ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: معیار‘ کارکردگی اُور وحشت
تعلیم: معیار‘ کارکردگی اُور وحشت
خیبرپختونخوا میں ’فروغ تعلیم‘ کی کوششوں کے حجم اُور خوشنما اَلفاظ پر
مبنی حکمت عملیاں متقاضی ہیں کہ نہ صرف ’عمل درآمد‘ کی رفتار تیز کی جائے
بلکہ درس و تدریس کے شعبوں میں جہاں کہیں اصلاحات اور بالخصوص تکنیکی و
افرادی وسائل کی کمی ہے اُسے دور کیا جائے۔ زبانی کلامی باتوں سے وقت تو کٹ
سکتا ہے جو کٹ رہا ہے لیکن جس تبدیلی کی اُمید تھی‘ اُس سحر کے ظہور میں
ابھی کئی پہر باقی ہیں۔ ایک غیرسرکاری تنظیم (پاکستان کولیشن فار
اَیجوکیشن) نے خیبرپختونخوا کے پانچ اَضلاع (مردان‘ ملاکنڈ‘ نوشہرہ‘ صوابی
اُور سوات) کے سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات اور تدریسی عمل کا جائزہ
لیا تو حسب توقع صرف حیران کن ہی نہیں بلکہ تشویشناک اعدادوشمار سامنے آئے۔
مثال کے طور پر 10فیصد سکول ایسے پائے گئے جہاں پورے سکول میں صرف ایک
معلم تعینات تھا! اور ایسے سکولوں کی تعداد 30فیصد ہے جہاں پورے سکول کو
صرف 2 استاد پڑھا رہے ہیں!
محکمۂ ابتدائی و ثانوی تعلیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہفتہ وار اور دیگر ایام کی تعطیلات کے علاؤہ جس ایک چیز کی سب سے زیادہ پابندی کی گئی وہ تنخواہیں اور مراعات کی وصولی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے زیادہ مالی وسائل خرچ کرنے کے باوجود نہ تو تعلیم کا معیار بلند ہوسکا ہے اور نہ ہی کوئی ایک سرکاری تعلیمی ادارہ ایسی مثالی حالت میں پیش کیا جاسکتا ہے‘ جہاں کوئی نہ کوئی کمی یا خامی موجود نہ ہو! ساکھ کے لحاظ سے کم ترین تعلیمی اداروں کے انتظامات کرنے والے بڑے بڑے نام ہیں‘ جو اپنی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے۔ سرکاری اداروں کے مرکزی دفتر (سول سیکرٹریٹ) کا دورہ کریں‘ در و دیوار سے غرور و تکبر اور رعونت چھلکتی دکھائی دے گی لیکن اگر عالیشان دفاتر اور شاہانہ اخراجات کرنے والوں کی کارکردگی بصورت حاصل شدہ نتائج دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ سڑکیں ہیں تو وہ بارش کے ساتھ بہہ جاتی ہیں۔ نکاسی آب کے نالے نالیاں ہیں تو وہ اُبل رہی ہیں۔ سکول ہیں تو اُن سے نتائج کے علاؤہ ہر قسم کے کام لئے جا سکتے ہیں۔ کھیل کی سہولیات ہیں تو اُن پر مسلط گروہ سالہا سال سے مسلط ہیں۔ اگر ہم کسی ایک جملے میں حکومتی اداروں کی کارکردگی بشمول عہد بہ عہد حکومتوں کا احاطہ کریں تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم نے کوئی بھی کام سنجیدگی سے نہیں کیا۔ سیاسی اتحادوں سے لیکر وزارتیں اور محکمے تک اِسی ’سنجیدگی کے فقدان‘ کا مظہر ہیں۔
بات صرف سکولوں میں اساتذہ کی کمی سے متعلق نہیں بلکہ کئی ایسے سرکاری محکمے بھی ہیں جن کے لئے موجودہ حکومت نے سیکرٹریز ہی تعینات نہیں کئے اور دیگر محکموں کے منظورنظر سیکرٹریوں کو اضافی ذمہ داری سونپی گئیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تنخواہ میں دو یا دو سے زیادہ ملازمتیں کون کرے گا جبکہ ہمارا حب الوطنی کا معیار ملی نغمے سننے اور قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونے تک محدود ہو۔ بڑے عہدوں پر مسلط افراد کے لئے تنخواہ کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ اختیارت کے متمنی ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ فیصلہ سازی کے منصب میں اُن کا کردار کسں طرح ’مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‘ زیادہ سے زیادہ اختیارات کے ساتھ مراعات کی لالچ نے جو گل کھلائے ہیں اُس سے پورا صوبہ گل و گلزار دکھائی دیتا ہے۔ سرکاری وسائل کا اسراف اِنسانیت کی تذلیل سے بھی کئی ہاتھ آگے کی بات ہو چکی ہے۔ صحت و تعلیم کے شعبے خواص و عوام کے لئے الگ الگ ہیں۔ قوانین اُور قواعد عام آدمی (ہم عوام) کے لئے تشکیل اور لاگو کئے جاتے ہیں‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو مصروف دفتری اُوقات میں سڑکیں بند نہ کی جاتیں۔ احتجاج کرنے والوں کے خلاف سیکورٹی ادارے لاٹھی چارج نہ کرتے۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں پانے والے پولیس اہلکاروں کے دستے اہم شخصیات کے آگے پیچھے حصار کئے سڑک پر چلنے تک کے حق کو بندوق کی نوک نہ چھینتے!
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس تھانہ کچہری کے طورطریقوں (کلچر) کی اصلاح کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہاں کے حالات اُس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتے جب تک 1: سالہا سال سے ایک ہی عہدے پر تعینات پٹوار خانے اور تھانہ جات کے ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات اکٹھا نہیں کی جاتیں۔ 2: اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے آج بھی ’لینڈریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر صوبائی حکومت تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتی ہے تو لینڈریکارڈ (اراضی کے محل وقوع اور متعلقہ تفصیلات) کی کمپیوٹرائزیشن اُور ریکارڈز (کوائف) ڈیجیٹائزیشن (ڈیٹابیس) مرتب کرنے میں مزید وقت ضائع نہ کرے کیونکہ اُس وقت نہ تو اراضی کے نئے اور زیرسماعت (دیوانی) مقدمات ختم ہوں گے اور نہ روزمرہ کی بنیادوں پر اٹھنے والے ایسے تنازعات کو روکنا ممکن ہوسکتا ہے‘ جن کا انجام خونیں تصادم کی صورت ہوتا ہے! بہرکیف یہ ایک ضمنی بات ہے زیرتوجہ موضوع تو پانچ اضلاع (مردان‘ ملاکنڈ‘ نوشہرہ‘ صوابی اُور سوات) کے اُن 100 سکولوں سے متعلق ہے جہاں کے اساتذہ کی اکثریت درس و تدریس کا بس اتنا ہی رجحان (میلان) رکھتی ہے کہ یہ ایک ’سیاسی باعزت و منافع بخش ملازمتی و نادر موقع‘ ہے! چونکہ اساتذہ کی تعیناتیاں عام انتخابات میں بطور نگران عملہ کی جاتیں ہیں اس لئے سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خزانہ (پہلی ترجیح) تعلیم (دوسری ترجیح) اور بلدیات کی وزارت (تیسری ترجیح) کے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو کسی مستقبل کے کارآمد استعمال کے لئے کھپایا جاسکے! اس اندھا دھند طرزعمل میں سرکاری سرپرستی میں ’معیاری تعلیم وتربیت‘ کم ترین ترجیح رہی ہے۔ جن اضلاع میں سروے کی بات کی گئی وہاں تعینات 1943 اساتذہ میں 24فیصد بی اے‘ 39فیصد ایم اے‘ 22 فیصد ایف اے پاس اور 14فیصد ایسے بھی برآمد ہوئے جنہوں نے صرف میٹرک یعنی 10جماعتیں ہی پڑھ رکھی ہیں! تصور کیجئے کہ ماضی کے حکمرانوں جن میں چند آج بھی کلیدی عہدوں پر فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں محکمۂ تعلیم کا بیڑا غرق کرنے میں کتنی دلجمعی اور خلوص نیت سے عہد بہ عہد اپنا حصہ شامل کیا۔ یہ باور کرنا قطعی غیرمنطقی نہیں کہ ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ ’جمہوریت کے نام لیوا‘ ہمارے سیاستدان ہی کافی ہیں‘ جن کی ذاتی‘ سیاسی و انتخابی ترجیحات کی وجہ سے سرکاری اداروں کے انتظامی معاملات تہس نہس بلکہ نہس تہس ہو چکے ہیں!
