Thursday, September 17, 2015

Sep2015: Practical approach & agriculture sector

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زراعت: عمل کی دنیا!
کاشتکاروں کا اپنا نکتۂ نظر ہے جو سیاسی و انتخابی ترجیحات سے مطمئن نہیں اور یہ تاثر رکھتے ہیں کہ اُن کی قانون ساز اداروں اور فیصلہ سازی میں نمائندگی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں زراعت کو ترجیح دینے کے مطالبات الفاظ بدل بدل کر پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں کی جانب سے 341 ارب روپے کے ’زرعی ریلیف پیکج‘ کے ثمرات خیبرپختونخوا کے چھوٹے کاشتکاروں تک بھی پہنچنے چاہیءں اور ماضی کی طرح حکومت کی طرف سے رعائت کا فائدہ بڑے جاگیردار‘ سرمایہ دار اور وہ برائے نام بڑے کاشتکار نہ اُٹھا لیں‘ جو نہ تو آمدنی پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور نہ ہی قدرتی آفات کی وجہ سے اُن کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی اراضیاں اجارے پر دے رکھی ہیں! قابل ذکر ہے کہ چار حصوں پر مشتمل ’زرعی ریلیف پیکج‘ میں زرعی شعبے کی مالی معاونت‘ پیداواری لاگت میں کمی‘ زرعی قرضوں کی فراہمی اور قرضوں کے حصول کو آسان بنانا شامل ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے پیدا کردہ روٹی روزگار‘ مہنگائی اور توانائی کی قلت کے گھمبیر مسائل سے عاجز آکر ہی نواز لیگ سے توقعات وابستہ کیں جو ہنوز پورا ہونا باقی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی فہم و فراست کو داد دیجئے جنہوں نے اپنے ہاں زرعی شعبے کو ترقی دینے کی بجائے بھارت کے ساتھ تجارت پر زیادہ توجہ نہیں تاکہ وہاں سے پیاز سبزی اور دیگر اجناس درآمد کی جائیں! ہمیں حکمرانوں سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی توقع نہیں لیکن کم از کم زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے غذائی خودکفالت جیسے بنیادی ہدف کے بارے میں سوچ بچار کرنی چاہئے۔

 خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع اور متصل قبائلی علاقوں میں تیلدار اجناس کاشت کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جن کے لئے صوبائی حکومت خصوصی مراعاتی پیکج کا اعلان کرکے زراعت و کاشتکار دوست ہونے کا عملی ثبوت دے سکتی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ زرعی ملک ہونے کے ناطے ہماری معیشت کا چونکہ انحصار ہی زراعت کی ترقی پر ہے اس لئے حکومت سے توقع تھی کہ وہ کم از کم کسانوں اور زمینداروں کو سہولتیں اور ٹیکس چھوٹ دی جائے مگر تاجروں اور دیگر کاروباری طبقات کی طرح کسان بھی ’’ودہولڈنگ ٹیکس‘‘ جی ایس ٹی اور دیگر کئی ٹیکسوں کی زد میں ہیں جن کے لئے کرم کش زرعی ادویات اور کھاد کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور نہری پانی کے ناپید ہونے کے باعث انہیں ٹیوب ویل کے ذریعے فصلوں کو سیراب کرنا پڑتا ہے تو بجلی اور ڈیزل کے نرخوں نے انہیں الگ سے بے حال کر رکھا ہے جبکہ بجلی کی یومیہ لوڈشیڈنگ الگ سے اذیت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کا کسان حکومتی مراعات اور سہولتوں سے مالامال آسودگی اور خوشحالی کی زندگی بسر کررہا ہے جنہیں بجلی کے نرخوں کے علاؤہ وہاں کھادوں اور کرم کش ادویات کے نرخوں میں بھی خصوصی رعایت حاصل ہے‘ نتیجتاً وہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے جان توڑ محنت کرتے ہیں مگر ہمارا کسان حکومتی بے اعتنائی کا شکار ہو کر اب تک بے یارومددگار ہے جس کی گندم‘ کماد‘ مونجی کی پیداوار میں اضافے کے باوجود مارکیٹ میں ’’چوروں کے گز‘‘ کے حساب سے اسے اپنی اشیاء کی معمولی نرخوں پر بھی فروخت کے لئے بھی جان جوکھوں سے گزرنا پڑتا ہے!

بھارت کی پاکستان دشمنی قابل مذمت لیکن تصویر کا دوسرا رخ اُس کا طرز حکمرانی ہے جس میں آمدنی کے لحاظ سے غریب و متوسط طبقات کو غیرمعمولی ریلیف حاصل ہے۔ بھارت حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کے قومی ٹیلی ویژن ’دور درشن‘ نے ’’کسان‘‘ کے نام سے ایک سیٹلائٹ چینل شروع کر رکھا ہے جو سارا سال چوبیس گھنٹے مختلف زبانوں ترجیحاً ہندی (اُردو) زبان میں کاشتکاروں کی رہنمائی‘ جدید زرعی اصول اور متعلقہ ٹیکنالوجی کے بارے میں باقاعدگی سے پروگرام نشر کرتا ہے۔ Free Dish کے نام سے یہ چینل مفت دیکھا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے نجی شعبے میں قائم ہونے والا زرعی سیٹلائٹ چینل بند کرنا پڑا۔ اخبارات کے زرعی ایڈیشن قابل بھی اشاعت نہیں رہے کیونکہ حکومتی سرپرستی نہیں ہے!

عوام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو ریلیف دینے اور ان کے مسائل حل کرنے کے معاملہ میں حکومت کی بے اعتنائی سے معاشرے میں بے چینی کی جو فضا طاری نظر آتی تھی‘ اس کے پیش نظر جمہوری نظام پر انگلیاں اٹھنے کے مواقع پیدا ہونا بھی فطری امر تھا تاہم اگر چھوٹے کسانوں تک ’زرعی ریلیف پیکج‘ کے ثمرات پہنچتے ہیں تو اس سے قومی معیشت بھی مستحکم ہو گی لیکن اگر اعلانات پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو۔ اِس مرحلہ فکر پر اگر ’’آغاز حقوق بلوچستان پیکج‘‘ کا ذکر نہ کیا جائے تو رہنماؤں کو رہنمائی نہیں ملے گی۔ سب سے اہم ضرورت کرم کش ادویات کے نرخوں پر نظرثانی ہے‘ جو نہیں کی گئی۔ اسی طرح توانائی بحران حل کرنے کے بجلی و گیس کی درآمد سے فوری نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ زراعت اور زرعی شعبے سمیت توانائی کے بحران کا حل ’’کالاباغ ڈیم‘‘ جیسے کثیرالمقاصد بڑے آبی منصوبے میں ہے‘ جسے سردخانے سے نکلنے اور اُس پر جمی ہوئی سیاست کی گرد ہٹانے کی اشد بلکہ فوری ضرورت ہے! جس کے بناء کسی بھی قسم کے ’ریلیف پیکج‘ کی کوئی معنوی حیثیت نہیں ہوگی۔

No comments:

Post a Comment