Wednesday, October 28, 2015

Oct2015: Cell phone in emergencies!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام 
ہنگامی حالات: ناقابل بھروسہ موبائل فون
کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی موبائل صارف ’پندرہ منٹ‘ دروانیئے میں 200 ایس ایم ایس (شارٹ میسیجنگ سروس) پیغامات اِرسال کرے تو ایک سو ساٹھ الفاظ پر مشتمل مختصر پیغام رسانی کی یہ سہولت اُس سے چھین لی جاتی ہے!َ؟ پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے یہ قاعدہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں لاگو کیا گیا جس کا مقصد اُس وقت کے انتہائی غیرمقبول صدر آصف علی زرداری کے خلاف چلنے والی وہ ’ایس ایم ایس مہم‘ جس میں اُن کی ذات‘ کردار‘ مالی حیثیت‘ بیرون ملک اثاثہ جات حتیٰ کہ اُن کی نجی زندگی کو موضوع بنایا جاتا تھا لیکن پیپلزپارٹی سمیت زرداری صاحب کے پاکستان میں ’غروب‘ ہونے کے باوجود یہ پابندی بدستور موجود ہے‘ جو جمہوریت‘ آزادی اظہار سمیت موبائل فون صارفین کے اُس بنیادی حق کو بھی ضبط کئے ہوئے ہے‘ جس میں وہ اپنے پیسوں سے خریدے ہوئے فون‘ اور اپنی ہی جیب سے ادائیگی کرتے ہوئے ’ایس ایم ایس‘ کرتے ہیں۔ پی ٹی اے کی اصطلاح میں پندرہ منٹ میں دو سو ایس ایم ایس کرنے والا ’سپام (Spam)‘ یعنی فضولیات پھیلا رہا ہوتا ہے یعنی ایسے پیغامات بھیج رہا ہوتا ہے جس سے دیگر موبائل صارفین ذہنی کوفت سے دوچار ہوں اور مذکورہ قاعدہ اِس لئے تشکیل دیا گیا تاکہ ایک موبائل صارف کے شر سے دوسرا موبائل صارف محفوظ رہے! بظاہر یہ منطقی دلیل خامیوں کا مرکب ہے۔ مثال کے طور پر 1: سمارٹ فونز کے علاؤہ تیسری اور چوتھی جنریشن کے تمام موبائل ہینڈسیٹس سافٹ وئرز میں ’بلیک لسٹ (black list)‘ کا آپشن شامل ہوتا ہے‘ جسے اینڈرائرڈ صارفین الگ سے بھی اپنے فون کا حصہ بنا سکتے ہیں اور اِس سہولت کے ذریعے اگر چاہیں تو لاتعداد موبائل نمبروں سے فون کالز یا ایس ایم ایس پیغامات ملنے کے سلسلے کو روک (block) کر سکتے ہیں۔یہی سہولت موبائل فون کمپنیاں بھی فراہم کرتی ہیں تاہم اُس صورت میں صارف کو ہفتہ وار اور مہینہ وار ایک خاص رقم (قیمت) اَدا کرنا پڑتی ہے جبکہ مفت اور آسان حل یہی ہے کہ اپنے فون میں موجود ’بلیک لسٹ‘ کی سہولت کا استعمال کیا جائے اور اگر یہ سہولت دستیاب نہ ہو تو اسے بلاقیمت حاصل (download) یا انٹرنیٹ کی معلومات نہ ہونے کی صورت کسی موبائل ڈیلر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ 2: ایک وقت تھا کہ پیغام رسانی کے لئے صرف موبائل (GSM) نیٹ ورکس پر انحصار کیا جاتا تھا لیکن اب انٹرنیٹ نے رابطہ کاری کی ایک نئی دنیا متعارف کرادی ہے جس میں جغرافیائی سرحدوں و ٹائم زونز کی قید اُور بیرون ملک پیغام بھیجنے یا فون کال کی صورت میں فی منٹ قیمت ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ پاکستان میں بذریعہ انٹرنیٹ رابطہ کاری (ip communication)کی پانچ سرفہرست اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپس (apps) میں سکائپ‘ وائبر‘ واٹس ایپ‘ فیس بک مسینجز اُور گوگل چیٹ شامل ہیں جن کے ذریعے تحریری بات چیت کرتے ہوئے 160 الفاظ فی پیغام کی حد (قید) بھی مقرر نہیں اور یہ ’جی ایس ایم نیٹ ورکس‘ کے مقابلے زیادہ برق رفتار اور قابل بھروسہ ہے۔ جب ہم الیکٹرانک طریقوں سے پیغام رسانی کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے لئے ’قابل بھروسہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں جبکہ بیک وقت ہزاروں لاکھوں صارف موبائل فون استعمال کرنا شروع کرتے ہیں تو پورا نظام ہی بیٹھ جاتا ہے اور فون سگنلز ہونے کے باوجود بھی رابطہ کاری ممکن نہیں ہو پاتی تو ایسے میں انٹرنیٹ دھوکہ نہیں دیتا!

