجھ اضلاع اور صوبائی دارالحکومت کے مرکزی ہسپتالوں پر منتقل ہو جاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ ضلعی و صوبائی ہیڈکواٹر علاج گاہوں میں معمولی نزلہ و زکام کے مریضوں کی قطاریں بھی لگی دکھائی دیتی ہیں۔ صحت کے موجودہ نظام سے متعلق عام آدمی کی شکایات و مشکلات دور کرنے کی واحد صورت ’علاج معالجے کے بنیادی مراکز‘ کی حالت زار بہتر بنانا ہے اور اس بارے میں ترقیاتی امور کے لئے مالی وسائل مختص کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرناہوگا۔

شعبۂ صحت کو لاحق اَمراض میں ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس‘ اَدویہ ساز اِداروں کے ساتھ شراکت داری کے سبب قائم اِجارہ داری‘ بھاری فیسیں‘ علاج کے لئے تجویز کئے جانے والے تجزئیات اورتجزیہ گاہوں کی سیاست‘ مہنگی و جعلی ادویات کی بھرمار‘ نیم حکیم معالجین‘ متبادل علاج کے نام پر جاری لوٹ مار کا سلسلہ بھی توجہ طلب ہے۔ ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر نجی طور پر صرف معائنہ کیا کرتے تھے لیکن اب تو باقاعدہ ہسپتال اور جراحت (سرجری) بھی نجی طور پر ہو رہی ہے۔

کیا گلی گلی قائم ایسے نجی ہسپتالوں اور تجزیہ گاہوں کو ’ریگولیٹ‘ کرنے والی اتھارٹی کا وجود کہیں دکھائی دیتا ہے؟ ایک وقت وہ بھی تھا جب عوام کی صحت داؤ پر لگانے اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد اپنے علم و تجربے کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کو ’گناۂ کبیرہ‘ سمجھتے تھے۔ راتوں رات امیر بننے والوں کو معاشرہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا لیکن یہ سماجی اقدار وقت گزرنے کے ساتھ غیراہم ہو چکی ہیں! اگر صحت سے متعلق حکومتی محکمے ’کوتاہی‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں تو عام آدمی (ہم عوام) بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ سیاست میں سرمایہ کاری کرنے کی سوچ و عمل قابل مذمت ہیں تو عام انتخابات کے موقع پر اپنا ووٹ نسلی و لسانی بنیادوں اُور گروہی و قبائلی ترجیحات کی نذرکرنے والے بھی یکساں قصور وار ہیں۔

تبدیلی کے لئے حکومت کی طرف دیکھنا کافی نہیں بلکہ اس کے عملاً نفاذکے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر ایک کو اپنے زندہ ہونے اور ضروریات کا احساس دلانا ہوگا بصورت دیگر حالات جوں کے توں برقرار رہیں گے۔ علاج گاہیں صحت کے نام پر بیماریاں پھیلانے کا مؤجب رہیں گی اور علاج کے نام پر معالجین یونہی مار دھاڑ سے بھرپور ڈکیتیاں ’فرماتے‘ رہیں گے!

No comments:

Post a Comment