LNG
مائع گیس
مائع گیس
قانونی صورتحال: 28مارچ 2002ء کو پاکستان کی ’آئل اینڈ گیس ریگولیٹری
اتھارٹی (اُوگرا)‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ملک میں تیل و گیس
کی فراہمی‘ لین دین اور قیمتوں کے تعین سے متعلق معاملات کو دیکھنا تھا۔ یہ
امر بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں مائع گیس (ایل این جی) کی فراہمی کا
کاروبار تین مختلف اداروں کے کنٹرول میں ہے۔ ان میں ’پاکستان سٹیٹ آئل (پی
ایس اُو)۔ سوئی سدرن گیس کمپنی اور پاکستان سوئی نادرن گیس پائپ لائنز
لمیٹیڈ شامل ہیں۔ اوگرہ نے اِن تینوں اداروں کو متنبہ کیا کہ وہ تیل و گیس
کی قیمتوں‘ فروخت اور ایل این جی کے حوالے سے جو بھی کاروبار کر رہے ہیں
چونکہ اُن کے کرنے کے لئے دستاویزی تقاضے پورے نہیں کئے گئے اِس لئے یہ
قانون کی نظر میں ایک غیرقانونی کام ہو رہا ہے۔
31 اگست کے روز اُوگرا کی جانب سے ایک پی ایس اُو‘ سوئی سدرن اور سوئی نادرن کے نگرانوں کو ایک مکتوب ارسال کیا جاتا ہے جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جس قیمت پر اِن اداروں نے ایل این جی خریدی اُس سے متعلق حکومت کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 30 ارب روپے مالیت کی ایل این جی درآمد کی گئی لیکن اُس کی قیمت کے تعین سے متعلق اوگرا کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی دستاویزی تفصیلات فراہم کی گئیں کہ یہ 30ارب روپے کی مائع گیس کس نرخ پر فروخت کی جائے گی۔ آئینی طور پر ایسا کرنے کے لئے دستاویزی طور پر اوگرا کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
سوئی سدرن کے اثاثہ جات کی کل مالیت 18 ارب روپے ہے جبکہ اس پر قرضوں کا بوجھ 66 ارب روپے ہے اور یہ ادارہ برسوں پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے‘ جس کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور اُن کے مشیر رہے ڈاکٹر عاصم حسین کا شکریہ اَدا کرنا چاہئے۔ سوئی نادرن کی مالی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں اور وہ دیوالہ ہونے کے قریب ہے۔ 17ستمبر کے روز ’پی ایس اُو‘ نے جو قرض وصول کرنے تھے اُن کی مالیت 232 ارب روپے تھے جس میں 17ارب روپے کا وہ گردشی قرضہ بھی شامل ہے جو ’ایل این جی‘ کی درآمد و سودوں میں گذشتہ 6 ماہ کے دوران تخلیق ہوا ہے۔ یہ بات ذہن نین رہے کہ سوئی سدرن کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) زبیر صدیقی جنہوں نے ’ایل این جی ٹرمینل‘ کا معاہدہ کیا تھا‘ اِن دنوں مالی بدعنوانیوں کے جرم میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی زیرحراست ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایم ڈی سوئی نادرن عارف حمید نے ’ایل این جی معاہدے‘ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد اُنہیں جبراً عہدے سے مستعفی کر دیا گیا۔
پاکستان میں ’ایل این جی‘ کی فراہمی کے تین مراحل ہیں۔ ایک ایل این جی فراہم کرنے والے ہیں۔ دوسرا ایل این جی ذخیرہ کرنے والے اور تیسرا اس کی فروخت کرنے والے ہیں۔ پاکستانی ادارے نے قطر گیس سے ایل این جی خریدنے کا ایسا معاہدہ کیا جس میں اُسے یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار 479 آئندہ پندرہ برس تک ادا کرنے پڑیں گے لیکن یہ معاہدہ کرنے سے قبل ’مائع گیس‘ کی خریداری کے ممکنہ خریداروں سے کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے والے نجی پیداواری اداروں کو اعتماد میں لیا گیا کہ وہ درآمد کی جانے والی ’ایل این جی‘ کو خرید سکیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صرف اور صرف اہم بات یہ تھی کہ قطر سے مائع گیس بھاری قیمت پر خریدی جائے۔ آگے اِس گیس کا کیا کرنا ہے اور اس کی فروخت کیسے ہوگی‘ اس بارے میں سوچ بچار نہیں کی گئی!
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بجلی کے پیداواری ادارے ایسی مائع گیس کبھی بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے جو فرنس آئل (متبادل ایندھن) کے قیمت سے کم از کم 20فیصد زیادہ مہنگی ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سوئی سدرن جو کہ دیوالیہ ہو چکی ہے اور سوئی نادرن کہ جس کی مالی حیثیت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ وہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے یہ دونوں ادارے بھلا کمزور مالی حیثیت کے سبب کیسے آئندہ برس ہا برس تک یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار 479 ڈالر ادا کرسکیں گے!
بھارت نے بھی مائع گیس درآمد کی جس کی فی ایم ایم بی ٹی یو (یونٹ) قیمت 6.65 ڈالر ادا کی گئی جبکہ پاکستان نے درآمد کرنے والی ایل این جی کی قیمت فی ’ایم ایم بی ٹی یو (یونٹ)‘ 8.3080 ڈالر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے مہنگے داموں ایل این جی خریدی ہے تو اس کی فروخت ایک بڑا مسئلہ ہوگی۔
13مارچ 2015ء کے روز ’پورٹ قاسم بندرگاہ انتظامیہ‘ نے تحریری طور پر متعلقہ وزارت کو لکھا کہ ایل این جی کو کراچی کی بندرگاہ پر جہازوں سے حاصل کرنے کے لئے درکار وسائل موجود نہیں اور انہیں وسعت دینے کے لئے 20 کروڑ ڈالر کے ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہوگی لیکن یہاں صرف پیسہ ہی درکار نہیں بلکہ بہت سا وقت بھی درکار ہے! ایسا صرف فلمی دنیاؤں میں ہی ہوتا دیکھا گیا کہ غلط فیصلوں کے اچھے نتیجے برآمد ہوں۔ عملی زندگی میں ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے ادارے اِس بات پر تلے ہیں کہ وہ مہنگے داموں مائع گیس خرید کر اُسے مزید مہنگے داموں فروخت کریں گے تو یہ گیس خریدنے والے کہاں سے آئیں گے۔ کیا غلط فیصلوں کا بوجھ عوام کو منتقل کر دیا جائے گا؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
31 اگست کے روز اُوگرا کی جانب سے ایک پی ایس اُو‘ سوئی سدرن اور سوئی نادرن کے نگرانوں کو ایک مکتوب ارسال کیا جاتا ہے جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جس قیمت پر اِن اداروں نے ایل این جی خریدی اُس سے متعلق حکومت کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 30 ارب روپے مالیت کی ایل این جی درآمد کی گئی لیکن اُس کی قیمت کے تعین سے متعلق اوگرا کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی دستاویزی تفصیلات فراہم کی گئیں کہ یہ 30ارب روپے کی مائع گیس کس نرخ پر فروخت کی جائے گی۔ آئینی طور پر ایسا کرنے کے لئے دستاویزی طور پر اوگرا کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
سوئی سدرن کے اثاثہ جات کی کل مالیت 18 ارب روپے ہے جبکہ اس پر قرضوں کا بوجھ 66 ارب روپے ہے اور یہ ادارہ برسوں پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے‘ جس کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور اُن کے مشیر رہے ڈاکٹر عاصم حسین کا شکریہ اَدا کرنا چاہئے۔ سوئی نادرن کی مالی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں اور وہ دیوالہ ہونے کے قریب ہے۔ 17ستمبر کے روز ’پی ایس اُو‘ نے جو قرض وصول کرنے تھے اُن کی مالیت 232 ارب روپے تھے جس میں 17ارب روپے کا وہ گردشی قرضہ بھی شامل ہے جو ’ایل این جی‘ کی درآمد و سودوں میں گذشتہ 6 ماہ کے دوران تخلیق ہوا ہے۔ یہ بات ذہن نین رہے کہ سوئی سدرن کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) زبیر صدیقی جنہوں نے ’ایل این جی ٹرمینل‘ کا معاہدہ کیا تھا‘ اِن دنوں مالی بدعنوانیوں کے جرم میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی زیرحراست ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایم ڈی سوئی نادرن عارف حمید نے ’ایل این جی معاہدے‘ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد اُنہیں جبراً عہدے سے مستعفی کر دیا گیا۔
پاکستان میں ’ایل این جی‘ کی فراہمی کے تین مراحل ہیں۔ ایک ایل این جی فراہم کرنے والے ہیں۔ دوسرا ایل این جی ذخیرہ کرنے والے اور تیسرا اس کی فروخت کرنے والے ہیں۔ پاکستانی ادارے نے قطر گیس سے ایل این جی خریدنے کا ایسا معاہدہ کیا جس میں اُسے یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار 479 آئندہ پندرہ برس تک ادا کرنے پڑیں گے لیکن یہ معاہدہ کرنے سے قبل ’مائع گیس‘ کی خریداری کے ممکنہ خریداروں سے کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے والے نجی پیداواری اداروں کو اعتماد میں لیا گیا کہ وہ درآمد کی جانے والی ’ایل این جی‘ کو خرید سکیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صرف اور صرف اہم بات یہ تھی کہ قطر سے مائع گیس بھاری قیمت پر خریدی جائے۔ آگے اِس گیس کا کیا کرنا ہے اور اس کی فروخت کیسے ہوگی‘ اس بارے میں سوچ بچار نہیں کی گئی!
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بجلی کے پیداواری ادارے ایسی مائع گیس کبھی بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے جو فرنس آئل (متبادل ایندھن) کے قیمت سے کم از کم 20فیصد زیادہ مہنگی ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سوئی سدرن جو کہ دیوالیہ ہو چکی ہے اور سوئی نادرن کہ جس کی مالی حیثیت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ وہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے یہ دونوں ادارے بھلا کمزور مالی حیثیت کے سبب کیسے آئندہ برس ہا برس تک یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار 479 ڈالر ادا کرسکیں گے!