چھبیس اکتوبر کے روز پاکستان کی تاریخ کے بدترین زلزلہ نے جہاں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی ہماری عمومی صلاحیت پر سوال اُٹھایا‘ وہیں رابطہ کاری کے وسائل میں شامل ’جی ایس ایم موبائل نیٹ ورکس‘ کی استعداد بڑھانے اور کسی متبادل‘ زیادہ قابل بھروسہ نظام اپنانے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔ شہری علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت عام ہونے سے پہلے ہی بھرپور فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے لیکن اِس سہولت کو دیہی علاقوں اُور بالخصوص بالائی و پہاڑی علاقوں تک وسعت دینے کے لئے ’سیٹلائٹ کیمونیکیشن‘ میں سرمایہ کاری ایک ایسا پائیدار حل ثابت ہوسکتا ہے‘ جس سے عمومی حالات میں درس و تدریس‘ شعور و اگہی‘ موسمی ردوبدل کے بارے معلومات کی فراہمی‘ آبپاشی کے وسائل کا بہترین استعمال اور دیگر خصوصی یا ہنگامی حالات میں رہنمائی کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن سردست وفاقی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ موبائل نیٹ ورکس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیغامات ارسال کرنے پر عائد پابندی ختم کرے کیونکہ جو لوگ ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے مارکیٹنگ (کاروبار) کرتے ہیں وہ ہر چودہ منٹ میں 200 پیغامات ارسال کرکے ایک منٹ کا وقفہ لے لیتے ہیں جس کے بعد انجان موبائل نمبروں پر مزید دو سو پیغامات ارسال کر دیئے جاتے ہیں۔ یقیناًہر موبائل صارف کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور لاکھوں روپے کی لاٹری (انعامات) نکلنے کی خوشخبری والے ’ایس ایم ایس‘ ملتے ہی رہتے ہیں تو معلوم ہوا کہ جو لوگ ’سپام (spam)‘ یعنی ’ایس ایم ایس‘ کا تجارتی و غلط (بیجا) استعمال کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ تو اِس پابندی سے متاثر نہیں ہو رہے اُور انہوں نے کمپوٹر کے ایسے سافٹ وئرز استعمال کرنا شروع کر رکھے ہیں جو ’ایس ایم ایس‘ کی ترسیل اور انہیں ہر پندرہ منٹ پر تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں شامل عوام کے منتخب نمائندوں اور بالخصوص خیبرپختونخوا اسمبلی کی جانب سے ایک قرارداد کی صورت وفاقی حکومت سے مطالبہ ہونا چاہئے کہ پندرہ منٹ میں زیادہ سے زیادہ دو سو ایس ایم ایس پیغامات کی ترسیل پر عائد پابندی ختم کرے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ موبائل صارفین کی اکثریت اِس قاعدے سے لاعلم ہے اور انجانے میں جب اُن سے خلاف ورزی سرزد ہوتی ہے تو فوراً ہی انہیں ’پی ٹی اے‘ کی جانب سے ایک ’ایس ایم ایس‘ موصول ہوتا ہے کہ آپ سے ایس ایم ایس کی سہولت چھین لی گئی ہے جس کے نیچے دو فون نمبر اور ایک ای میل ایڈریس درج ہوتا ہے۔ پی ٹی اے حکام نے کمپیوٹرائزڈ (خودکار) طریقے سے پابندی تو عائد کر دی لیکن ’ایس ایم ایس‘ کی سہولت واگزار (بحال) کرنے کا طریقہ خودکار نہیں رکھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے اپنے اور اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے نمبر ’اہم‘ قرار دے کر اُنہیں اِس پابندی سے مستثنیٰ رکھا ہواہے! اصولی طور پر پہلی بار دو سو ایس ایم ایس ارسال کرنے والے کو خبردار (وارننگ) کیا جائے اور دوسری بار اُس پر پابندی کا اطلاق ہونا چاہئے۔

قابل ذکر ہے کہ ماحولیاتی تنوع سے متعلق ہمارا عمومی رویہ‘ ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ یا تحفظ کے حوالے سے ہماری کم ترین ترجیحات کی موجودگی میں مزید قدرتی آفات کا نزول خارج ازامکان نہیں۔ افغانستان میں زمین کے اندر گہرائی میں جاکر دھماکہ کرنے والے بموں کے استعمال سے ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ زیرزمین تہہ در تہہ متاثر ہوا ہے جو ماہرین کے بقول پے درپے زلزلوں کا مؤجب بن رہا ہے۔ موسم سرما کے آغاز ہی میں شدید برفباری سے کاغان و ناران اور چترال کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں سمجھنا ہے کہ ہماری معیشت و معاشرت‘ ثقافت اور تاریخ (بقاء) موسموں پر منحصر ہے اور اگر مون سون بارشوں کے مزاج یا اوقات میں خدانخواستہ غیرمعمولی تبدیلی رونما ہوئی تو اُس کے منفی اثرات سب سے زیادہ خیبرپختونخوا پر مرتب ہوں گے‘ جہاں ہنگامی حالات کی صورت رابطہ کاری کے وسائل تو موجود ہیں لیکن کچھ بھی قابل بھروسہ نہیں۔

No comments:

Post a Comment