ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
متبادل جواز!
متبادل جواز!
خیبرپختونخوا اور متصل قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف مختلف
محاذوں پر جاری جنگ میں مقدمات کے حوالے سے پولیس اور عدالتوں پر پڑنے والے
دباؤ کم کرنے اور حکومت پر عوامی اعتماد بحال رکھنے کی خاطر ’’مصالحتی
کمیٹیوں‘‘ کا قیام عمل میں لایاگیا اور اِس نظام کے تحت مختلف اضلاع سے
حوصلہ افزأ نتائج بھی سامنے آئے۔ پولیس تھانوں کی سطح پر بننے والی مصالحتی
کمیٹیاں تنازعات کے حل میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں‘ جنہیں مزید فعال و
بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ اِس نظام میں دو فریقوں کی جانب سے
پولیس یا کسی اور قانونی نظام کی شمولیت کے بغیر مصالحت پر اتفاق کرنے کے
بعد ایک غیر جانبدار مصالحتی کمیٹی مقدمے کی سماعت کرتی ہے۔ یہ کمیٹیاں
دہشت گردی‘ ملکی دفاع اور سلامتی کے مسائل کے علاؤہ دیگر ہر قسم کے تنازعات
پر مصالحت کی کوششیں کرتی ہیں۔
سرکاری اَعدادوشمار کے مطابق اِن کمیٹیوں نے اب تک ہزاروں کی تعداد تنازعات حل کئے ہیں لیکن اُن کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی شرح حوصلہ اَفزأ نہیں کیونکہ جرائم پیشہ عناصر اُور مٹھی بھر مفاد پرستوں (قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں) کے درمیان گٹھ جوڑ کی وجہ سے انصاف تک رسائی کا یہ تیزرفتار نظام مشکوک بنایا جا رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ خیبرپختونخوا کے ’پولیس آرڈر سال 2002ء‘ کی 168-A شق میں ترمیم کی گئی جس کے بعد ہر ضلع میں تنازعات کے حل کے لئے تھانہ جات کی سطح پر بنائی جانے والی ’تصفیہ یا مصالحتی کمیٹیوں‘ کو قانونی حیثیت ملی اور اُن کے ناجائز ہونے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والے ایک درخواست گزار کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت نے اِن کمیٹیوں کو کام جاری رکھنے کو ’آئینی‘ قرار دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’جرگہ‘ کی طرز پر کام کرنے والی مصالحتی کمیٹیاں کا دفاع بھی کرنا چاہئے جو تنازعات کے فوری حل کی واحد صورت نظر آتی ہیں لیکن جرائم پیشہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نہیں چاہتا کہ فوری انصاف تک رسائی کا یہ عمل جاری و ساری رہے۔ مثال کے طور پر اگر جائیدادوں پر قبضہ کرنے والے گروہوں کے مقدمات عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو انہیں نمٹانے میں ایک دو سال نہیں بلکہ نسلوں کی نسلوں کو پیشیاں بھگتانا پڑتی ہیں۔ اگر تنازعات مقامی سطح پر ہی حل ہونے لگیں تو قبضہ مافیا اُور قانون دان کھائیں گے کیا اُور بچائیں گے کیا! سردست محترم قانون دان گاہگوں (بیچارے سادہ لوح افراد) کے مقابلے تھانہ کچہری کے ’رازونیاز‘ سے آگاہ ’پیشہ وروں‘ کے دست راست بنے ہوئے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو زیرالتوأ مقدمات کی تعداد ہزاروں میں نہ ہوتی! کسی معاملے کو سادہ و آسان یا پیچیدہ اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے کا ہنر سیکھنے کے لئے قانونی امور کے ماہرین سے رجوع کیا جاسکتا ہے جنہیں قانون میں موجود ہر سقم اور ہر اُس عدالتی فیصلے کا علم ہوتا ہے جسے خاص حالات میں بھاری بھرکم فیس ادا کرنے والے کے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی قانون دان کی مہارت یہی ہوتی ہے کہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنانے کی مہارت رکھتا ہو! پھر اِس بات کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک وکیل اپنے گاہگ کو نچوڑنے کے بعد اُسے دوسرے وکیل کے حوالے کر دیتا ہے اور جواب میں اُسے ایک عدد نیا گاہگ مل جاتا ہے اور یوں دونوں کو زیادہ فیسیں ادا کرنے والے یعنی سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں ہاتھ آ جاتی ہیں۔
