ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قوئ شواہد: کمزور حافظے!
قوئ شواہد: کمزور حافظے!
خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی پولیس نے ایک صحافی کی شکایت پر پچاس سالہ
ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس میں ’تین دفعات‘ کے تحت علاج کے لئے آنے
والی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ اس مقدمے کے
شواہد متاثرہ خواتین کے بیانات نہیں بلکہ پچیس سے زائد ایسے مختلف دورانیئے
کے ویڈیو کلپس (عکسی دستاویزات) ہیں‘ جن میں مریض خواتین بالخصوص کم عمر
لڑکیوں کو معائنہ کرنے کے بہانے جنسی طور پر حراساں کیا جاتا رہا۔ ’کنگ
عبداللہ ہسپتال‘ نامی اِدارے میں یہ سلسلہ کب سے جاری تھا اور کیا اِس میں
صرف ایک ہی ڈاکٹر ملوث رہے‘ کہ جس کے کرتوتوں کا پردہ ہسپتال انتظامیہ کی
جانب نصب سیکورٹی کیمروں کی مدد سے نہیں بلکہ کسی ایسے نامعلوم شخص کی
کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘ جس نے مریض کے معائنہ کرنے والے کمرے میں وہ کیمرہ
نصب کیا اور بعدازاں دو درجن سے زائد عکسی شواہد (ویڈیوز) سہیل نامی صحافی
کو فراہم کر دیئے لیکن کیا یہ عکسی شواہد ڈاکٹر شعیب کے جرم کو ثابت کرنے
کے لئے کافی ثابت ہوں گی؟ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ خفیہ کیمرے کی
ریکارڈنگ عدالت میں قابل بھروسہ شہادت نہیں اور جب تک متاثرہ خواتین میں سے
کوئی بیان دینے سامنے نہیں آتا‘ اُس وقت تک ’میڈیکل آفیسر ڈاکٹر شعیب‘ پر
لگایا گیا الزام ثابت نہیں کیا جاسکے گا اُور ہمارے معاشرے میں اِس بات کا
امکان کم تو کیا‘ سرے سے موجود ہی نہیں کہ خواتین پولیس تھانوں میں اپنے
ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی رپورٹ درج کرانے جائیں۔ اگر ہمارے ہاں خواتین
کے منہ میں زبان ہوتی تو نوبت اِس انتہاء تک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی کہ ایک
معروف و معتبر علاج گاہ میں اِس قسم کے واقعات پیش آتے۔ قانونی ماہرین کے
مطابق اگرچہ پولیس ڈاکٹر شعیب کو گرفتار نہیں کرسکی لیکن وہ باآسانی ضمانت
بھی کروا سکتا ہے اور بعدازاں ’باعزت بری‘ بھی ہو جائے گا یا زیادہ سے
زیادہ اُسے چند ماہ کی قید ہو گی کیونکہ عکسی دستاویزات جیسے قوئ شواہد کے
بارے میں عدالتی نکتۂ نظر اور قومی حافظہ کمزور ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ
ہے کہ فوری طورپر ڈاکٹر شعیب کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل
کیا جاتا۔ اُن کی میڈیکل اسناد سمیت دیگر تمام تعلیمی دستاویزات‘ بینک
اکاونٹس‘ موبائل نمبر‘ اُن کے نام پر لگے ہوئے بجلی گیس فون کے کنکشنز‘
کمپیوٹررائزڈ قومی شناختی کارڈ و پاسپورٹ معطل کر دیئے جاتے لیکن ملزم کو
جس قدر مہلت دی گئی ہے‘ اُس سے امکان ختم ہو رہا ہے کہ وہ کیفرکردار کو
پہنچے گا۔ ہمارے ہاں قوانین میں سقم (بہت سی خامیاں) موجود ہیں۔ جرم کا
ارتکاب کرنے والا ڈاکٹر کسی وکیل کو لاکھوں روپے فیس ادا کرکے ’ہتک عزت‘ کے
ایسے کیس بھی دائر سکتا ہے‘ جس سے اِس ملزم کی بجائے رپورٹ کرنے والا
صحافی گرفت میں آ جائے گا اور بالآخر حق کی آواز بننے والا مجبوراً ڈاکٹر
سے صلح کر لے گا اور پولیس درج شکایت سردخانے کی نذر کر دے گی! المیہ ہے کہ
ہمارے ہاں کمزور طبقات (خواتین‘ بچوں‘ بزرگوں‘ ذہنی و جسمانی معذور افراد
اور کم مالی وسائل رکھنے والوں) کے ساتھ زیادتیاں معمول کی بات ہیں‘ ذرائع
ابلاغ اصلاح کی بجائے ایسے واقعات کا تماشہ بناتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو
ہمارے رویئے تبدیل ہوتے۔ مثال کے طورپر ایسی کئی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جب
خود قانون نافذ کرنے والے ادارے کے باوردی اہلکاروں نے ملزموں کی اندھا
دھند مارپیٹ کرکے اُن کی چمڑیاں ادھیر ڈالیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا ایک رخ
یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ایک طبقہ یا گروہ حالات سے مجبور ہو کر سڑکوں پر
نکلتا ہے تو اُس کی تواضع لاٹھی چارج اور آنسوگیس سے کی جاتی ہے۔ کیا عوام
کی نمائندگی پر فخر کرنے والے قانون ساز ایوانوں کے باہر احتجاج کرنے والوں
پر‘ تشدد نہیں ہوتا؟ جب تک قوم کا حافظہ کمزور رہے گا‘ قوئ سے قوئ شواہد
بھی ’’ناکافی‘‘ ثابت ہوتے رہیں گے!
