ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
غورطلب حقائق!
غورطلب حقائق!
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این اے ایچ) کے مطابق ناران کے راستوں پر برف کی
4فٹ تہہ ہٹا دی گئی ہے تاہم اندرون ناران کی سڑکوں پر پھنسے ہوئے سیاحوں کی
وجہ بے ہنگم ٹریفک اور سڑک کنارے کھڑی (پارک کی گئیں) گاڑیاں ہیں‘ جنہیں
ہٹائے بناء معمول کے مطابق آمدورفت کی روانی ممکن نہیں بنائی جا سکتی۔ قابل
ذکر ہے کہ ناران میں پچاس غیرملکی سیاح بھی چند فٹ برف کی وجہ سے پھنسے
ہوئے ہیں اور انتظامیہ کے مطابق غیرملکی سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل
کر دیا ہے۔ غیرملکی سیاح حیران ہوں گے کہ اگر ناران میں پہلی مرتبہ
برفباری نہیں ہو رہی اُور محکمۂ موسمیات نے مطلع (خبردار) بھی کر رکھا تھا
تو پھر حکومتی اداروں نے ایک ایسے سیاحتی مقام تک رسائی اور آمدورفت کو
بحال کیوں نہیں رکھا‘ جہاں صرف کم و بیش پانچ ہزار سیاحوں کا نہیں بلکہ
مقامی آبادی کی ضروریات کا بھی انحصار ہے!
پاک فوج کے ادارے ’ایف ڈبلیو اُو‘ نے برف ہٹانے کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور بٹہ کنڈی سے ناران تک سڑک کا حصہ صاف کیا‘ تاہم سوال یہ ہے کہ اِس صورتحال میں ’قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے ’پی ڈی ایم اے‘ کا کردار کیا ہے؟ پی ڈی ایم اے کے نگران عامر آفاق کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس بھاری مشینری نہیں اور ہم قدرتی آفات کی صورت دیگر اداروں سے کورآرڈینشن (رابطہ کاری) کی ذمہ داری نبھاتے ہیں!‘‘ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے سیاحتی امور امجد آفریدی کے بقول صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن کیا ’ناران زدگان‘ کی فریادیں اور انتظامات پر غور نہیں ہونا چاہئے؟ اگر جملہ سیاحتی مقامات پر الگ ایف ایم ریڈیو‘ شمسی توانائی اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے منسلک کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن نصب ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ناران کی چند فٹ برف اتنی بڑی خبر بنتی۔ سیاحتی مقامات کی سیر کے لئے جانے والوں کی رہنمائی کس کی ذمہ داری ہے؟ محکمۂ موسمیات کی پیشگوئیوں سے سیاحوں کو مطلع کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟
ڈی پی اُو مانسہرہ نجیب الرحمن کی منطق ملاحظہ کیجئے جن کا کہنا ہے کہ ’’محرم الحرام کی تین چھٹیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں سیاح ناران پہنچے جہاں پارکنگ گنجائش سے زیادہ ہونے کی وجہ سے سڑک کا استعمال کیا گیا۔ سیاحوں نے تین قطاروں میں گاڑیاں کھڑی کیں جس سے وہ پھنس کر رہ گئے۔ جہاں تک موسمی حالات کا تعلق ہے تو عموماً اس قسم کی شدید برفباری ماہ دسمبر میں ہوتی ہے۔ یہ ایک قدرتی آفت ہے اور ذرائع ابلاغ نے اِس مسئلے کو جس قدر اُچھالا ہے‘ درحقیقت یہ اُتنا بڑا نہیں۔ محکمہ پولیس اور انتظامیہ برفانی تودہ میں پھنسے ہوئے پندرہ مزدوروں کو نکالنے میں بھی مصروف تھی جن میں ایک ہلاک ہوا جبکہ باقی کو زندہ بچا لیا گیا۔ یوں بیک وقت دو الگ الگ محاذوں پر توجہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو شکایت رہی‘ جس کا ازالہ کیا جارہا ہے۔‘‘ لیکن یخ بستہ رات اور پورا دن کھلے آسمان تلے بسر کرنے والے چھبیس اکتوبر کی سہ پہر تک پھنسے ہوئے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ چوبیس سے چھتیس گھنٹے برفباری اور بارش کا سلسلہ جاری رہے گا! علاقے میں سردی کی شدید لہر‘ مزید برفباری‘ پانچ کلومیٹر لمبی گاڑیوں کی قطار‘ پیٹرول اور ڈیزل دستیاب نہ ہو‘ ہوٹل مالکان نے ناجائز منافع خوری کے لئے رہائشی سہولیات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہو اور اشیائے خوردونوش الگ سے مہنگی کر دی ہوں‘ بیشتر علاقوں میں موبائل فون رابطہ کاری بھی معطل ہو تو کیا یہ معمول کی صورتحال ہے؟ مہذب ملک ہوتا تو سیاحت کے وزیرومشیر اور معاونین معطل ہو چکے ہوتے لیکن چونکہ عام لوگ پریشانی و اذیت سے گزر رہے ہیں‘ اِس لئے حکام کے لب ولہجے سے تشویش عیاں نہیں!
