ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بے بسی
بے بسی
خیبرپختونخوا کے وزیر تعلیم عاطف خان فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں نجی سکولوں سے
معاملہ کرتے ہوئے حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ صوبائی حکومت کسی بھی نجی
تعلیمی ادارے کو مجبور نہیں کر سکتی ہے کہ وہ ماہانہ کتنی ٹیوشن فیس وصول
کرے اور اگر اس سلسلے میں زبردستی کی گئی تو اندیشہ ہے کہ نجی سکول ہڑتال
کر دیں گے جبکہ نجی سکولوں کا یہ مؤقف ہے کہ ’’جو والدین تعلیم پر اُٹھنے
والے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے وہ اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں داخل
کروائیں جو اُن کی مالی حیثیت کے مطابق ہوں!‘‘ پندرہ ستمبر کے روز
خیبرپختونخوا حکومت کی نمائندگی کرنے والے صوبائی وزیر اور محکمۂ تعلیم کی
اعلیٰ سطحی نمائندگی کے روبرو والدین نے تلخ و تند لہجے میں شکایات کے
انبار لگا دیئے کیونکہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے لیکن اِس پورے معاملے
میں نہ صرف والدین بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں بلکہ حکومت بھی نجی
تعلیمی اِداروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ ایسی آئین سازی ہی موجود
نہیں‘ جس کے ذریعے کسی بھی شعبے کے نجی مالکان کے منافع کی زیادہ سے زیادہ
حد مقرر کی گئی ہو!
والدین کو پہلی بار اِس تلخ حقیقت کا احساس ہوا ہے کہ اُن کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کیا رہی اور کیا ہونی چاہئے۔ محض مطالبے یا ہمدردی کی بنیاد پر حکومت کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ نہیں دے سکتی بلکہ حقوق کا تحفظ صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ ’آئین اور قواعد و ضوابط‘ طے ہوں اور انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر محض لاگو کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہو۔ ہمارے قانون ساز ایوانوں کے اراکین ’قانون سازی‘ سے زیادہ اپنے انتخابی حلقوں میں تعمیراتی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون سازی جیسی اہم ضرورت پس پشت ڈال دی جاتی ہے چونکہ نجی تعلیمی اداروں کا معاملہ پہلی بار حسب ضرورت پوری شدت سے اُٹھایا گیا ہے‘ اُور اِس حوالے سے پورے ملک میں ایک اتفاق رائے بھی پایا جاتا ہے لیکن برسوں کا کام راتوں رات نہیں نمٹایا جاسکتا۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں باوجود خواہش بھی نہ تو تیزرفتار قانون سازی کرسکتی ہیں اور نہ ہی اُس کا فوری اطلاق ممکن ہوگا۔
صوبائی وزیرتعلیم اُور متعلقہ محکمۂ کے جن اعلیٰ حکام کے سامنے والدین فریاد کر رہے تھے اُن کی اکثریت خود بھی اور اُن کے اہل و عیال بھی نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں‘ جن کے لئے ہزاروں روپے ماہانہ فیسیں یا دیگر ضمنی اخراجات ادا کرنا قطعی کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک موقع پر تو یوں محسوس ہوا کہ والدین اور سرپرست جس دیوار سے ماتھا پھوڑ بیٹھے ہیں‘ اُس کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ فیسوں میں اضافے کے ’شریک جرم‘ وہ سبھی سرمایہ دار اُور فیصلہ ساز ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کے بچوں کے ہمراہ محدود مالی وسائل رکھنے والے متوسط گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل نہ کریں! یہ فعل بالکل ہندو معاشرے میں پائے جانی والی اُس تفریق سے مماثلت رکھتا ہے جس سے نفرت کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے بچوں کو نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ ’’آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان برصغیر اپنے ساتھ انسانی مساوات کا تصور بھی لائے جس کامفہوم یہ تھا کہ تمام انسان حضرت آدم اور اماں حوا کی اولاد ہیں جبکہ اُس وقت کے غالب رائج ہندو مذہب چار طبقات پرمشتمل تھا۔ برہمن‘ کشتری‘ ویش اُور شودر۔ ہندوؤں کا اعتقاد تھا کہ برہمنوں کو سب سے اونچا معاشرتی مقام حاصل ہے کیونکہ وہ برہما دیوتا کے سر سے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرے درجے پر کشتری ہیں جو برہما دیوتا کے بازوں سے پیدا ہوئے۔ تیسرے درجے پر ’ویش‘ اور چوتھے درجے پر شودر ہیں جو نچلے دھڑ سے تخلیق کئے گئے اُور اِن کا کام معاشرے کی خدمت کرنا ہے۔‘‘ برہمن اُور کشتری سیاسی حکمراں (راجے مہاراجے‘ فوجی سپاہی) جبکہ ’ویش‘ کھیتی باڑی (زراعت) اُور ’شودر‘ جوتے بنانے‘ صفائی گندگی وغیرہ اُٹھانے جیسے کام کرنے کے لئے مخصوص تھے اور کسی بھی ذات والے کو یہ اِختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی معاشرتی حیثیت (ذات) تبدیل کر سکیں۔ جو ’برہمن‘ پیدا ہوتا وہ تاحیات کے لئے برہمن اُور شودر کی ساری زندگی ’شودروں‘ جیسی ہی رہتی تھی۔ دعوت فکر ہے کہ فرصت کے کسی لمحے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے کہ ’’کیا ہمارے ہاں (استحصالی) نظام تعلیم قوم کو اِسی طرح کے چار طبقات میں تقسیم نہیں کرتا؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش کہ (متوسط و) غریب (ویش اور شودر) ہمیشہ غریب ہی رہیں؟‘‘
یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی کے آخری دور حکومت میں نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایک قانون سازی اُس وقت کے وزیرتعلیم سردار حسین بابک کی زیرنگرانی تحریر کی گئی تھی لیکن اُسے اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاسکا اور مذکورہ حکومت آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد جب دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ووٹوں کی طلبگار ہوئی تو اُس کا حشر آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے! مئی دو ہزارتیرہ کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے ’یکساں نظام تعلیم‘ رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اقتدار کی قریب آدھی مدت مکمل ہونے کے باوجود بھی اِس وعدے پر تاحال عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آرہا جبکہ نجی تعلیمی اداروں کے معاملات الگ سے قانون سازی کے ذریعے اصلاح چاہتے ہیں۔
دانشمندی و انصاف کا تقاضہ تو بس یہی ہے کہ ’بے بسی کا مظاہرہ‘ کرنے کی بجائے حکمراں و اتحادی سیاسی جماعتیں آئندہ کے چناؤ (انجام) پر نظر رکھیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت جس طبقاتی اور استحصالی نظام تعلیم سے نجات چاہتی ہے‘ اُسے طول دینے کی کوشش یا حیلے بہانے کم اَزکم خیبرپختونخوا کی حد تک ہر اُس انقلابی کا سیاسی مستقبل تاریک کر سکتی ہے‘ جس کے قول و فعل سے تضاد جھلک رہا ہو!
والدین کو پہلی بار اِس تلخ حقیقت کا احساس ہوا ہے کہ اُن کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کیا رہی اور کیا ہونی چاہئے۔ محض مطالبے یا ہمدردی کی بنیاد پر حکومت کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ نہیں دے سکتی بلکہ حقوق کا تحفظ صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ ’آئین اور قواعد و ضوابط‘ طے ہوں اور انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر محض لاگو کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہو۔ ہمارے قانون ساز ایوانوں کے اراکین ’قانون سازی‘ سے زیادہ اپنے انتخابی حلقوں میں تعمیراتی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون سازی جیسی اہم ضرورت پس پشت ڈال دی جاتی ہے چونکہ نجی تعلیمی اداروں کا معاملہ پہلی بار حسب ضرورت پوری شدت سے اُٹھایا گیا ہے‘ اُور اِس حوالے سے پورے ملک میں ایک اتفاق رائے بھی پایا جاتا ہے لیکن برسوں کا کام راتوں رات نہیں نمٹایا جاسکتا۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں باوجود خواہش بھی نہ تو تیزرفتار قانون سازی کرسکتی ہیں اور نہ ہی اُس کا فوری اطلاق ممکن ہوگا۔
