Thursday, October 29, 2015

Oct2015: Disasters & our handling!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قدرتی آفت: سیاسی و نمائشی تقاضے!
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی پارکنگ میں گاڑی کھڑا کرنے کی جگہ نہیں رہی‘ کیونکہ اِن دنوں وہاں ایک تو ٹیلی ویژن چینلوں کی اُو بی وینز (ڈی ایس این جی گاڑیاں) مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ اہم شخصیات (وی وی آئی پیز) کی آمدورفت کی وجہ سے سخت حفاظتی انتظامات کرنا پڑے ہیں۔عجب ہے کہ سیاسی رہنما تو اپنی جگہ بیچارے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن اُن کی بیگمات بھی اس ’نادر موقع‘ پر گھروں سے نکل آئیں ہیں اور ضروری سمجھتی ہیں کہ پہلے رش زدہ ہسپتالوں کی رونقوں میں اضافہ کریں! یقیناًسیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ کسی آفت کے موقع پر یہ بات کتنی ضروری ہوتی ہے کہ وہ عملی طور پر کچھ کریں یا نہ کریں لیکن ذرائع ابلاغ میں اُن کی موجودگی برقرار رہنی چاہئے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس دفعہ بھی ڈاکٹروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ’’زخمیوں کو ہرممکن علاج کی سہولیات فراہم کریں‘‘ جیسا کہ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو ڈاکٹر زیرعلاج مریضوں کی نگہداشت کی بجائے اُنہیں ہسپتالوں سے باہر پھینک دیتے! خدارا دکھوں کی ماری قوم سے مذاق بند کیا جائے۔ درد سے کراہتے ہوئے مریضوں کے سراہانے کھڑے ہوکر تصاویر اور فلمیں بناے والوں کو خوف خدا بھی نہیں رہا! کسی مریض پر جھک کر قوم کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ کتنے دردمند ہیں حالانکہ اُنہوں نے سانس روک رکھی ہوگی کہ مبادا بدبو اُن کے نتھنوں سے نہ ٹکرائے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ حضور آپ جس وارڈ میں کھڑے ہیں کیا کبھی یہاں علاج کے لئے آنا پسند کریں گے؟ ہسپتال انتظامیہ بھی معاون بنی ہوئی ہے جو ہاتھ باندھے منتظر رہتی ہے اور چند ایسے مریضوں کوصاف ستھرے بیڈوں اور سلیقے سے رکھی ہوئی ادویات والے ایک وارڈ کو سجا کر رکھا جاتا ہے تاکہ سیاست دان تصاویر بنانے کا اپنا شوق اور ایک سیاسی ضرورت پوری کرسکیں۔

کسی سرکاری ہسپتال کے لئے انتظامی نگران اور مختلف شعبہ جات کی سربراہی کا فیصلہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاست دان کرتے ہیں۔ اگر قابلیت اور اہلیت کوئی معنی رکھتی تو ہمیں سرکاری ہسپتالوں کی اکثریت میں میڈیکل ڈاکٹر بطور نگران تعینات نہ ملتے بلکہ وہ تو اپنے تجربے اور طب پر دسترس کا فائدہ مریضوں کوپہنچا رہے ہوتے لیکن ہمارے ہاں عجب ہے کہ سرکاری ہسپتال میں بطور نگران بن کر وسیع و عریض کمرہ‘ مراعات و اختیارات جن میں حکومت سے ملنے والے کروڑوں روپے کی گرانٹ‘ ہسپتال کی اپنی آمدنی‘ ہزاروں کروڑوں روپے کی ادویات اور آلات کی خریداری وغیرہ جیسے امور شامل ہوتے ہیں پر حاکمیت برقرار رکھی جائے۔ یہ معاملہ صرف سرکاری ہسپتالوں ہی کا نہیں بلکہ ہر حکومتی ادارے کے انتظامی معاملات کو ایک ایسے نظام سے جوڑ دیا گیا ہے جس میں حکمراں سیاسی جماعت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے لیکن کسی ادارے کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری نہ تو انتظامیہ قبول کرتی ہے اور نہ اُن کا انتخاب کرنے والے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں ایک ایسے ہسپتال کا جہاں جدید ڈیجیٹل ایکسرے مشینیں اور تشخیص میں معاون آلات نہ ہوں۔ چھبیس اکتوبر کے زلزلے نے ایک مرتبہ پھر ہماری علاج گاہوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جہاں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ مریضوں کاعلاج ہوتا ہے اور کسی ہنگامی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر وہ مریض ہوتے ہیں جن کے طبی عملے کا رخ دیگر مریضوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے!

