ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیکورٹی پلان: نیا باب!
سیکورٹی پلان: نیا باب!
محرم الحرام 1437ہجری کی مناسبت سے ’پشاور پولیس‘ نے ’حفاظتی حکمت عملی (سیکورٹی پلان)‘ کو حتمی شکل دے دی ہے اُور رواں برس حساس و نیم حساس عبادتگاہوں سمیت پہلے ’عشرۂ محرم سے آٹھ ربیع الاوّل تک (ایام عزأ) کے جلسے اجتماعات (جلسے جلوسوں) کی نگرانی کے لئے ’کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن‘ کیمروں کی تنصیب کے علاؤہ ’الیکٹرانک آلات‘ سے نگرانی کے لئے خصوصی ’کمانڈ اینڈ مانیٹرنگ سسٹم‘ بھی ’چوبیس گھنٹے‘ فعال رہیگا۔ یادش بخیر محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران‘ 27 جنوری 2007ء کے روز ’قصہ بازار‘ سے متصل ماتمی جلوس کے برآمد ہونے سے قبل خودکش حملے میں پشاور پولیس کے سربراہ ملک سعد اُور ڈی ایس پی (سٹی) خان رازق سمیت ایک درجن سے زائد افراد شہید ہوئے! ایک دن میں دو اہم فرض شناس اہلکاروں کی شہادت صرف محکمۂ پولیس ہی کے لئے بلکہ پشاور کے لئے صدمہ تھا‘ بالخصوص خان رازق شہید جیسا نظم و ضبط کا پابند‘ ملنسار اُور تنظیمی خداداد صلاحیتوں سے مالامال بیدار و مستعد فکروعمل والا اہلکار نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ ہی آج تک اُن کا ثانی مل پایا ہے۔ یہ وہی خان رازق تھے جنہوں نے اندرون کوہاٹی گیٹ 12جولائی 1992ء (یوم عاشور)کا فرقہ ورانہ سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اُور بعدازاں محرم سیکورٹی پلان کے نام سے حکمت عملی مرتب کی جبکہ اِس سے قبل مرکزی دفتر سے متعلقہ تھانہ جات کو صرف چند سطروں پر مشتمل ہدایات جاری کر دی جاتی تھیں۔ جس وقت پشاور کا سیکورٹی پلان مرتب کیا گیا‘ وہ نہایت ہی پرخطر دور تھا اُور کم و بیش ہر روز ہی دہشت گرد واقعات رونما ہوتے تھے۔ پشاور کے داخلی راستوں‘ بازاروں اور عبادتگاہوں کے آس پاس آمدورفت محدود کرنے کے باوجود بھی دہشت گرد اپنے اہداف کو چن چن کر نشانہ بنا رہے تھے۔ خان رازق نے تمام ماتمی جلوسوں کے راستوں‘ جلسہ گاہوں کے مقامات کی نشاندہی پر مبنی نقشے مرتب کئے۔ ہر جلسے جلوس اور نماز کی ادائیگی کو وقت کا پابند بنایا اُور کئی برس تک مشاہدے کے بعد ان میں شرکت کرنے والے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے بارے میں اعدادوشمار بھی سیکورٹی پلان میں شامل کردیئے جس سے پولیس (نفری) کی تعیناتی بہت ہی آسان ہوگئی۔ علاؤہ ازیں انہوں نے سفید کپڑوں میں پولیس اہلکار تعینات کئے اور مخصوص الفاظ (کوڈ ورڈ) کے ذریعے پولیس کی باہمی بات چیت و شناخت کی اصطلاحات مرتب کیں جو اُن کے اقوام متحدہ امن مشن میں تعینات رہنے کے دوران تجربات کا حاصل تھا۔ بہرکیف خان رازق کا مرتب کردہ سیکورٹی پلان آج بھی ’من و عن‘ زیراستعمال ہے اور اس کی پیشانی پر تاریخوں سمیت آخری صفحات پر رابطہ نمبروں میں تبدیلی کر دی جاتی ہے چونکہ آج کے سیکورٹی حالات (چیلنجز) ماضی سے بہت مختلف ہیں اور بقول انسپکٹرجنرل پولیس ناصر درانی دہشت گردی کے واقعات (امکانات) میں 56 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی آئی ہے اُور پشاور سے متصل قبائلی علاقوں تک آپریشن ضرب عضب کا دائرۂ کار بھی پھیلا دیا گیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں تو حالات میں آئی بہتری کی جھلک رواں برس محرم الحرام کے دوران عملاً نظر آنی چاہئے۔
