ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بکھرے موتی!
بکھرے موتی!
فٹ پاتھ پر کتابیں فروخت ہونے کے منظر سے آنکھ آشنا اور قدرشناس دل مغموم
کا مغموم ہونا ایک معمول کی بات ہے تاہم صوبہ پنجاب کے صدر مقام لاہور میں
تعطیل کے روز فٹ پاتھ پر چند درجن یا سینکڑوں کتابیں نہیں بلکہ پورے کتب
خانے سج جاتے ہیں اور یقین نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے میں کتابوں کی اہمیت
اِس قدر رہ جائے گی! صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے لاہور جانے کا اتفاق
ہوا تو انارکلی بازار کا رخ کیا‘ جہاں بغلی گلیوں اور اطراف میں بند دکانوں
کے سامنے زمین پر کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ سیاست‘ ادب اور تاریخ کے حوالے سے
کتابیں دیکھ کر قطعی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے ہاں اِن تینوں موضوعات
پر لکھنے والوں کے قلم ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ رہے جس کی وجہ سے اُن کی کتب
اگر فٹ پاتھوں پر فروخت ہو رہی تھیں تو فرمائشی توصیف پر مبنی تصانیف کا
یہی حشر ہونا بھی چاہئے لیکن چلتے چلتے اور یہاں وہاں ورق گردانی کرتے ہوئے
اچانک سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی کیونکہ زمین پر ایک ایسی کتاب بھی رکھی
ہوئی تھی‘ جس کے مصنف پر اِس کتاب لکھنے کی پاداش میں اتنا تشدد کیا گیا کہ
وہ جانبر نہ ہوسکے اور وصیت کے مطابق زخمی حالت میں مکۃ المکرمہ لیجائے
گئے جہاں آپ مقتولاً شہید ہوئے اور صفامروہ کے مابین مدفون ہوئے۔ یہ مصنف
احمد بن شعیب بن یحییٰ بن سنان بن دینار نسائی خراسانی المعروف امام نسائی
ہے۔ آپ نے سنن نسائی کے علاؤہ ’خصائص علی (رضی اللہ عنہ)‘ نامی کتاب لکھی
جس کا عام فہم اُردو اور شرح پشاور کی معروف روحانی شخصیت سیّد محمد
امیرشاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ نے ’انوار علی (کرم
اللہ وجہہ الکریم)‘ کے نام سے کی۔ فٹ پاتھ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل
امام نسائی (متوفی 303ہجری) کی کتاب کا اُردو ترجمہ پڑا تھا‘ جو ایک
ناقابل یقین منظر تھا۔ احادیث نبوی پر مشتمل کئی دیگر کتب حتیٰ کہ قرآن
کریم کے تراجم بھی چند اینٹوں پر سڑک سے کچھ بلند کرکے رکھے گئے تھے لیکن
کیا ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ ابھی آنکھوں کے آگے تاریکی اور امام نسائی کی
شخصیت کے خدوخال‘ علوم احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عبور‘ علمی
و تحقیقی مرتبہ اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ سے قلبی و روحانی تعلق بطور
تعارف ذہن میں تازہ ہو رہا تھا کہ مجھے ایک کتاب پر مرکوز دیکھ کر صحافی
محمود جان بابر نے فوراً وہ کتاب اُٹھائی‘ دکاندار کو قیمت ادا کی اور میری
طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’میری طرف سے تحفہ قبول کیجئے۔‘‘ کتاب کا وہ نسخہ
امام نسائی کی دیگر تصانیف کے ہمراہ میری زندگی کا حصہ ہے لیکن افسوس اِس
بات کا رہا کہ فٹ پاتھ پر پڑی ہوئی تمام اسلامی کتب محفوظ اور حسب شان مسند
پر نہیں رکھی جاسکیں!