مانسہرہ کے ایک مسیحا (ڈاکٹر) نے صرف اپنے مقدس پیشے ہی سے بددیانتی نہیں کی بلکہ اُس نے اپنے خون کی شرافت اور گھریلو تربیت کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے۔ مریض خواتین کے ساتھ شرمناک حرکتیں کرنے کا ارتکاب کرنے والا کیا یہ پہلا اور آخری کردار ہے؟ جس معاشرے کا فخر‘ انتہائی تعلیم یافتہ‘ عملی زندگی کے کامیاب ترین افراد اِس قسم کی حرکتوں میں ملوث ہوں وہاں کے اخلاقی معیار کی بلندی و پستی کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں! اگر تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیمات‘ اخلاقی تربیت اُور اقدار شامل نصاب ہوتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ماں کی گود سے پہلا قدم اُٹھانے والے معصوم اشرف المخلوقات عملی زندگی میں ایسا روپ اختیار کرلیتے جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا۔
خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن‘ ایک دورافتادہ شمالی حصے میں پیش آنے والے واقعات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ جملہ سرکاری و نجی ہسپتالوں سیکورٹی کیمروں کی طرح مریضوں کی معائنہ جگہوں‘ ڈاکٹرز رومز اور رہداریوں میں کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے (سی سی ٹی ویز) نصب کرے کیونکہ خطرہ صرف مریضوں یا اُن کے ساتھ آنے والی تیماردار خواتین کو نہیں بلکہ اُن لیڈی ڈاکٹرز‘ اور معاون طبی عملے میں شامل خواتین کو بھی لاحق ہے‘ جنہیں جنسی طور پر حراساں کرنے والے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ خواتین ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے لئے صرف طالبات کے لئے مخصوص طب کے تعلیمی ادارے بنائے جائیں کیونکہ اگر ایسے مخصوص تعلیمی ادارے تجارتی بنیادوں پر نجی شعبے میں قائم ہو سکتے ہیں تو سرکاری سطح پر کیوں نہیں؟ چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایوب میڈیکل کالج (ایبٹ آباد) کے ہاسٹل میں مقیم ایک خوش شکل طالبہ سے جب اُس کی ساتھیوں نے زار و قطار رونے کا سبب پوچھا تو اُس نے ایک معلم کا نام لیا‘ جو اُسے چھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور تنہائی میں ملاقات کا تقاضا کر رہا ہے۔ کسی شریف زادی کے لئے یہ صورتحال کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہے جبکہ اُس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ اگر وہ اپنے اہل خانہ کو بتائے تو سب سے پہلے تو اُس کی تعلیم کا سلسلہ روک دیا جائے گا اور اگر کالج انتظامیہ تک بات پہنچائے تو وہ کچھ بھی ثابت نہیں کرسکے گی‘ جس سے بدنامی کا اندیشہ اور اُس کے ڈاکٹر بننے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت بھی ہے خواتین کی بات کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ پشاور یونیورسٹی اور دیگر کئی سرکاری و نجی اداروں میں ایسی محکمانہ تحقیقات سارا سال ہی ہوتی رہتی ہیں جس میں ’مرد کا جرم ثابت نہیں ہوتا!‘ اُور ملزم مزید سینہ تان کر جبکہ شکایت کرنے والی خاتون کا سر مزید جھک جاتا ہے!