کرفیو جیسے سخت انتظامات کی وجہ سے پشاور کے مرکزی علاقوں کو ایک دوسرے سے اس حد تک کاٹ دیا جاتا ہے کہ اندرون شہر کے مختلف حصوں میں دودھ اُور دیگر ضروریات کی اشیائے خوردونوش تک کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں سے وابستہ چھوٹے بڑے افراد بشمول مریضوں کو الگ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ہونے کے باوجود اندرون شہر کے رہنے والوں کو سات سے دس محرم الحرام کے ایام میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ پولیس ناکوں پر بحث و تکرار معمول ہوتا ہے‘ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حفاظتی ناکوں پر غیرمقامی پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے‘ جو مقامی افراد کے لب و لہجے‘ لباس اور معمولات سے واقفیت نہیں ہوتی۔ پشاور پولیس ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت طبی و میونسپل خدمات فراہم کرنے والوں کو ’سیکورٹی کارڈز (خصوصی اجازت نامے)‘ جاری کرتی ہے اگر اسی قسم کے اجازت نامے متعلقہ تھانہ جات سے نجی و کمرشل گاڑیوں‘ موٹرسائیکلوں اور آٹو رکشاؤں سمیت دیگر سفری وسائل استعمال کرنے والوں کو جاری کر دیئے جائیں تو ہر مکتبہ فکر ’سیکورٹی انتظامات‘ کا خیرمقدم کرے گا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اُور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے مستقل نگرانی اپنی جگہ اہم لیکن سفید کپڑوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور پشاور کے اندرونی حصوں میں خفیہ معلومات کی بناء پر ’سرچ آپریشنز‘ کئے جائیں کیونکہ صرف دہشت گرد ہی نہیں بلکہ اُن سے ہمدردی رکھنے والے سہولت کاروں اور کالعدم تنظیموں کی موجودگی پشاور کے لئے کسی ’ٹائم بم‘ سے کم نہیں۔
خیبرایجنسی میں ’فوجی کاروائی (ضرب عضب)‘ کا منطقی انجام ’پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کی خصوصی مہم تک وسیع ہونا چاہئے۔‘ رنگ روڈ کے مضافاتی علاقوں میں چند ایک کاروائیاں کی گئیں لیکن اندرون شہر کے علاقے تاحال کسی غفلت یا مصلحت کی وجہ سے خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اِداروں کو چاہئے کہ وہ پشاور کو اُس کا امن‘ اخوت اُور بھائی چارہ واپس دلانے کے لئے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اور عوام کے منتخب کردہ اَراکین صوبائی و قومی اسمبلیوں کو فعال کردار اَدا کرنے کی ترغیب دیں۔ سال 1992ء سے قبل کے پشاور کی یاد آ رہی ہے‘ جب محرم الحرام سمیت مذہبی مواقعوں پر نہ تو آمدورفت محدود کی جاتی تھی اور نہ ہی گلیاں کوچے اور بازار (تجارتی مراکز) بند کئے جاتے تھے۔ سیکورٹی فراہم کرتے ہوئے اُن یومیہ مزدوری کرنے والے محنت کشوں کا بھی احساس کرنا چاہئے جن کی بیروزگاری کا ایک دن اُن کے کنبے کے لئے فاقوں کا مؤجب بنتا ہے۔ ’سیکورٹی پلان‘ پر نظرثانی کرتے ہوئے امن وامان کی مستقل و پائیدار بحالی کے لئے ’نئے باب کا اِضافہ‘ بھی ہونا چاہئے جس کے لئے صرف ماہ محرم ہی نہیں بلکہ سال کے دیگر مہینوں کے دوران بھی غوروخوض ضروری ہے۔