ہمارے ہاں ہر قسم کے مصنف اور شاعر پائے جاتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے لکھنے میں بخل سے کام نہیں لیا اور اپنے بعد سینکڑوں کتابیں چھوڑ گئے لیکن جس معاشرے میں کتاب کا مقام نہ ہو‘ وہاں لکھنے والے اہمیت بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ عجب ہے کہ جن شہرۂ آفاق کتب کا دیگر زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کیا گیا وہ بھی خاطرخواہ مقام حاصل نہیں کرسکیں کیونکہ ہم اِس بات پر زیادہ فخر کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ غیرملکی زبان میں نظمیں پڑھے! یہ الگ موضوع ہے کہ برصغیر (پاکستان اور بھارت) کے اہلِ ہنر کی آشفتہ حالی اور آبلہ پائی نئی بات نہیں‘ قرض کی مے کی عیاشی تو خیر کسی کسی کو میسر تھی‘ یہاں تو ضروریات زندگی اور ادویات کے لئے بھی بڑے بڑے نام امیر وقت کی چوکھٹ پر سرنگوں پائے گئے ہیں۔ کیا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب میرے ملک میں لکھنے والوں کا معیار زندگی بلند ہو پائے گا؟ نجانے کب فن‘ فنکار اور ادیب کی قدرواہمیت کو سمجھا جاسکے گا؟ فیصل آباد کا ایک ناول نگار جو زندگی گزارنے کے لئے رکشہ چلاتا ہے اور فیصل آباد ہی کے نواح کا ایک موچی جو کئی کتابوں کا مصنف ہے‘ یہ خبریں ابھی بالکل تازہ ہیں‘ کیا اتنی کتابوں کے بعد ان کے مستقبل کا ستارہ جگمگا نہیں جانا چاہئے تھا؟ کیا بارہ کتابوں کے خالق کی زندگی میں کچھ بہتری نہیں آ جانی چاہئے تھی؟ مگر جہاں الفاظ کوڑیوں کے مول بک جائیں‘ جہاں جذبات کی قدر و قیمت کا پھل صرف بیوپاری کی جھولی میں گرے وہاں لکھنے والے اور فنکار کی زندگی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی!
جس طرح سبزی منڈی میں آڑتھیوں کی حکمرانی ہے جن سے بچارے کاشتکار کو اتنی رقم بھی نہیں ملتی جن سے فصل کے پیداواری اخراجات پورے ہو سکیں‘ بالکل اسی طرح پاکستان میں پبلشرز (اشاعتی ادارے) مصنفین کو اُن کا جائز حق دینے سے کتراتے ہیں۔ کتاب بکنے والی ہو اور مصنف اس کے حقوق بیچنے پر تیار نہ ہو تو رائلٹی کے نام پر پندرہ سے بیس فیصد پر گھیر لیتے ہیں یعنی ایک ایڈیشن پر پندرہ سے بیس ہزار روپے مصنف کو ملیں گے اور کم سے کم ساٹھ سے اسی ہزار پبلشر کمائے گا! پبلشرز ایڈیشنز کی تعداد میں بھی بناء بتائے اضافہ کر دیتے ہیں‘ جیسے پندرہ سو کتابوں کا ایڈیشن چھاپ لیا اور مصنف کو بتایا کہ ہزار کتابوں کا ایڈیشن شائع ہوا ہے! اگر کوئی مصنف اپنی کتاب خود شائع کرے تو کتاب بیچنے والے اپنا منافع چالیس سے پچاس فیصد وصول کرتے ہیں یعنی جو کتاب تین سو روپے میں بکے گی وہ بیچنے والے کو ایک سو بیس سے لے کر ایک سو پچاس روپے میں ملے گی۔ اب ذرا غور کیجئے کہ کتاب کی اشاعت‘ لکھنے والے کا حصہ صرف ڈیڑھ سو روپے ہوگا اور اس میں وہ اخراجات بھی شامل ہوں گے جو اس کتاب کی اشاعت پر خرچ ہوئے لیکن کتاب بیچنے والا بناء محنت‘ بناء کسی قسم کی سرمایہ کاری ڈیڑھ سو روپے کمائے گا‘ تو کیا اِس قسم کا منافع اور حاکمیت جائز ہے؟ اُردو لکھنے والے اگر ذرائع ابلاغ کا سہارا لیں تو بھی انہیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا‘ جس سے اُن کی باعزت گزراوقات ممکن ہو۔ خیبرپختونخوا حکومت اُردو زبان و ادب کے ساتھ علاقائی زبانوں کی بھی سرپرستی کرکے بکھرے موتیوں کو یکجا کر سکتی ہے کیونکہ اپنی اقدار‘ روایات اور ادب کی بجائے اگر ہم اغیار کی اَندھا دھند پیروی کرتے رہے تو اس سے علم دوستی‘ قومی تشخص اور ملی وحدت نہیں اُبھرے گی‘ جس کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