اگر حکومتیں کفر سے چل سکیں لیکن ناانصافیوں سے نہیں تو پھر اِس اہم ضرورت کو سمجھنا ہوگا کہ انصاف تک فراہمی کا طریقہ کار تیزرفتار ہونا چاہئے۔ اِس ضمن میں تجویز ہے کہ مقدمات دائر کرنے والوں کا ماضی بھی دیکھا جائے کہ وہ اُن کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ بھی دیکھا جائے کہ مختلف عدالتوں میں ایک جیسے مقدمات دائر کرنے والوں کا یہ پیشہ تو نہیں اور اگر وہ اپنے آبائی ضلع کے علاؤہ کسی دوسرے علاقے میں جائیداد کی خریدوفروخت کا کاروبار کر رہے ہیں تو کہیں اِس کا تعلق اُس قبضہ مافیا سے نہیں جس کی پشت پناہی جرائم پیشہ عناصر کر رہے ہوتے ہیں؟ عدالت کے سامنے کسی مقدمے کے فریقین کی مالی حیثیت‘ پیشہ اور تعلقات کے بارے حقائق بھی پیش ہونے چاہیءں اور اس سلسلے میں خفیہ اداروں کی مدد لی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے عدالت کے پاس اختیار موجود ہے اور وہ چاہے تو اِس سلسلے میں بیک وقت ایک سے زیادہ اداروں سے تحقیقات کروا سکتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا کیونکہ انصاف تک رسائی کا نظام جن برطانوی دور کے مرتب کردہ اصولوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں‘ اُن میں شواہد کو توڑمروڑ کر پیش کرنا قطعی مشکل نہیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں ایک جیسی چار درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے مصالحتی کمیٹیوں کے قیام کو جائز قرار دینا خوش آئند ہے تاہم مصالحتی کمیٹیوں کے اراکین کا چناؤ زیادہ شفاف بنانے سے اِس نظام کی فعالیت و ساکھ میں اضافہ ممکن ہے۔ صوبہ سندھ کی مثال موجود ہے جہاں سیاست اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان تعلق کو ختم کرنا دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں سے معاملہ کرنے سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہوا اور ایک موقع پر سندھ رینجرز کو تسلیم کرنا پڑا کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے درمیان بھی تعلق موجود تھا‘ جن میں سے ایک اہداف کا تعین اور دوسرا اغوأ قتل یا عدالتوں میں مقدمات کے ذریعے فریقین کو الجھائے رکھتا تھا اور وہ مجبور ہو کر بھاری قیمت اَدا کرتے تھے کیا خیبرپختونخوا کی سطح پر جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی پشت پناہی کرنے کے امکانات موجود نہیں؟
سرکاری اَعدادوشمار کے مطابق اِن کمیٹیوں نے اب تک ہزاروں کی تعداد تنازعات حل کئے ہیں لیکن اُن کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی شرح حوصلہ اَفزأ نہیں کیونکہ جرائم پیشہ عناصر اُور مٹھی بھر مفاد پرستوں (قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں) کے درمیان گٹھ جوڑ کی وجہ سے انصاف تک رسائی کا یہ تیزرفتار نظام مشکوک بنایا جا رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ خیبرپختونخوا کے ’پولیس آرڈر سال 2002ء‘ کی 168-A شق میں ترمیم کی گئی جس کے بعد ہر ضلع میں تنازعات کے حل کے لئے تھانہ جات کی سطح پر بنائی جانے والی ’تصفیہ یا مصالحتی کمیٹیوں‘ کو قانونی حیثیت ملی اور اُن کے ناجائز ہونے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والے ایک درخواست گزار کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت نے اِن کمیٹیوں کو کام جاری رکھنے کو ’آئینی‘ قرار دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’جرگہ‘ کی طرز پر کام کرنے والی مصالحتی کمیٹیاں کا دفاع بھی کرنا چاہئے جو تنازعات کے فوری حل کی واحد صورت نظر آتی ہیں لیکن جرائم پیشہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نہیں چاہتا کہ فوری انصاف تک رسائی کا یہ عمل جاری و ساری رہے۔ مثال کے طور پر اگر جائیدادوں پر قبضہ کرنے والے گروہوں کے مقدمات عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو انہیں نمٹانے میں ایک دو سال نہیں بلکہ نسلوں کی نسلوں کو پیشیاں بھگتانا پڑتی ہیں۔ اگر تنازعات مقامی سطح پر ہی حل ہونے لگیں تو قبضہ مافیا اُور قانون دان کھائیں گے کیا اُور بچائیں گے کیا! سردست محترم قانون دان گاہگوں (بیچارے سادہ لوح افراد) کے مقابلے تھانہ کچہری کے ’رازونیاز‘ سے آگاہ ’پیشہ وروں‘ کے دست راست بنے ہوئے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو زیرالتوأ مقدمات کی تعداد ہزاروں میں نہ ہوتی! کسی معاملے کو سادہ و آسان یا پیچیدہ اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے کا ہنر سیکھنے کے لئے قانونی امور کے ماہرین سے رجوع کیا جاسکتا ہے جنہیں قانون میں موجود ہر سقم اور ہر اُس عدالتی فیصلے کا علم ہوتا ہے جسے خاص حالات میں بھاری بھرکم فیس ادا کرنے والے کے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی قانون دان کی مہارت یہی ہوتی ہے کہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنانے کی مہارت رکھتا ہو! پھر اِس بات کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک وکیل اپنے گاہگ کو نچوڑنے کے بعد اُسے دوسرے وکیل کے حوالے کر دیتا ہے اور جواب میں اُسے ایک عدد نیا گاہگ مل جاتا ہے اور یوں دونوں کو زیادہ فیسیں ادا کرنے والے یعنی سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں ہاتھ آ جاتی ہیں۔
اگر حکومتیں کفر سے چل سکیں لیکن ناانصافیوں سے نہیں تو پھر اِس اہم ضرورت کو سمجھنا ہوگا کہ انصاف تک فراہمی کا طریقہ کار تیزرفتار ہونا چاہئے۔ اِس ضمن میں تجویز ہے کہ مقدمات دائر کرنے والوں کا ماضی بھی دیکھا جائے کہ وہ اُن کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ بھی دیکھا جائے کہ مختلف عدالتوں میں ایک جیسے مقدمات دائر کرنے والوں کا یہ پیشہ تو نہیں اور اگر وہ اپنے آبائی ضلع کے علاؤہ کسی دوسرے علاقے میں جائیداد کی خریدوفروخت کا کاروبار کر رہے ہیں تو کہیں اِس کا تعلق اُس قبضہ مافیا سے نہیں جس کی پشت پناہی جرائم پیشہ عناصر کر رہے ہوتے ہیں؟ عدالت کے سامنے کسی مقدمے کے فریقین کی مالی حیثیت‘ پیشہ اور تعلقات کے بارے حقائق بھی پیش ہونے چاہیءں اور اس سلسلے میں خفیہ اداروں کی مدد لی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے عدالت کے پاس اختیار موجود ہے اور وہ چاہے تو اِس سلسلے میں بیک وقت ایک سے زیادہ اداروں سے تحقیقات کروا سکتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا کیونکہ انصاف تک رسائی کا نظام جن برطانوی دور کے مرتب کردہ اصولوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں‘ اُن میں شواہد کو توڑمروڑ کر پیش کرنا قطعی مشکل نہیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں ایک جیسی چار درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے مصالحتی کمیٹیوں کے قیام کو جائز قرار دینا خوش آئند ہے تاہم مصالحتی کمیٹیوں کے اراکین کا چناؤ زیادہ شفاف بنانے سے اِس نظام کی فعالیت و ساکھ میں اضافہ ممکن ہے۔ صوبہ سندھ کی مثال موجود ہے جہاں سیاست اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان تعلق کو ختم کرنا دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں سے معاملہ کرنے سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہوا اور ایک موقع پر سندھ رینجرز کو تسلیم کرنا پڑا کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے درمیان بھی تعلق موجود تھا‘ جن میں سے ایک اہداف کا تعین اور دوسرا اغوأ قتل یا عدالتوں میں مقدمات کے ذریعے فریقین کو الجھائے رکھتا تھا اور وہ مجبور ہو کر بھاری قیمت اَدا کرتے تھے کیا خیبرپختونخوا کی سطح پر جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی پشت پناہی کرنے کے امکانات موجود نہیں؟
No comments:
Post a Comment