محکمۂ ابتدائی و ثانوی تعلیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہفتہ وار اور دیگر ایام کی تعطیلات کے علاؤہ جس ایک چیز کی سب سے زیادہ پابندی کی گئی وہ تنخواہیں اور مراعات کی وصولی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے زیادہ مالی وسائل خرچ کرنے کے باوجود نہ تو تعلیم کا معیار بلند ہوسکا ہے اور نہ ہی کوئی ایک سرکاری تعلیمی ادارہ ایسی مثالی حالت میں پیش کیا جاسکتا ہے‘ جہاں کوئی نہ کوئی کمی یا خامی موجود نہ ہو! ساکھ کے لحاظ سے کم ترین تعلیمی اداروں کے انتظامات کرنے والے بڑے بڑے نام ہیں‘ جو اپنی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے۔ سرکاری اداروں کے مرکزی دفتر (سول سیکرٹریٹ) کا دورہ کریں‘ در و دیوار سے غرور و تکبر اور رعونت چھلکتی دکھائی دے گی لیکن اگر عالیشان دفاتر اور شاہانہ اخراجات کرنے والوں کی کارکردگی بصورت حاصل شدہ نتائج دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ سڑکیں ہیں تو وہ بارش کے ساتھ بہہ جاتی ہیں۔ نکاسی آب کے نالے نالیاں ہیں تو وہ اُبل رہی ہیں۔ سکول ہیں تو اُن سے نتائج کے علاؤہ ہر قسم کے کام لئے جا سکتے ہیں۔ کھیل کی سہولیات ہیں تو اُن پر مسلط گروہ سالہا سال سے مسلط ہیں۔ اگر ہم کسی ایک جملے میں حکومتی اداروں کی کارکردگی بشمول عہد بہ عہد حکومتوں کا احاطہ کریں تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم نے کوئی بھی کام سنجیدگی سے نہیں کیا۔ سیاسی اتحادوں سے لیکر وزارتیں اور محکمے تک اِسی ’سنجیدگی کے فقدان‘ کا مظہر ہیں۔
بات صرف سکولوں میں اساتذہ کی کمی سے متعلق نہیں بلکہ کئی ایسے سرکاری محکمے بھی ہیں جن کے لئے موجودہ حکومت نے سیکرٹریز ہی تعینات نہیں کئے اور دیگر محکموں کے منظورنظر سیکرٹریوں کو اضافی ذمہ داری سونپی گئیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تنخواہ میں دو یا دو سے زیادہ ملازمتیں کون کرے گا جبکہ ہمارا حب الوطنی کا معیار ملی نغمے سننے اور قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونے تک محدود ہو۔ بڑے عہدوں پر مسلط افراد کے لئے تنخواہ کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ اختیارت کے متمنی ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ فیصلہ سازی کے منصب میں اُن کا کردار کسں طرح ’مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‘ زیادہ سے زیادہ اختیارات کے ساتھ مراعات کی لالچ نے جو گل کھلائے ہیں اُس سے پورا صوبہ گل و گلزار دکھائی دیتا ہے۔ سرکاری وسائل کا اسراف اِنسانیت کی تذلیل سے بھی کئی ہاتھ آگے کی بات ہو چکی ہے۔ صحت و تعلیم کے شعبے خواص و عوام کے لئے الگ الگ ہیں۔ قوانین اُور قواعد عام آدمی (ہم عوام) کے لئے تشکیل اور لاگو کئے جاتے ہیں‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو مصروف دفتری اُوقات میں سڑکیں بند نہ کی جاتیں۔ احتجاج کرنے والوں کے خلاف سیکورٹی ادارے لاٹھی چارج نہ کرتے۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں پانے والے پولیس اہلکاروں کے دستے اہم شخصیات کے آگے پیچھے حصار کئے سڑک پر چلنے تک کے حق کو بندوق کی نوک نہ چھینتے!