چھبیس اکتوبر کے زلزلے کے بعد ہر کوئی ذرائع ابلاغ میں اپنی اپنی ساکھ بنانے کے چکر میں ایک دوسرے پر برتری لیجانے کی کوشش میں ہے۔ عجب ہے کہ اگر کسی کو امداد دینی ہے تو یہ عمل رازداری اور ’’مبنی بر نمائش‘‘ نہیں ہونا چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پاک فوج کا ادارہ فوری ردعمل کا مظاہرہ نہ کرتا تو زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ جانی نقصان ہوتا اور یہ نقصان کسی عمارت کے ملبے تلے دبنے یا اس قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں بلکہ موسم کی شدت اور بھوک و پیاس سے ہوتا۔ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں زلزلہ متاثرین بے سروسامانی کی حالت میں ہیں۔ انہیں گرم کپڑوں سمیت سر چھپانے کے لئے چھت کی ضرورت ہے۔امدادی اداروں کی جانب سے فراہم کئے جانے والے خیمے برفباری اور بارش جیسے شدید موسم کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہیں خریدے گئے۔ پالیسی سازوں کی فہم و فراست کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موسمی شدت والے علاقوں کے لئے الگ قسم کے خیمے خرید کر نہیں رکھے گئے۔ پاک فوج جیسے منظم ادارے کے پاس ملبہ ہٹانے‘ عارضی پل‘ ملبے تلے دبے ہوئے افراد کی تلاش کے لئے الیکٹرانک آلات‘ ہیلی کاپٹر‘ ترسیل کے لئے طاقتور گاڑیاں (ٹرک) اور کیمونیکشن (رابطہ کاری) کا ایک ایسا مستعد و مؤثر نظام ہے‘ جو کسی بھی موسم اور درجۂ حرارت میں کام کر سکتا ہے۔ اس قسم کی تکنیکی صلاحیت امدادی اداروں بالخصوص ریسکیو 1122 کے پاس بھی ہونی چاہئے تھی۔ خیبرپختونخوا حکومت کو سوچنا چاہئے کہ انہیں ترجیح بنیادوں پر ’ریسکیو 1122‘ کی خدمات کو کم از کم اضلاع کی سطح تک توسیع دے۔ چند بڑے شہروں کی حد تک ’ریسکیو کا ادارہ‘ کافی نہیں۔

قدرتی آفت چھوٹی ہو یا بڑے پیمانے پر اس کے وسیع منظرنامے اور پہلوؤں پر غور کرنے سے پہلے سیاسی و نمائشی تقاضوں کو الگ رکھنا ہوگا۔ جہاں دس برس بعد بھی زلزلے سے متاثرہ سکول تعمیر نہیں ہوسکے۔ جہاں 2005ء کے زلزلہ متاثرین کو بحالی کے لئے امداد ملنے کا سلسلہ پانچ برس بعد شروع کرنا ممکن ہوا ہو‘ وہاں اُنہی حکومتی اداروں سے یہ توقع کرنا کہ ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا کے دکھوں پر مرہم رکھیں گے‘ یہ بات اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ چھبیس اکتوبر کا زلزلہ نہ تو آخری تھا اور نہ ہی اس کے بعد قدرت کے مقرر کردہ ماحولیاتی توازن میں بگاڑ کی وجہ سے تغیرات کا سلسلہ رک جائے گا۔ جس ملک میں ’ماحولیات‘ کے محکمے کو ’ماخولیات‘ سمجھا جائے۔ جہاں انتخابات میں کامیاب ہونے کے ماہرین کو فیصلہ سازی سونپ دی جائے وہاں ذاتی و سیاسی ترجیحات کے تحفظ پر حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ زلزلہ متاثرین کی امداد اور متاثرہ علاقوں میں معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو زحمت کرنے کی قطعی ضرورت نہیں بلکہ یہ کام زیادہ بہتر انداز میں بلدیاتی نمائندے کر سکتے ہیں کیونکہ اُن کی موجودگی ہر گاؤں‘ تحصیل اور ضلع کی سطح پر موجود ہے۔ نہایت مناسب وقت ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں بلدیاتی نمائندوں کی شرکت اور تعمیروترقی کے حوالے سے ترجیحات کے تعین میں اُن کی رائے کو خاطرخواہ اہمیت دی جائے۔

No comments:

Post a Comment