بھارت نے بھی مائع گیس درآمد کی جس کی فی ایم ایم بی ٹی یو (یونٹ) قیمت 6.65 ڈالر ادا کی گئی جبکہ پاکستان نے درآمد کرنے والی ایل این جی کی قیمت فی ’ایم ایم بی ٹی یو (یونٹ)‘ 8.3080 ڈالر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے مہنگے داموں ایل این جی خریدی ہے تو اس کی فروخت ایک بڑا مسئلہ ہوگی۔
13مارچ 2015ء کے روز ’پورٹ قاسم بندرگاہ انتظامیہ‘ نے تحریری طور پر متعلقہ وزارت کو لکھا کہ ایل این جی کو کراچی کی بندرگاہ پر جہازوں سے حاصل کرنے کے لئے درکار وسائل موجود نہیں اور انہیں وسعت دینے کے لئے 20 کروڑ ڈالر کے ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہوگی لیکن یہاں صرف پیسہ ہی درکار نہیں بلکہ بہت سا وقت بھی درکار ہے! ایسا صرف فلمی دنیاؤں میں ہی ہوتا دیکھا گیا کہ غلط فیصلوں کے اچھے نتیجے برآمد ہوں۔ عملی زندگی میں ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے ادارے اِس بات پر تلے ہیں کہ وہ مہنگے داموں مائع گیس خرید کر اُسے مزید مہنگے داموں فروخت کریں گے تو یہ گیس خریدنے والے کہاں سے آئیں گے۔ کیا غلط فیصلوں کا بوجھ عوام کو منتقل کر دیا جائے گا؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
LNG
ReplyDeleteDr Farrukh Saleem
Sunday, September 20, 2015
Legal: On 28 March, 2002, the Oil and Gas Regulatory Authority Ordinance was passed. Under the ordinance, the Oil and Gas Regulatory Authority (Ogra) is the regulator for our oil and gas sector. Our internal LNG supply chain comprises three entities – Pakistan State Oil (PSO), Sui Southern Gas Company Limited (SSGC) and Sui Northern Gas Pipelines Limited (SNGPL). Ogra has advised PSO, SSGC and SNGPL that the “pricing, sale and invoicing of LNG business in its existing form and documentation were not legal in the eyes of the law….”
On August 31, Ogra wrote a letter addressed to CEOs of PSO, SSGC and SNGPL. The letter states that the “rate at which LNG cargoes have been procured have not been presented” and that “no evidence/document has been provided”. Amazingly, an estimated Rs30 billion worth of LNG has been imported and sold without Ogra’s price determination.
SSGC, with unsecured trade debts of Rs66 billion and an equity of Rs18 billion, is technically bankrupt many times over (courtesy Dr Asim Hussain). SNGPL is nearly bankrupt. As of September 17, PSO’s receivables stand at a whopping Rs232 billion including the brand new LNG circular debt of Rs17 billion in just six months of trading in LNG.
For the record, Zuhair Siddiqui, ex-MD-SSGC, who signed the LNG Terminal Agreement, is in NAB’s custody. For the record, Arif Hameed, MD-SNGPL having refused to sign the LNG Tripartite Agreement was forced into resigning (not by the board but by the FIA; intriguingly, the FIA enquiry ended right after resignation).
Commercial: The LNG supply chain has three players – the supplier, the re-gasifier and the purchaser. Consider this: SSGC was forced into signing a 15-year agreement with Engro that pays Engro a hefty $272,479 per day for the following 15 years but there is neither an agreement with the supplier (Qatar Gas) nor with potential purchasers, our Independent Power Producers (IPPs).
One, IPPs are not buying because LNG is coming out to be at least 20 percent more expensive than furnace oil (can the FIA convince the IPPs as well?). Two, the already bankrupt SSGC and the nearly bankrupt SNGPL are in no mood to assume the payment of $272,479 per day every day of the year.
Next. Indian Oil Corp (IOC), India’s largest refiner, is seeking LNG cargos for delivery in October through December at $6.65/mmBTU while PSO has awarded a tender to Gunvor at $8.3080/mmBTU. In a nutshell, LNG’s price to the end Pakistani consumer is too high and does not make any commercial sense.
Operational: The entire LNG project was structured around Qatar Gas as the supplier. On March 17, 2015, Captain Vishal Chaudhary, Head of Marine Terminals, Qatargas, wrote a letter to PSO. The letter states: “The bathymetric charts of January 2015 show depths lower than 13m……which clearly indicates the need for additional dredging….”
On March 13, 2015, the Port Qasim Authority (PQA) wrote a letter to the Ministry of Ports and Shipping. The letter states: “PQA channel width is 200 meters only whereas per LNG Policy 2011/SIGTTO channel width to be 5 times the beam of LNGC” and that “LNGC parameters are more than the PAQ allowed parameters for tankers”.
Additional dredging, to be certain, is going to take plenty of time and an additional expense of around $200 million. What a mess!
‘In films murders are always very clean. I show how difficult it is and what a messy thing it is to kill a man’ – Alfred Hitchcock