سیکورٹی خدشات کی موجودگی میں ’محرم الحرام‘ کا پہلا عشرہ مجموعی طور پر پرامن انداز میں گزرا۔ دس روز میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات میں جیکب آباد سندھ کے ایک ماتمی جلوس پر ہوا حملہ شدید ترین تھا‘ جس سے متاثرہ تشویشناک حالت والے زخمیوں کو کراچی منتقل کرنا پڑا کیونکہ علاقائی و ضلعی سطح علاج معالجے کی سہولیات ناکافی تھیں۔ ہسپتالوں کی عمارتیں موجود لیکن ڈاکٹرز اور ادویات دستیاب نہیں تھیں۔ 26 اکتوبر کے روز آغا خان ہسپتال میں زیرعلاج اِس دھماکے کی ایک زخمی بچی دم توڑ گئی جس سے مرنے والوں کی تعداد 28 ہو گئی جبکہ اس حملے کے 38 زخمیوں میں سے 8کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ صوبہ سندھ کے اِس واقعہ کو دیکھتے ہوئے خیبرپختونخوا میں صحت کی سہولیات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کیونکہ جب تک دیہی علاقوں اور اضلاع کی سطح پر ہسپتالوں کا نیٹ ورک وسیع‘ مستعد و فعال نہیں بنا دیئے جاتے‘ ضلعی اور مرکزی ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ برقرار رہے گا‘ بالخصوص کسی ہنگامی صورتحال میں زیادہ بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا اندیشہ موجود ہے اور رہے گا۔ محکمۂ صحت کے فیصلہ سازوں سے التجا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے ہسپتالوں پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے ’فرصت کے چند لمحات‘ میں دیہی و بالائی پہاڑی علاقوں کے بارے میں بھی سوچیں کیونکہ غورطلب حقائق میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ جب تک کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوتا‘ روایت رہی ہے کہ حکومت اور متعلقہ شعبوں کے ذمہ دار اُس جانب توجہ نہیں کرتے۔ سردست صحت کے ذمہ داروں کی کارکردگی سے حاصل ’خوش خبری‘ یہ ہے کہ ’’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں شام کے اوقات میں ’سرجیکل اور گائنی سمیت 9 شعبوں‘ میں ’اُو پی ڈی‘ کا آغاز 26اکتوبر کی ’اَبرآلود صبح‘ کر دیا گیا ہے‘‘ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اِس سرکاری ہسپتال میں ’’تیسری مرتبہ‘‘ ہونے والا یہ تجریہ کس حد تک کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اِسی قسم کی کوششیں اس لئے ناکام ہوئیں کیونکہ ڈاکٹر شام کے اوقات میں اپنے نجی کلینک چلاتے ہیں اور اُن کی ترجیح ’ذاتی کاروبار‘ رہے جو محض مریضوں کے معائنے کی حد تک محدود نہیں بلکہ ان کے ساتھ تجزیہ گاہوں اور ادویات فروشی کے کاروبار بھی جڑے ہوئے ہیں‘ جن کا حجم کروڑوں روپے ماہانہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجیکی معیاری و ہمہ وقت سہولیات کی فراہمی محض نیک نیتی یا خواہشات کے ذریعے ممکن نہیں۔ مریضوں سے پہلے ڈاکٹروں کی اُس اکثریت کا علاج ضروری ہے‘ جو ذاتی مفادات کے سامنے قواعد و ضوابط حتیٰ کہ انسانی جان کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتے۔ مادی دنیا کی ضروریات اپنی جگہ لیکن مسیحاؤں کو ضمیر کی عدالت میں اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں انواع و اقسام نے امراض نے مستقل ڈیرے جما رکھے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مرض کی تشخیص اور علاج کے درمیان دانستہ طور پر اتنا طول رکھا گیا ہے کہ جب تک مریض کسی ڈاکٹر کے نجی کلینک سے رجوع نہ کرے‘ اُسے نہ تو تسلی ہوتی ہے اور نہ ہی شفایابی۔ خوداحتسابی سے کام لیتے ہوئے کم آمدنی والے طبقات کی مشکلات و پریشانیوں کے بارے میں صرف ڈاکٹروں ہی کو نہیں بلکہ صوبائی حکومت کو بھی دردمندی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا‘ تاکہ اُن سے وابستہ توقعات پوری ہو سکیں۔
