Sunday, September 20, 2015

Sep2015: Muslims in the west

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ملتی جلتی کہانیاں
مسلمانوں کے خلاف تعصب آمیز روئیوں نے جدت پسند‘ تعلیم یافتہ‘ نسلی و لسانی تعصبات کے خلاف بظاہر آواز اُٹھانے اور انسانی حقوق جیسی اصطلاح کا غلط اطلاق و استعمال کرنے والے مغربی معاشرے کی آزادی‘ سوچ اور عمل کا پول کھول دیا ہے لیکن مشہور اخباروں کے کونوں کھدروں میں بھی ایسی خبریں کم ہی دکھائی دیں گئیں کہ کسی بس میں داخل ہو کر سفر سے متعلق سوال پوچھنے پر بس ڈرائیور نے مسلمان خاتون کے اسکارف (حجاب) پر طنز کیا اور اس کو کھینچنے کی کوشش کی۔ چند ماہ پہلے کوپن ہیگن کی ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے کے بعد اس قسم کی سرگرمیوں میں کافی تیزی آئی ہے جب کسی راہگیر نے کسی مسلمان عورت کے سر سے اسکارف اتارنے کی کوشش کی ہو۔ ابھی چند دن پہلے مشہور امریکی برانڈ ایبرکومی میں اسکارف پہننے کی وجہ سے نوکری نہ ملنے والی خاتون کے مقدمہ جیتنے کی کہانی بھی دوستوں کی نظر سے گذری ہوگی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک امریکی شہر میں مسجد کے سامنے اسلحہ بردار لوگوں نے پیغمبرِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرضی و طنزیہ انداز میں خاکے بنوانے کے مقابلے کا اہتمام کیا۔کچھ دن پہلے ہی ایک مسلمان جوڑے کو اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب وہ اپنے بیٹے کو لینے کے لئے اس کے دوست کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک بندوق بردار عورت نے ان کو وہاں سے بھاگ جانے کا کہا۔ جب انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو لینے کے لئے آئے ہیں تو وہ بندوق بردار خاتون بندوق کی نوک پر ان کو اس گھر کے اندر لے کر گئی جہاں ان کا بیٹا موجود تھا۔ چند ماہ پہلے ہی ایک مسلمان خاتون کو یونائیٹڈ ائرلائن میں کھلا ہوا کوک کا کین دیا گیا تو انہوں نے بند کین طلب کیا جس پر ائر ہوسٹس نے مسلمان ہونے کے ناطے ان کو بند کین کو بطور اسلحہ استعمال کر لینے کے ڈر سے بند کین دینے سے انکار کر دیا۔ ٹھیک ان کے برابر میں بیٹھے مسافر کو بیئر (آب جو) کا بند کین دیا گیا جس پر مسلمان خاتون نے اعتراض کیا تو جہاز میں موجود ایک دو مسافروں نے مسلمانوں کے متعلق نفرت آمیز جملوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک مسلمان نوجوان جوڑا جو امریکہ ہی کے کسی شہر میں بستا تھا اور پارکنگ کے معمولی جھگڑے پر ان کو گولی مار دی گئی تھی۔تازہ ترین واقعہ سترہ اگست دوہزار پندرہ کو کوپن ہیگن میں پیش آیا ہے کہ جہاں ایک اسلامی مرکز (جس میں مسجد بھی شامل تھی) کو نامعلوم افراد نے نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا لیکن اُسے ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی گئی‘ تقریباً دو تین ماہ پہلے کوپن ہیگن میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کی گئی اور کئی قبروں کے کتبے اکھاڑ دیئے گئے۔ اگر اِس قسم کے واقعات پاکستان میں ہوئے ہوتے تو نجانے کتنے ہی صحافیوں کی لاٹری نکل آئی ہوتی۔ وہ راتوں رات امیر کبیر ہو چکے ہوتے! اگر آپ کو اِس بات پر یقین نہ آئے تو کسی خفیہ ادارے کے اہلکار سے رازداری میں پوچھیں کہ خیبرپختونخوا کے اُن 10بڑے صاحب جائیداد افراد کے نام بتائیں جن کی قسمت ’نائن الیون‘ کے بعد جاگ اُٹھی تو آپ کو ’این جی اوز‘ اُور امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج کے لئے اشیاء خوردونوش کی فراہمی یا آمدورفت میں معاونت کرنے والوں کے علاؤہ تین سرکردہ صحافیوں کے بھی نام دکھائی دیں گے۔ بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے‘ کون کون نہایا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی ممالک کی افواج کو افغانستان پر حملے کا صرف ایک جواز ’نائن الیون‘ تھا لیکن ایسے درجنوں نہیں سینکڑوں جواز پشاور اُور قبائلی علاقوں سے آڈیو ویڈیو تصویری (دستاویزی) ثبوتوں کے ساتھ فراہم کئے گئے‘ جنہیں مغربی ذرائع ابلاغ میں خوب اُچھالا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آج کے مغربی معاشرے کی عمومی سطح پر اگر مسلمانوں کو بالعموم دہشت گرد سمجھا جاتا ہے تو اِس جرم میں شریک ہمارے اپنے بھی ہیں‘ جنہوں نے الفاظ نہیں بلکہ اُن کی حرمت کو پائمال کیا!

مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت کو نقصان کسی ایک مغربی ملک کی حد تک محدود نہیں بلکہ اِس کا اثر کہیں کم تو کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے اور مذہب یا بظاہر حلیے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے واقعات میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اکسانے والے ’دہشت گرد‘ نہیں کہلائے جاتے بلکہ انہیں ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں سوڈان سے تعلق رکھنے والے گھرانے کے فرد ’احمد محمد‘ نامی چودہ سالہ مسلمان بچے کو ’بم بنانے کی کوشش‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو سائنس پراجیکٹ کے لئے ایک کلاک (ڈیجیٹل گھڑیال) بنانے کی کوشش میں تھا اور وہ اپنی کوشش کی ستائش کے لئے اسے سکول لے آیا تھا۔ اس واقعے کے متعلق اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد نے سماجی رابطہ کاری کی مختلف ویب سائٹس (سوشل میڈیا) پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور یہ عمل تادم تحریر جاری تھا۔ درحقیقت اس بچے کا نام ہی سکیورٹی اہلکاروں کے کان کھڑے کرنے کا سبب بنا۔ اگر یہی کام کسی غیر مسلم یا سفید فام امریکی بچے نے کیا ہوتا تو اس کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا۔ دوسری طرف اس واقعے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بعد میں اس قسم کے واقعات پر کفِ افسوس ملنے سے بہتر تھا کہ ایسا ہوا۔ انہوں نے سکول کی تعریف بھی کی کہ انہوں نے اس قدر فرض شناسی کا ثبوت دیا اور یہ کہ اسلام کا نام مسلمانوں نے ہی خراب کر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ! غور کیجئے کہ اِن سب واقعات میں کردار بدل رہے ہیں لیکن کہانی ملتی جلتی ہے۔ مسلمانوں سے ایسی کیا خطا ہوئی ہے کہ ایک دنیا ان کی دشمن بنی پھرتی ہے؟ صرف اتنی خطا ہے کہ گیارہ ستمبر (نائن الیون) کے واقعے میں ملوث ہائی جیکرز کے نام اسلامی تھے؟ یا پھر یہ کہ چند ہزار افراد کا گروہ خود کو طالبان اور دولت اسلامیہ کہلوا کر بندوق کے زور پر دنیا بھر میں اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے!؟

آخر یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر خود مسلمان اور اسلامی ممالک ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اُور دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمان وہاں کی ترقی کے لئے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت کسی کی نظر سے کیوں نہیں گزرتی۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب اہل مغرب مسلمان بچوں کے بستے (سکول بیگز) کی تلاشی داخلی دروازوں پر لیا کریں گے یا پھر شاید اُنہیں الگ سکولوں تک محدود کر دیا جائے۔ وہ دنیا جو خود کو مہذب اور پر امن کہتی ہے، اپنے جیسے پرامن لوگوں سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہے؟ کیا ان سے مختلف رنگ اور مذہب رکھنے والے انسان نہیں؟ ذہین لیکن امریکی مسلمان بچے ’احمد محمد‘ کے ساتھ پیش آنے والے امتیازی سلوک کی چند بیمار ذہن افراد کے علاؤہ سب ہی نے مذہب‘ رنگ‘ نسل اور ملکوں کی قید سے بالاتر ہو کر حمایت کی ہے۔ فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ سے لے کر ہلری کلنٹن اور امریکی صدر باراک اوباما تک اس کی حمایت اور ستائش میں بول پڑے ہیں‘ جو خوش آئند و حوصلہ افزأ بات ہے لیکن آخر یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا‘ اور کیا یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا آخری واقعہ ثابت ہوگا؟

No comments:

Post a Comment