’مانسہرہ ڈاکٹر سکینڈل‘ صرف قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ضلعی حکومتوں اور بالخصوص محکمۂ صحت (خیبرپختونخوا) کے لئے بھی ’ٹیسٹ کیس‘ ہونا چاہئے‘ جنہیں علاج معالجے کی معیاری سہولیات کے ساتھ مستورات کے تقدس و حرمت کو ہرممکن ممکن بنانا ہے۔ یاد رکھیں کہ کسی قاعدے قانون کو توڑنا یا جرم کا ارتکاب کسی فرد کا انفرادی فعل نہیں ہوتا بلکہ اُس کے پیچھے چھوٹے بڑے گروہ کارفرما ہوتے ہیں جو قواعد و ضوابط اور قوانین میں موجود خامیوں (رعائتوں‘ اختیارات)کا فائدہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ وزیر صحت شہرام تراکئی نے ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعیم کو بھی برطرف کر دیا ہے جبکہ ڈپٹی میڈیکل سپرٹینڈنٹ کے مطابق ڈاکٹر شعیب کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کی نگرانی اعلیٰ سطحی اہلکار ڈائریکٹر ہیلتھ اور سیکرٹری ہیلتھ کریں گے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر مذکورہ ہسپتال کے تمام دفاتر میں لگے ہوئے پردے ہٹا دیئے گئے ہیں اور اس بات کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے کہ اگر کسی خاتون مریض کا معائنہ مرد ڈاکٹر کرے تو اُس خاتون کے ساتھ آنے والا مرد یا عورت معائنے کے اختتام تک اُس کے ساتھ موجود رہنی چاہئے اور اگر کوئی خاتون اکیلی معائنہ کے لئے آئے تو ہسپتال کے معاون طبی عملے کا کوئی ایک اہلکار کمرے میں موجود رہے گا! محکمۂ صحت کی جانب سے یہ ہدایات صرف ایک ہسپتال کے لئے جاری کی گئیں ہیں‘ ضرورت اِس امر کی ہے کہ صوبے کے دیگر چھوٹی بڑی علاج گاہوں میں بھی اسی قسم کے اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو جنسی ہراساں کرنے کی شکایات درج کرانے کے لئے ٹیلی فون‘ ایس ایم ایس اُور اِی میل کا طریقۂ کار متعارف کرانا چاہئے‘ کیونکہ بات صرف کسی ایک ہسپتال یا شعبے تک محدود نہیں۔ حقیقت کا اِنکار‘ وقتی اِقدامات اُور محکمانہ تحقیقات ایسی تلخیوں اور امراض کا علاج نہیں ہو سکتے‘ جو سرطان سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔
مانسہرہ کے ایک مسیحا (ڈاکٹر) نے صرف اپنے مقدس پیشے ہی سے بددیانتی نہیں کی بلکہ اُس نے اپنے خون کی شرافت اور گھریلو تربیت کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے۔ مریض خواتین کے ساتھ شرمناک حرکتیں کرنے کا ارتکاب کرنے والا کیا یہ پہلا اور آخری کردار ہے؟ جس معاشرے کا فخر‘ انتہائی تعلیم یافتہ‘ عملی زندگی کے کامیاب ترین افراد اِس قسم کی حرکتوں میں ملوث ہوں وہاں کے اخلاقی معیار کی بلندی و پستی کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں! اگر تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیمات‘ اخلاقی تربیت اُور اقدار شامل نصاب ہوتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ماں کی گود سے پہلا قدم اُٹھانے والے معصوم اشرف المخلوقات عملی زندگی میں ایسا روپ اختیار کرلیتے جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا۔
خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن‘ ایک دورافتادہ شمالی حصے میں پیش آنے والے واقعات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ جملہ سرکاری و نجی ہسپتالوں سیکورٹی کیمروں کی طرح مریضوں کی معائنہ جگہوں‘ ڈاکٹرز رومز اور رہداریوں میں کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے (سی سی ٹی ویز) نصب کرے کیونکہ خطرہ صرف مریضوں یا اُن کے ساتھ آنے والی تیماردار خواتین کو نہیں بلکہ اُن لیڈی ڈاکٹرز‘ اور معاون طبی عملے میں شامل خواتین کو بھی لاحق ہے‘ جنہیں جنسی طور پر حراساں کرنے والے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ خواتین ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے لئے صرف طالبات کے لئے مخصوص طب کے تعلیمی ادارے بنائے جائیں کیونکہ اگر ایسے مخصوص تعلیمی ادارے تجارتی بنیادوں پر نجی شعبے میں قائم ہو سکتے ہیں تو سرکاری سطح پر کیوں نہیں؟ چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایوب میڈیکل کالج (ایبٹ آباد) کے ہاسٹل میں مقیم ایک خوش شکل طالبہ سے جب اُس کی ساتھیوں نے زار و قطار رونے کا سبب پوچھا تو اُس نے ایک معلم کا نام لیا‘ جو اُسے چھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور تنہائی میں ملاقات کا تقاضا کر رہا ہے۔ کسی شریف زادی کے لئے یہ صورتحال کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہے جبکہ اُس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ اگر وہ اپنے اہل خانہ کو بتائے تو سب سے پہلے تو اُس کی تعلیم کا سلسلہ روک دیا جائے گا اور اگر کالج انتظامیہ تک بات پہنچائے تو وہ کچھ بھی ثابت نہیں کرسکے گی‘ جس سے بدنامی کا اندیشہ اور اُس کے ڈاکٹر بننے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت بھی ہے خواتین کی بات کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ پشاور یونیورسٹی اور دیگر کئی سرکاری و نجی اداروں میں ایسی محکمانہ تحقیقات سارا سال ہی ہوتی رہتی ہیں جس میں ’مرد کا جرم ثابت نہیں ہوتا!‘ اُور ملزم مزید سینہ تان کر جبکہ شکایت کرنے والی خاتون کا سر مزید جھک جاتا ہے!
’مانسہرہ ڈاکٹر سکینڈل‘ صرف قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ضلعی حکومتوں اور بالخصوص محکمۂ صحت (خیبرپختونخوا) کے لئے بھی ’ٹیسٹ کیس‘ ہونا چاہئے‘ جنہیں علاج معالجے کی معیاری سہولیات کے ساتھ مستورات کے تقدس و حرمت کو ہرممکن ممکن بنانا ہے۔ یاد رکھیں کہ کسی قاعدے قانون کو توڑنا یا جرم کا ارتکاب کسی فرد کا انفرادی فعل نہیں ہوتا بلکہ اُس کے پیچھے چھوٹے بڑے گروہ کارفرما ہوتے ہیں جو قواعد و ضوابط اور قوانین میں موجود خامیوں (رعائتوں‘ اختیارات)کا فائدہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ وزیر صحت شہرام تراکئی نے ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعیم کو بھی برطرف کر دیا ہے جبکہ ڈپٹی میڈیکل سپرٹینڈنٹ کے مطابق ڈاکٹر شعیب کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کی نگرانی اعلیٰ سطحی اہلکار ڈائریکٹر ہیلتھ اور سیکرٹری ہیلتھ کریں گے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر مذکورہ ہسپتال کے تمام دفاتر میں لگے ہوئے پردے ہٹا دیئے گئے ہیں اور اس بات کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے کہ اگر کسی خاتون مریض کا معائنہ مرد ڈاکٹر کرے تو اُس خاتون کے ساتھ آنے والا مرد یا عورت معائنے کے اختتام تک اُس کے ساتھ موجود رہنی چاہئے اور اگر کوئی خاتون اکیلی معائنہ کے لئے آئے تو ہسپتال کے معاون طبی عملے کا کوئی ایک اہلکار کمرے میں موجود رہے گا! محکمۂ صحت کی جانب سے یہ ہدایات صرف ایک ہسپتال کے لئے جاری کی گئیں ہیں‘ ضرورت اِس امر کی ہے کہ صوبے کے دیگر چھوٹی بڑی علاج گاہوں میں بھی اسی قسم کے اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو جنسی ہراساں کرنے کی شکایات درج کرانے کے لئے ٹیلی فون‘ ایس ایم ایس اُور اِی میل کا طریقۂ کار متعارف کرانا چاہئے‘ کیونکہ بات صرف کسی ایک ہسپتال یا شعبے تک محدود نہیں۔ حقیقت کا اِنکار‘ وقتی اِقدامات اُور محکمانہ تحقیقات ایسی تلخیوں اور امراض کا علاج نہیں ہو سکتے‘ جو سرطان سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment