Wednesday, October 7, 2015

Oct2015: Sustainable legislation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پائیدار قانون سازی
احساس‘ توجہ اور پیار بھرے تعلق کے بناء نہ تو رشتے پروان چڑھتے ہیں اور نہ ہی انسانی معاشرہ ارتقاء‘ توانائی اور استحکام پاتا ہے۔ سماجی ترقی و خوشحالی کا تعلق بھی اُس سیاسی سکون سے ہوتا ہے‘ جس میں ادارے پریشانیوں میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ آسانیاں بانٹتے ہیں۔ آسانیاں عام کرنے کی عمل سے ترغیب دیتے ہیں۔ اجتماعی عبادات کا فلسفۂ بھی یہی ہے کہ کندھے سے کندھا ملا کر ’صف بندی‘ کرنے والے ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور ضروریات کا احساس کرتے ہوئے اتنے ’تعلق دار‘ بن جائیں کہ ’اجنبیت‘ باجود کوشش بھی اُن کے درمیان حائل نہ ہوسکے۔
آشنامسائل کے ناآشناحل عملاً ممکن نہیں ہوسکتے۔سماجی ذمہ داریوں سے متعلق شعور اُجاگر کئے بناء بذریعہ قانون سختی (سزائیں اُور جرمانہ) کرنے سے اَندیشہ ہے کہ صرف وہی لوگ گرفت میں آئیں گے جو ناخواندگی کے سبب نہ تو ذرائع ابلاغ سے معلومات حاصل کرتے ہیں اُور نہ محنت مشقت میں شبانہ روز مصروفیات کی وجہ سے اُنہیں اِس قدر فرصت ہی ملتی ہے کہ وہ نئی قانون سازی یا قواعد و ضوابط میں ہوئی تبدیلی سے خود کو باخبر رکھ سکیں۔ کیا کسی عام آدمی کے لئے ’قانون ساز ایوان‘ کی بلندوبالا چاردیواری کے اندر جھانکھنا تک ممکن ہے؟ اگر قانون سازوں نے خود کو اتنا الگ اور بلندوبالا سمجھ لیا ہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر برسرزمین حقائق کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔ اگر عام آدمی (ہم عوام) کی معاشی مشکلات اور مہنگائی جیسے عوامل سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا احساس نہیں کیا جائے گا تو بذریعۂ طاقت حکمرانی ’ظلم‘ کہلائے گی‘ جس سے متعلق سبھی جانتے ہیں کہ حکومت کفر سے قائم رہ سکتی ہے‘ لیکن ظلم سے نہیں!پارلیمانی سیاسی تاریخ کے ماضی پر نظر کیجئے ایک سے بڑھ کر ایک قانون سازی کی گئی‘ لیکن قوانین پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ قوانین کے بارے میں عام آدمی کو علم بھی نہیں کہ اُن کی ساخت کتنی پُرپیچ بنائی گئی ہے اور کئی ایسے سقم رکھے گئے ہیں‘ جن کی وجہ سے بذریعہ عدالت ’انصاف تک رسائی‘ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔
پانچ اکتوبر کے روز خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان میں ایک ایسی آئینی ترمیم پیش اور متفقہ طور پر منظور کر لی گئی جس کی رو سے ’نہروں اُور نکاسئ آب‘ کے موجودہ قانون کو زیادہ سخت بنا دیا گیا ہے‘ اُور اگر نالے نالیوں یا نہر میں پلاسٹک کی بنی ہوئی اشیاء بشمول ایک عدد شاپنگ بیگ بھی پھینکا جاتا ہے تو یہ ایک ایسا جرم ہوگا جس پر 50 ہزار سے 20 ہزار روپے تک جرمانہ اور ایک سال تک کی قید یا دونوں سزائیں بیک وقت ہو سکیں گی! کیا ترمیم سے قبل اُور موجودہ صورت میں اِس قانون پر عمل درآمد عملاً ممکن ہو پائے گا جبکہ ہم خیبرپختونخوا کے طول و عرض اور بالخصوص پشاور کے مضافاتی اُور اَندرون شہر کے علاقوں میں یہ مناظر عام دیکھتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) نالے نالیوں میں بہا دی جاتی ہے کیونکہ اِس کے متبادل کوئی دوسرا ذریعہ متعلقہ اداروں کی طرف سے فراہم ہی نہیں کیا گیا۔ سرکی گیٹ سے سٹی سرکلر روڈ کے ساتھ ہزار خوانی تک میلوں پر پھیلے ہوئے رہائشی و تجارتی علاقے کے لئے نکاسی آب کا واحد ذریعہ وہ ’نہر‘ ہے‘ جو آبپاشی کے مقاصد کے لئے بنائی گئی تھی اور ایک وقت تک پشاور کے رہنے والے پینے کا صاف پانی اِسی نہر سے حاصل کیا کرتے تھے لیکن آج وہی نہر ایک بہت بڑے ’گندے نالے‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں بیت الخلأ کی گندگی سے لیکر ہر قسم کی ٹھوس پھینک دی جاتی ہے۔ نہر کے پانی پر پلاسٹک کے شاپنگ بیگز‘ ٹیٹرا پیک اور خالی بوتلیں تیرتی دکھائی دیتی ہیں! سرعام ہونے والی اِس ’قانون شکنی‘ کے لئے اہل علاقہ کو کیونکر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ اُنہیں نکاسی آب یا گندگی ٹھکانے لگانے کے لئے کوئی متبادل ذریعہ فراہم نہیں کیا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد کیا پشاور کے اِس پورے علاقے کے رہنے والوں کو جرمانہ کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر قوانین اُور قانون سازی جیسے سنجیدہ عمل کو مذاق بنانے سے گریز کیا جائے۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین کا برسرزمین حالات سے موازنہ کرتے ہوئے جائزہ لیا جائے کہ کہاں قوانین کو اِس قدر حقیقی بنایا جائے کہ وہ اپنے وجود کا ثبوت خود دیں۔ قانون سازی سے پہلے ذرائع ابلاغ میں بحث مباحثہ‘ نماز جمعہ کے اجتماعات میں ان سے متعلق خطبات اور گلی محلوں کی سطح پر شعور اُجاگر کرنے کے لئے رابطۂ عوام مہمات کا اِنعقاد ضروری ہیں۔ یوں اگر کسی ایک قانون یا ترمیم کے بارے شعور عام کرنے میں چند برس لگ بھی جائیں لیکن نتیجہ بہت ہی پائیدار ہوگا‘ اِس کا اطلاق سہل ہوگا اُور وہ ایک ایسا مثالی قانون بن جائے گا جس کے نتائج بصورت ’اصلاح معاشرہ‘ دیگر صوبوں کے لئے فقیدالمثال ہوگی۔ کم سے کم وقت میں’تن آسانی‘ پر مبنی قانون سازی کرنے والوں کو کم اَز کم اس کے ممکنہ اطلاق کے بارے بھی سوچنا چاہئے کیونکہ محض قانون سازی اور ترامیم ہی اُن کی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں بلکہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ بھی تو کرنی ہے۔ جملہ اراکین صوبائی اسمبلی کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے ’عوام کے منتخب نمائندے‘ ہیں اور بعد میں کچھ اُور۔
Sustainable legislation and implementation must also needed to be consider

No comments:

Post a Comment