صوبائی وزیرتعلیم اُور متعلقہ محکمۂ کے جن اعلیٰ حکام کے سامنے والدین فریاد کر رہے تھے اُن کی اکثریت خود بھی اور اُن کے اہل و عیال بھی نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں‘ جن کے لئے ہزاروں روپے ماہانہ فیسیں یا دیگر ضمنی اخراجات ادا کرنا قطعی کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک موقع پر تو یوں محسوس ہوا کہ والدین اور سرپرست جس دیوار سے ماتھا پھوڑ بیٹھے ہیں‘ اُس کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ فیسوں میں اضافے کے ’شریک جرم‘ وہ سبھی سرمایہ دار اُور فیصلہ ساز ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کے بچوں کے ہمراہ محدود مالی وسائل رکھنے والے متوسط گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل نہ کریں! یہ فعل بالکل ہندو معاشرے میں پائے جانی والی اُس تفریق سے مماثلت رکھتا ہے جس سے نفرت کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے بچوں کو نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ ’’آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان برصغیر اپنے ساتھ انسانی مساوات کا تصور بھی لائے جس کامفہوم یہ تھا کہ تمام انسان حضرت آدم اور اماں حوا کی اولاد ہیں جبکہ اُس وقت کے غالب رائج ہندو مذہب چار طبقات پرمشتمل تھا۔ برہمن‘ کشتری‘ ویش اُور شودر۔ ہندوؤں کا اعتقاد تھا کہ برہمنوں کو سب سے اونچا معاشرتی مقام حاصل ہے کیونکہ وہ برہما دیوتا کے سر سے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرے درجے پر کشتری ہیں جو برہما دیوتا کے بازوں سے پیدا ہوئے۔ تیسرے درجے پر ’ویش‘ اور چوتھے درجے پر شودر ہیں جو نچلے دھڑ سے تخلیق کئے گئے اُور اِن کا کام معاشرے کی خدمت کرنا ہے۔‘‘ برہمن اُور کشتری سیاسی حکمراں (راجے مہاراجے‘ فوجی سپاہی) جبکہ ’ویش‘ کھیتی باڑی (زراعت) اُور ’شودر‘ جوتے بنانے‘ صفائی گندگی وغیرہ اُٹھانے جیسے کام کرنے کے لئے مخصوص تھے اور کسی بھی ذات والے کو یہ اِختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی معاشرتی حیثیت (ذات) تبدیل کر سکیں۔ جو ’برہمن‘ پیدا ہوتا وہ تاحیات کے لئے برہمن اُور شودر کی ساری زندگی ’شودروں‘ جیسی ہی رہتی تھی۔ دعوت فکر ہے کہ فرصت کے کسی لمحے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے کہ ’’کیا ہمارے ہاں (استحصالی) نظام تعلیم قوم کو اِسی طرح کے چار طبقات میں تقسیم نہیں کرتا؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش کہ (متوسط و) غریب (ویش اور شودر) ہمیشہ غریب ہی رہیں؟‘‘
یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی کے آخری دور حکومت میں نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایک قانون سازی اُس وقت کے وزیرتعلیم سردار حسین بابک کی زیرنگرانی تحریر کی گئی تھی لیکن اُسے اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاسکا اور مذکورہ حکومت آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد جب دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ووٹوں کی طلبگار ہوئی تو اُس کا حشر آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے! مئی دو ہزارتیرہ کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے ’یکساں نظام تعلیم‘ رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اقتدار کی قریب آدھی مدت مکمل ہونے کے باوجود بھی اِس وعدے پر تاحال عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آرہا جبکہ نجی تعلیمی اداروں کے معاملات الگ سے قانون سازی کے ذریعے اصلاح چاہتے ہیں۔
دانشمندی و انصاف کا تقاضہ تو بس یہی ہے کہ ’بے بسی کا مظاہرہ‘ کرنے کی بجائے حکمراں و اتحادی سیاسی جماعتیں آئندہ کے چناؤ (انجام) پر نظر رکھیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت جس طبقاتی اور استحصالی نظام تعلیم سے نجات چاہتی ہے‘ اُسے طول دینے کی کوشش یا حیلے بہانے کم اَزکم خیبرپختونخوا کی حد تک ہر اُس انقلابی کا سیاسی مستقبل تاریک کر سکتی ہے‘ جس کے قول و فعل سے تضاد جھلک رہا ہو!
No comments:
Post a Comment