پاک فوج کے ادارے ’ایف ڈبلیو اُو‘ نے برف ہٹانے کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور بٹہ کنڈی سے ناران تک سڑک کا حصہ صاف کیا‘ تاہم سوال یہ ہے کہ اِس صورتحال میں ’قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے ’پی ڈی ایم اے‘ کا کردار کیا ہے؟ پی ڈی ایم اے کے نگران عامر آفاق کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس بھاری مشینری نہیں اور ہم قدرتی آفات کی صورت دیگر اداروں سے کورآرڈینشن (رابطہ کاری) کی ذمہ داری نبھاتے ہیں!‘‘ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے سیاحتی امور امجد آفریدی کے بقول صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن کیا ’ناران زدگان‘ کی فریادیں اور انتظامات پر غور نہیں ہونا چاہئے؟ اگر جملہ سیاحتی مقامات پر الگ ایف ایم ریڈیو‘ شمسی توانائی اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے منسلک کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن نصب ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ناران کی چند فٹ برف اتنی بڑی خبر بنتی۔ سیاحتی مقامات کی سیر کے لئے جانے والوں کی رہنمائی کس کی ذمہ داری ہے؟ محکمۂ موسمیات کی پیشگوئیوں سے سیاحوں کو مطلع کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟
ڈی پی اُو مانسہرہ نجیب الرحمن کی منطق ملاحظہ کیجئے جن کا کہنا ہے کہ ’’محرم الحرام کی تین چھٹیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں سیاح ناران پہنچے جہاں پارکنگ گنجائش سے زیادہ ہونے کی وجہ سے سڑک کا استعمال کیا گیا۔ سیاحوں نے تین قطاروں میں گاڑیاں کھڑی کیں جس سے وہ پھنس کر رہ گئے۔ جہاں تک موسمی حالات کا تعلق ہے تو عموماً اس قسم کی شدید برفباری ماہ دسمبر میں ہوتی ہے۔ یہ ایک قدرتی آفت ہے اور ذرائع ابلاغ نے اِس مسئلے کو جس قدر اُچھالا ہے‘ درحقیقت یہ اُتنا بڑا نہیں۔ محکمہ پولیس اور انتظامیہ برفانی تودہ میں پھنسے ہوئے پندرہ مزدوروں کو نکالنے میں بھی مصروف تھی جن میں ایک ہلاک ہوا جبکہ باقی کو زندہ بچا لیا گیا۔ یوں بیک وقت دو الگ الگ محاذوں پر توجہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو شکایت رہی‘ جس کا ازالہ کیا جارہا ہے۔‘‘ لیکن یخ بستہ رات اور پورا دن کھلے آسمان تلے بسر کرنے والے چھبیس اکتوبر کی سہ پہر تک پھنسے ہوئے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ چوبیس سے چھتیس گھنٹے برفباری اور بارش کا سلسلہ جاری رہے گا! علاقے میں سردی کی شدید لہر‘ مزید برفباری‘ پانچ کلومیٹر لمبی گاڑیوں کی قطار‘ پیٹرول اور ڈیزل دستیاب نہ ہو‘ ہوٹل مالکان نے ناجائز منافع خوری کے لئے رہائشی سہولیات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہو اور اشیائے خوردونوش الگ سے مہنگی کر دی ہوں‘ بیشتر علاقوں میں موبائل فون رابطہ کاری بھی معطل ہو تو کیا یہ معمول کی صورتحال ہے؟ مہذب ملک ہوتا تو سیاحت کے وزیرومشیر اور معاونین معطل ہو چکے ہوتے لیکن چونکہ عام لوگ پریشانی و اذیت سے گزر رہے ہیں‘ اِس لئے حکام کے لب ولہجے سے تشویش عیاں نہیں!
سیکورٹی خدشات کی موجودگی میں ’محرم الحرام‘ کا پہلا عشرہ مجموعی طور پر پرامن انداز میں گزرا۔ دس روز میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات میں جیکب آباد سندھ کے ایک ماتمی جلوس پر ہوا حملہ شدید ترین تھا‘ جس سے متاثرہ تشویشناک حالت والے زخمیوں کو کراچی منتقل کرنا پڑا کیونکہ علاقائی و ضلعی سطح علاج معالجے کی سہولیات ناکافی تھیں۔ ہسپتالوں کی عمارتیں موجود لیکن ڈاکٹرز اور ادویات دستیاب نہیں تھیں۔ 26 اکتوبر کے روز آغا خان ہسپتال میں زیرعلاج اِس دھماکے کی ایک زخمی بچی دم توڑ گئی جس سے مرنے والوں کی تعداد 28 ہو گئی جبکہ اس حملے کے 38 زخمیوں میں سے 8کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ صوبہ سندھ کے اِس واقعہ کو دیکھتے ہوئے خیبرپختونخوا میں صحت کی سہولیات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کیونکہ جب تک دیہی علاقوں اور اضلاع کی سطح پر ہسپتالوں کا نیٹ ورک وسیع‘ مستعد و فعال نہیں بنا دیئے جاتے‘ ضلعی اور مرکزی ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ برقرار رہے گا‘ بالخصوص کسی ہنگامی صورتحال میں زیادہ بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا اندیشہ موجود ہے اور رہے گا۔ محکمۂ صحت کے فیصلہ سازوں سے التجا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے ہسپتالوں پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے ’فرصت کے چند لمحات‘ میں دیہی و بالائی پہاڑی علاقوں کے بارے میں بھی سوچیں کیونکہ غورطلب حقائق میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ جب تک کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوتا‘ روایت رہی ہے کہ حکومت اور متعلقہ شعبوں کے ذمہ دار اُس جانب توجہ نہیں کرتے۔ سردست صحت کے ذمہ داروں کی کارکردگی سے حاصل ’خوش خبری‘ یہ ہے کہ ’’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں شام کے اوقات میں ’سرجیکل اور گائنی سمیت 9 شعبوں‘ میں ’اُو پی ڈی‘ کا آغاز 26اکتوبر کی ’اَبرآلود صبح‘ کر دیا گیا ہے‘‘ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اِس سرکاری ہسپتال میں ’’تیسری مرتبہ‘‘ ہونے والا یہ تجریہ کس حد تک کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اِسی قسم کی کوششیں اس لئے ناکام ہوئیں کیونکہ ڈاکٹر شام کے اوقات میں اپنے نجی کلینک چلاتے ہیں اور اُن کی ترجیح ’ذاتی کاروبار‘ رہے جو محض مریضوں کے معائنے کی حد تک محدود نہیں بلکہ ان کے ساتھ تجزیہ گاہوں اور ادویات فروشی کے کاروبار بھی جڑے ہوئے ہیں‘ جن کا حجم کروڑوں روپے ماہانہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجیکی معیاری و ہمہ وقت سہولیات کی فراہمی محض نیک نیتی یا خواہشات کے ذریعے ممکن نہیں۔ مریضوں سے پہلے ڈاکٹروں کی اُس اکثریت کا علاج ضروری ہے‘ جو ذاتی مفادات کے سامنے قواعد و ضوابط حتیٰ کہ انسانی جان کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتے۔ مادی دنیا کی ضروریات اپنی جگہ لیکن مسیحاؤں کو ضمیر کی عدالت میں اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں انواع و اقسام نے امراض نے مستقل ڈیرے جما رکھے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مرض کی تشخیص اور علاج کے درمیان دانستہ طور پر اتنا طول رکھا گیا ہے کہ جب تک مریض کسی ڈاکٹر کے نجی کلینک سے رجوع نہ کرے‘ اُسے نہ تو تسلی ہوتی ہے اور نہ ہی شفایابی۔ خوداحتسابی سے کام لیتے ہوئے کم آمدنی والے طبقات کی مشکلات و پریشانیوں کے بارے میں صرف ڈاکٹروں ہی کو نہیں بلکہ صوبائی حکومت کو بھی دردمندی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا‘ تاکہ اُن سے وابستہ توقعات پوری ہو سکیں۔
![]() |
Tourism & Health,how badly both are ignored |
No comments:
Post a Comment