کرفیو جیسے سخت انتظامات کی وجہ سے پشاور کے مرکزی علاقوں کو ایک دوسرے سے اس حد تک کاٹ دیا جاتا ہے کہ اندرون شہر کے مختلف حصوں میں دودھ اُور دیگر ضروریات کی اشیائے خوردونوش تک کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں سے وابستہ چھوٹے بڑے افراد بشمول مریضوں کو الگ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ہونے کے باوجود اندرون شہر کے رہنے والوں کو سات سے دس محرم الحرام کے ایام میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ پولیس ناکوں پر بحث و تکرار معمول ہوتا ہے‘ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حفاظتی ناکوں پر غیرمقامی پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے‘ جو مقامی افراد کے لب و لہجے‘ لباس اور معمولات سے واقفیت نہیں ہوتی۔ پشاور پولیس ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت طبی و میونسپل خدمات فراہم کرنے والوں کو ’سیکورٹی کارڈز (خصوصی اجازت نامے)‘ جاری کرتی ہے اگر اسی قسم کے اجازت نامے متعلقہ تھانہ جات سے نجی و کمرشل گاڑیوں‘ موٹرسائیکلوں اور آٹو رکشاؤں سمیت دیگر سفری وسائل استعمال کرنے والوں کو جاری کر دیئے جائیں تو ہر مکتبہ فکر ’سیکورٹی انتظامات‘ کا خیرمقدم کرے گا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اُور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے مستقل نگرانی اپنی جگہ اہم لیکن سفید کپڑوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور پشاور کے اندرونی حصوں میں خفیہ معلومات کی بناء پر ’سرچ آپریشنز‘ کئے جائیں کیونکہ صرف دہشت گرد ہی نہیں بلکہ اُن سے ہمدردی رکھنے والے سہولت کاروں اور کالعدم تنظیموں کی موجودگی پشاور کے لئے کسی ’ٹائم بم‘ سے کم نہیں۔
خیبرایجنسی میں ’فوجی کاروائی (ضرب عضب)‘ کا منطقی انجام ’پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کی خصوصی مہم تک وسیع ہونا چاہئے۔‘ رنگ روڈ کے مضافاتی علاقوں میں چند ایک کاروائیاں کی گئیں لیکن اندرون شہر کے علاقے تاحال کسی غفلت یا مصلحت کی وجہ سے خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اِداروں کو چاہئے کہ وہ پشاور کو اُس کا امن‘ اخوت اُور بھائی چارہ واپس دلانے کے لئے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اور عوام کے منتخب کردہ اَراکین صوبائی و قومی اسمبلیوں کو فعال کردار اَدا کرنے کی ترغیب دیں۔ سال 1992ء سے قبل کے پشاور کی یاد آ رہی ہے‘ جب محرم الحرام سمیت مذہبی مواقعوں پر نہ تو آمدورفت محدود کی جاتی تھی اور نہ ہی گلیاں کوچے اور بازار (تجارتی مراکز) بند کئے جاتے تھے۔ سیکورٹی فراہم کرتے ہوئے اُن یومیہ مزدوری کرنے والے محنت کشوں کا بھی احساس کرنا چاہئے جن کی بیروزگاری کا ایک دن اُن کے کنبے کے لئے فاقوں کا مؤجب بنتا ہے۔ ’سیکورٹی پلان‘ پر نظرثانی کرتے ہوئے امن وامان کی مستقل و پائیدار بحالی کے لئے ’نئے باب کا اِضافہ‘ بھی ہونا چاہئے جس کے لئے صرف ماہ محرم ہی نہیں بلکہ سال کے دیگر مہینوں کے دوران بھی غوروخوض ضروری ہے۔
No comments:
Post a Comment