ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اَبرآلود سحر!
اَبرآلود سحر!
’زندہ باد‘ اُور ’مردہ باد‘ کے نعروں میں ضلعی حکومت اَیبٹ آباد کا پہلا
اِجلاس ’ہلہ گلہ‘ اُور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان ایک دوسرے کی
مخالفت میں چیخ و پکار کی نذر ہوا۔ ’مچھلی منڈی‘ کے اِس منظر کو دیکھنے
والوں سے مہمانوں کی گیلری بھی بھری ہوئی تھی جس پر الگ سے احتجاج کرتے
ہوئے صحافیوں نے ’واک آؤٹ‘ کیا کہ اُن کے لئے شایان شان نشست گاہوں کا
انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایبٹ آباد کی ضلعی حکومت کے
پہلے اجلاس کے انتظامات کسی بھی صورت تسلی بخش نہیں تھے۔ سیکورٹی کے لئے
تعینات پولیس اہلکاروں سے لیکر اسمبلی ہال کے چمکتے دمکتے فرش سے منعکس
ہونے والی روشنی کی کرنوں تک کچھ بھی اپنے وجود کو معنویت میں اضافے کا سبب
نہیں تھا۔ ایک طرف احتجاج کرنے پر تلے ہوئے تحریک انصاف کے کارکن تھے جن
کی اَیوان میں ’عددی برتری‘ اُنہی کے اپنے جماعتی ساتھیوں کے ’فارورڈ بلاک‘
کی وجہ سے اقلیت بن گئی اور اب اِس جمہوری حقیقت کو تسلیم کرنے اور آئینی
راستے اختیار کرنے کی بجائے ’تحریک انصاف‘ سے تعلق رکھنے والوں نے احتجاج
کی راہ اختیار کر لی۔ جواب در جواب کی صورت ضرورت شاطر معاملہ کرنے تھی کہ
سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں سے انتخابی قواعد کے مطابق معاملہ جو کہ
پہلے ہی شروع ہو چکا ہے کے منطقی انجام کا انتظار کیا جاتا اُور سیاست کا
مقابلہ سیاست کے ساتھ لیکن ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کرنے میں حکمت پیش نظر
رکھی جاتیکیونکہ جہاں جذبات غالب آ جاتے ہیں وہاں فیصلہ کرنے کی صلاحیت
باقی نہیں رہتی اور اچھے خاصے معقول انسان سے بھی غلطیاں سرزد ہونے لگتی
ہیں۔ جمہوریت کا حسن یا بدصورتی یہی ہے کہ اِس میں افراد کا گنتی کی جاتی
ہے اور یہی گنتی عام انتخابات سے لیکر منتخب ایوانوں تک ’ہائی جیک‘ کرنے
والے ’موقع پرستوں‘ کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ
موروثی‘ نسلی اور لسانی سیاست کو فروغ دینے کے جرم ہر سیاسی جماعت کسی نہ
کسی طور ملوث ہے اور چونکہ ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے‘‘ کے سبب
ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی کسی نہ کسی ایک فریق کی حمایت میں اپنے منصب و
قلم کی حرمت کا خیال یا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔
’عوام کا وسیع تر مفاد‘ اگر کوئی قابل ذکر ترجیح ہے تو ہمیں بنیادی مسائل پر بات کرنی چاہئے جو کہ بلدیاتی حکومت (نومنتخب ضلعی نمائندوں) سے وابستہ اُمیدیں اور توقعات ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسئ آب کی اصلاح‘ کوڑاکرکٹ تلف کرنا‘ درس وتدریس کے وسائل میں اضافہ‘ امن و امان کی صورتحال میں بہتری‘ سیاحتی امکانات کی ترقی‘ سیاحوں کے لئے سہولیات‘ بطور صارف عام آدمی (ہم عوام) کے حقوق اور درپیش انواع و اقسام کے لاکھوں چھوٹے بڑے مسائل (جعلی ادویات کی بھرمار‘ ناقص المعیار اور حفظان صحت پر پورا نہ اُترنے والی اشیائے خوردونوش کی کھلے عام فروخت جیسے معمولات) توجہ چاہتے ہیں لیکن اگر ایبٹ آباد میں ضلعی حکومت کا نظام بھی صوبائی و وفاقی طرزحکمرانیوں کی طرح سیاسی مخالفت‘ اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی مصلحتوں اور عددی برتری کے لئے ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے کی حد تک محدود رہا‘ تو اِس بے فیض درخت سے نہ تو سایہ حاصل ہوسکے گا اُور نہ ہی پھل کی صورت کوئی معنوی فائدہ! کیا آنے والے دنوں میں عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک چھت تلے‘ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے اپنی بہترین فہم و فراست اور وسائل کا استعمال کریں گے؟
جس اَنداز میں ایبٹ آباد میں ضلعی حکومت کی ابتدأ (بسم اللہ) ہوئی ہے اور جس طرح ضلعی اراکین نے 2 واضح گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو غیرپارلیمانی القابات سے نوازہ ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں اُن کے گرمجوش تعلقات اُور ایک دوسرے سے تعاون کی بس اُمید ہی کی جاسکتی ہے۔ کیا یہ وہ سحر تھی‘ جس کے لئے دعائیں کی گئیں تھیں!؟ احتجاج کئے گئے!؟
پچاس لاکھ روپے کے خرچ سے ایبٹ آباد کی ضلعی اسمبلی اجلاس کی عمارت کو سجایا گیا تھا!؟ عدالتوں سے رجوع کیا گیا اور ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد جس سیاسی بصیرت کا مظاہرہ پہلے روز کیا گیا‘ اُسے دیکھ کر آنکھیں چھلک پڑیں! بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر اَیبٹ آباد کی ضلعی کونسل ہال میں آویزاں تھی‘ جن کی روح کو کتنی اَذیت ہوئی ہوگی۔ اَٹھارہ ستمبر کے روز صبح 10بجے طلب کیا گیا‘ اَجلاس 11 بجکر 22 منٹ پر قومی ترانے اُور بعداَزاں قرآن کریم کی سورۂ والناس کی تلاوت سے شروع کیا گیا۔
ابتدائی اجلاس کے لئے قرآن کی آخری سورت کا انتخاب کیوں کیا گیا جس کا اُردو ترجمہ ایبٹ آباد کی ضلعی حکومت کے پہلے اجلاس کے تناظر میں بہت معنی خیز یہ ’’کہیے میں پناہ طلب کرتا ہو سارے انسانوں کے پروردگار سے‘ جو سب کا ’معبود و (حقیقی) حاکم‘ ہے (کوئی بھی ہو خواہ کتنا ہی بڑا سرکش‘ زور آور ہی کیوں نہ ہو‘ وہ اللہ کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں) اُن سب کے شر سے جو ’وسوسہ اندازی‘ کرنے والے ہیں‘ جو دلوں میں توہمات اور وسوسے پیدا کرتے ہیں (کہ تم شکست کھاؤ گے اور تمہارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہو گا) یہ (شر انگیز) انسانوں میں سے بھی ہیں اُور ان کا تعلق جنات سے بھی ہے!‘‘
’عوام کا وسیع تر مفاد‘ اگر کوئی قابل ذکر ترجیح ہے تو ہمیں بنیادی مسائل پر بات کرنی چاہئے جو کہ بلدیاتی حکومت (نومنتخب ضلعی نمائندوں) سے وابستہ اُمیدیں اور توقعات ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسئ آب کی اصلاح‘ کوڑاکرکٹ تلف کرنا‘ درس وتدریس کے وسائل میں اضافہ‘ امن و امان کی صورتحال میں بہتری‘ سیاحتی امکانات کی ترقی‘ سیاحوں کے لئے سہولیات‘ بطور صارف عام آدمی (ہم عوام) کے حقوق اور درپیش انواع و اقسام کے لاکھوں چھوٹے بڑے مسائل (جعلی ادویات کی بھرمار‘ ناقص المعیار اور حفظان صحت پر پورا نہ اُترنے والی اشیائے خوردونوش کی کھلے عام فروخت جیسے معمولات) توجہ چاہتے ہیں لیکن اگر ایبٹ آباد میں ضلعی حکومت کا نظام بھی صوبائی و وفاقی طرزحکمرانیوں کی طرح سیاسی مخالفت‘ اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی مصلحتوں اور عددی برتری کے لئے ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے کی حد تک محدود رہا‘ تو اِس بے فیض درخت سے نہ تو سایہ حاصل ہوسکے گا اُور نہ ہی پھل کی صورت کوئی معنوی فائدہ! کیا آنے والے دنوں میں عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک چھت تلے‘ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے اپنی بہترین فہم و فراست اور وسائل کا استعمال کریں گے؟
جس اَنداز میں ایبٹ آباد میں ضلعی حکومت کی ابتدأ (بسم اللہ) ہوئی ہے اور جس طرح ضلعی اراکین نے 2 واضح گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو غیرپارلیمانی القابات سے نوازہ ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں اُن کے گرمجوش تعلقات اُور ایک دوسرے سے تعاون کی بس اُمید ہی کی جاسکتی ہے۔ کیا یہ وہ سحر تھی‘ جس کے لئے دعائیں کی گئیں تھیں!؟ احتجاج کئے گئے!؟
پچاس لاکھ روپے کے خرچ سے ایبٹ آباد کی ضلعی اسمبلی اجلاس کی عمارت کو سجایا گیا تھا!؟ عدالتوں سے رجوع کیا گیا اور ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد جس سیاسی بصیرت کا مظاہرہ پہلے روز کیا گیا‘ اُسے دیکھ کر آنکھیں چھلک پڑیں! بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر اَیبٹ آباد کی ضلعی کونسل ہال میں آویزاں تھی‘ جن کی روح کو کتنی اَذیت ہوئی ہوگی۔ اَٹھارہ ستمبر کے روز صبح 10بجے طلب کیا گیا‘ اَجلاس 11 بجکر 22 منٹ پر قومی ترانے اُور بعداَزاں قرآن کریم کی سورۂ والناس کی تلاوت سے شروع کیا گیا۔
ابتدائی اجلاس کے لئے قرآن کی آخری سورت کا انتخاب کیوں کیا گیا جس کا اُردو ترجمہ ایبٹ آباد کی ضلعی حکومت کے پہلے اجلاس کے تناظر میں بہت معنی خیز یہ ’’کہیے میں پناہ طلب کرتا ہو سارے انسانوں کے پروردگار سے‘ جو سب کا ’معبود و (حقیقی) حاکم‘ ہے (کوئی بھی ہو خواہ کتنا ہی بڑا سرکش‘ زور آور ہی کیوں نہ ہو‘ وہ اللہ کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں) اُن سب کے شر سے جو ’وسوسہ اندازی‘ کرنے والے ہیں‘ جو دلوں میں توہمات اور وسوسے پیدا کرتے ہیں (کہ تم شکست کھاؤ گے اور تمہارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہو گا) یہ (شر انگیز) انسانوں میں سے بھی ہیں اُور ان کا تعلق جنات سے بھی ہے!‘‘
No comments:
Post a Comment