ہمارے ہاں ہر قسم کے مصنف اور شاعر پائے جاتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے لکھنے میں بخل سے کام نہیں لیا اور اپنے بعد سینکڑوں کتابیں چھوڑ گئے لیکن جس معاشرے میں کتاب کا مقام نہ ہو‘ وہاں لکھنے والے اہمیت بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ عجب ہے کہ جن شہرۂ آفاق کتب کا دیگر زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کیا گیا وہ بھی خاطرخواہ مقام حاصل نہیں کرسکیں کیونکہ ہم اِس بات پر زیادہ فخر کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ غیرملکی زبان میں نظمیں پڑھے! یہ الگ موضوع ہے کہ برصغیر (پاکستان اور بھارت) کے اہلِ ہنر کی آشفتہ حالی اور آبلہ پائی نئی بات نہیں‘ قرض کی مے کی عیاشی تو خیر کسی کسی کو میسر تھی‘ یہاں تو ضروریات زندگی اور ادویات کے لئے بھی بڑے بڑے نام امیر وقت کی چوکھٹ پر سرنگوں پائے گئے ہیں۔ کیا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب میرے ملک میں لکھنے والوں کا معیار زندگی بلند ہو پائے گا؟ نجانے کب فن‘ فنکار اور ادیب کی قدرواہمیت کو سمجھا جاسکے گا؟ فیصل آباد کا ایک ناول نگار جو زندگی گزارنے کے لئے رکشہ چلاتا ہے اور فیصل آباد ہی کے نواح کا ایک موچی جو کئی کتابوں کا مصنف ہے‘ یہ خبریں ابھی بالکل تازہ ہیں‘ کیا اتنی کتابوں کے بعد ان کے مستقبل کا ستارہ جگمگا نہیں جانا چاہئے تھا؟ کیا بارہ کتابوں کے خالق کی زندگی میں کچھ بہتری نہیں آ جانی چاہئے تھی؟ مگر جہاں الفاظ کوڑیوں کے مول بک جائیں‘ جہاں جذبات کی قدر و قیمت کا پھل صرف بیوپاری کی جھولی میں گرے وہاں لکھنے والے اور فنکار کی زندگی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی!
جس طرح سبزی منڈی میں آڑتھیوں کی حکمرانی ہے جن سے بچارے کاشتکار کو اتنی رقم بھی نہیں ملتی جن سے فصل کے پیداواری اخراجات پورے ہو سکیں‘ بالکل اسی طرح پاکستان میں پبلشرز (اشاعتی ادارے) مصنفین کو اُن کا جائز حق دینے سے کتراتے ہیں۔ کتاب بکنے والی ہو اور مصنف اس کے حقوق بیچنے پر تیار نہ ہو تو رائلٹی کے نام پر پندرہ سے بیس فیصد پر گھیر لیتے ہیں یعنی ایک ایڈیشن پر پندرہ سے بیس ہزار روپے مصنف کو ملیں گے اور کم سے کم ساٹھ سے اسی ہزار پبلشر کمائے گا! پبلشرز ایڈیشنز کی تعداد میں بھی بناء بتائے اضافہ کر دیتے ہیں‘ جیسے پندرہ سو کتابوں کا ایڈیشن چھاپ لیا اور مصنف کو بتایا کہ ہزار کتابوں کا ایڈیشن شائع ہوا ہے! اگر کوئی مصنف اپنی کتاب خود شائع کرے تو کتاب بیچنے والے اپنا منافع چالیس سے پچاس فیصد وصول کرتے ہیں یعنی جو کتاب تین سو روپے میں بکے گی وہ بیچنے والے کو ایک سو بیس سے لے کر ایک سو پچاس روپے میں ملے گی۔ اب ذرا غور کیجئے کہ کتاب کی اشاعت‘ لکھنے والے کا حصہ صرف ڈیڑھ سو روپے ہوگا اور اس میں وہ اخراجات بھی شامل ہوں گے جو اس کتاب کی اشاعت پر خرچ ہوئے لیکن کتاب بیچنے والا بناء محنت‘ بناء کسی قسم کی سرمایہ کاری ڈیڑھ سو روپے کمائے گا‘ تو کیا اِس قسم کا منافع اور حاکمیت جائز ہے؟ اُردو لکھنے والے اگر ذرائع ابلاغ کا سہارا لیں تو بھی انہیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا‘ جس سے اُن کی باعزت گزراوقات ممکن ہو۔ خیبرپختونخوا حکومت اُردو زبان و ادب کے ساتھ علاقائی زبانوں کی بھی سرپرستی کرکے بکھرے موتیوں کو یکجا کر سکتی ہے کیونکہ اپنی اقدار‘ روایات اور ادب کی بجائے اگر ہم اغیار کی اَندھا دھند پیروی کرتے رہے تو اس سے علم دوستی‘ قومی تشخص اور ملی وحدت نہیں اُبھرے گی‘ جس کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment