Tuesday, September 15, 2015

Sep2015: Reforming education is yet so easy & possible!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: جائز و توانا مطالبات
نجی تعلیمی اِداروں کو حکومت کی کڑی نگرانی اور انہیں قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کا مطالبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ’شدت‘ اختیار کرتا چلا جا رہا ہے‘ تاکہ زیرتعلیم بچوں کے والدین (کا بطور صارفین) اِستحصال ’کم سے کم‘ ہو۔ علاؤہ ازیں والدین اُور سرپرستوں کی جانب سے ماہانہ فیسیوں میں آئے روز اِضافے‘ ایک ہی سکول میں دو بہن بھائیوں (سبلنگز) کی صورت فیس میں نصف رعائت‘ نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں و سہولیات کے معیار کی بہتری‘ سائنس کی تجزیہ گاہوں (لیبارٹریوں) اُور کتب خانوں (لائبریریوں) کا قیام‘ نجی تعلیمی اِداروں میں نظم و ضبط کی صورتحال بہتر بنانا‘ اخلاقی اَقدار کی تربیت‘ سکولوں کے حفاظتی انتظامات‘ والدین و اساتذہ کے درمیان رابطوں (پیرنٹس ٹیچرز کونسلوں) کی بحالی و فعالیت‘ اساتذہ کو حسب قابلیت و تجربہ تنخواہیں اُور مراعات کی ادائیگیوں سمیت کئی ایک ایسے مطالبات بھی ہیں‘ جن کا تعلق انتظامی خرابیوں یا نجی اداروں کے معاملات پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے ہے۔ سب سے اہم و بنیادی بات یہ ہے کہ ’’پشاور سے کراچی تک نجی تعلیمی اِداروں اور والدین کے درمیان تعلق اور اِعتماد کا رشتہ ماضی کی طرح مضبوط نہیں رہا۔‘‘ غالب گمان یہی ہے کہ مذکورہ اِدارے والدین کو (فرمان تابع) پیسے دینے کی مشینیں (اَے ٹی اَیم) سمجھتے ہیں‘ جن کی مجبوریوں سے ہر طرح فائدہ اُٹھانا جائز ہے جبکہ نجی تعلیمی اِداروں کے نکتۂ نظر سے حقائق یہ ہیں کہ ’’مہنگائی کا سب سے زیادہ منفی اَثر (دیگر شعبۂ ہائے زندگی) کی طرح خدمات کی فراہمی اُور یوٹیلٹی بلز پر مرتب ہوا ہے‘ جس کا والدین حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِحساس نہیں کر رہے!

نجی تعلیمی اِداروں کے خلاف ملک گیر اِحتجاجی مظاہروں میں صرف والدین ہی نہیں بلکہ صف اوّل میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی شریک ہیں اور ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے پیش پیش ہونے کے ساتھ‘ سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شرکت نے تو جلتی پر تیل جیسا اثر کرتے ہوئے مطالبات کو ’’مزید توانا‘‘ کر دیا ہے۔ تیرہ ستمبر اسلام آباد‘ چودہ ستمبر لاہور‘ کراچی اور پشاور جبکہ پندرہ ستمبر کے روز بھی ملک کے مختلف حصوں میں اِحتجاج ہوئے۔ پشاور کی ضلعی اِنتظامیہ بھی اِس معاملے میں پیش پیش ہے‘ جس نے 14 ستمبر کو نجی اداروں کے مالکان اور والدین کے درمیان ایک پرہجوم اجلاس کے لئے نشترہال کا انتخاب کیا اور چونکہ میزبان (ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام) خود تاخیر سے تشریف لائے‘اِس لئے تعلیمی اداروں کے نمائندے ’واک آؤٹ‘ کر گئے! ایک متاثرہ والد کے بقول ’’برداشت کی بھی حد ہوتی ہے! ہمارے مسئلے کے حل میں متعلقہ ادارے ’خاطرخواہ سنجیدگی‘کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ میرا بیٹا جس سکول میں زیرتعلیم ہے وہاں ماہانہ فیس کے مساوی نصابی کتب و کاپیوں کے لئے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ طلبہ کو کتابیں گھر لیجانے کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر کسی وجہ سے گم یا خراب ہو جائے تو اضافی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ یوں ایک ہی کتاب کئی سال تک فروخت (استعمال) کی جاتی ہے۔ فیس کے علاؤہ دیگر کئی مدوں میں پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ سکول کے کلینڈر‘ اخبار و میگزین کے لئے قیمت وصول کی جاتی ہے۔ بجلی کے جنریٹرز چلانے کے نام پر رقم وصول کی جاتی ہے لیکن شدید گرمی میں ائرکنڈیشن تو کیا پنکھے بھی نہیں چلائے جاتے۔ فلٹرشدہ پینے کا پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ ٹھنڈے پانی کی فراہمی نہیں کی جاتی۔ فی کلاس زیادہ بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ اساتذہ کو کم تنخواہیں دینے کی وجہ سے اُن کی دلچسپی اور ذمہ داریوں کا احساس برقرار نہیں رہتی۔ ماضی میں اساتذہ کو ایک بچہ مفت جبکہ دوسرے بچے کو آدھی فیس کے عوض تعلیم دلوانے کی سہولت دی جاتی تھی‘ یوں متوسط خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو کم تنخواہ پر اعتراض نہیں ہوتا تھا لیکن اساتذہ سے مراعات واپس لینے اور انہیں تنخواہوں کی مد میں کم معاوضہ اَدا کرنے سے تعلیمی عمل متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ یہ جدوجہد صرف خودغرضی پر مبنی نہیں بلکہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اساتذہ کے ساتھ بھی انصاف کا سلوک ہو۔‘‘

ایک سیدھا سادا مسئلہ جسے قانون سازی اور قواعدوضوابط مقرر کرکے باآسانی حل کیا جاسکتا ہے اُور جس کے لئے خیبرپختونخوا حکومت ایک قانونی مسودہ تیار بھی کر چکی ہے تو کیا اَمر مانع ہے کہ مذکورہ مسودۂ قانون فائلوں میں دبا پڑا ہے اور ایک طرف والدین تو دوسری طرف نجی تعلیمی اِداروں کے مالکان مجرموں کی طرح عوام کی نظر میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں حالانکہ اگر نجی تعلیمی اِدارے نہ ہوتے تو کیا سرکاری تعلیمی ادارے اِس قابل تھے کہ اُن پر بھروسہ کیا جاتا یا اب کیا جائے؟ نجی تعلیمی اِدارے اگر اپنی خدمات کا خاطرخواہ معاوضہ (بطور منافع) چاہتے ہیں تو اس کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ اگر وہ ٹیکس چوری کر رہے ہیں تو بھی یہ عمومی مسئلہ ہے اور ہر سرمایہ دار اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس چوری کرتا ہے کیونکہ چوری‘ رشوت اُور بدعنوانی جیسی خباثتوں کا شمار ہمارے معاشرے میں بطور’عیب‘ نہیں کیا جاتا۔

 نجی اِداروں کا معائنہ کرکے اُنہیں فراہم کردہ سہولیات اُور اَساتذہ کی قابلیت کے مطابق درجات (کٹیگریز) میں باآسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ ماہانہ فیسوں کا تعین بھی سکولوں کے درجات کے مطابق ممکن ہے۔ جہاں تک تربیت یافتہ اُور تعلیم یافتہ ’ٹیچنگ سٹاف‘ کا معاملہ ہے تو اِس بات کا اطلاق بھی بذریعہ قانون ہی ممکن ہے۔ چند کمروں پر مشتمل چھوٹے بڑے گھروں میں سکول (بطور کاروبار) کھولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور تعلیم اگر ضرورت ہے تو اِسے مجبوری سمجھنے والوں کی حوصلہ شکنی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مقابلے کی فضا پیدا کی جائے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اِداروں میں درس و تدریس‘ نظم و ضبط و سہولیات کا معیار بہتر (بلند) کیا جائے تاکہ ذاتی مفاد کے زیراثر نجی تعلیمی اداروں کی اجارہ داری‘ من مانیاں اُور لن ترانیاں ختم کی جا سکیں۔

No comments:

Post a Comment