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس تھانہ کچہری کے طورطریقوں (کلچر) کی اصلاح کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہاں کے حالات اُس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتے جب تک 1: سالہا سال سے ایک ہی عہدے پر تعینات پٹوار خانے اور تھانہ جات کے ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات اکٹھا نہیں کی جاتیں۔ 2: اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے آج بھی ’لینڈریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر صوبائی حکومت تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتی ہے تو لینڈریکارڈ (اراضی کے محل وقوع اور متعلقہ تفصیلات) کی کمپیوٹرائزیشن اُور ریکارڈز (کوائف) ڈیجیٹائزیشن (ڈیٹابیس) مرتب کرنے میں مزید وقت ضائع نہ کرے کیونکہ اُس وقت نہ تو اراضی کے نئے اور زیرسماعت (دیوانی) مقدمات ختم ہوں گے اور نہ روزمرہ کی بنیادوں پر اٹھنے والے ایسے تنازعات کو روکنا ممکن ہوسکتا ہے‘ جن کا انجام خونیں تصادم کی صورت ہوتا ہے! بہرکیف یہ ایک ضمنی بات ہے زیرتوجہ موضوع تو پانچ اضلاع (مردان‘ ملاکنڈ‘ نوشہرہ‘ صوابی اُور سوات) کے اُن 100 سکولوں سے متعلق ہے جہاں کے اساتذہ کی اکثریت درس و تدریس کا بس اتنا ہی رجحان (میلان) رکھتی ہے کہ یہ ایک ’سیاسی باعزت و منافع بخش ملازمتی و نادر موقع‘ ہے! چونکہ اساتذہ کی تعیناتیاں عام انتخابات میں بطور نگران عملہ کی جاتیں ہیں اس لئے سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خزانہ (پہلی ترجیح) تعلیم (دوسری ترجیح) اور بلدیات کی وزارت (تیسری ترجیح) کے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو کسی مستقبل کے کارآمد استعمال کے لئے کھپایا جاسکے! اس اندھا دھند طرزعمل میں سرکاری سرپرستی میں ’معیاری تعلیم وتربیت‘ کم ترین ترجیح رہی ہے۔ جن اضلاع میں سروے کی بات کی گئی وہاں تعینات 1943 اساتذہ میں 24فیصد بی اے‘ 39فیصد ایم اے‘ 22 فیصد ایف اے پاس اور 14فیصد ایسے بھی برآمد ہوئے جنہوں نے صرف میٹرک یعنی 10جماعتیں ہی پڑھ رکھی ہیں! تصور کیجئے کہ ماضی کے حکمرانوں جن میں چند آج بھی کلیدی عہدوں پر فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں محکمۂ تعلیم کا بیڑا غرق کرنے میں کتنی دلجمعی اور خلوص نیت سے عہد بہ عہد اپنا حصہ شامل کیا۔ یہ باور کرنا قطعی غیرمنطقی نہیں کہ ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ ’جمہوریت کے نام لیوا‘ ہمارے سیاستدان ہی کافی ہیں‘ جن کی ذاتی‘ سیاسی و انتخابی ترجیحات کی وجہ سے سرکاری اداروں کے انتظامی معاملات تہس نہس بلکہ نہس تہس ہو چکے ہیں!
No comments:
Post a Comment