Tuesday, October 6, 2015

Oct2015: LG Sys: Finacial Burden

ژرف نگاہ۔۔۔شبیرحسین اِمام
مجرمانہ کوتاہی!
کسی ایک کام کو کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں اُور سب سے بہتر طریقہ وہی ہوتا ہے‘ جو کم خرچ ہونے کے ساتھ ماضی کے اُن تمام تجربات کی روشنی میں مرتب کیا جائے‘ جب ملتے جلتے حالات میں ایسے ہی کسی فیصلے کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں معلوم ہے کہ تارکول کی آمیزش سے بنی ہوئی سڑک اُس وقت تک پائیدار ثابت نہیں ہوگی جب تک کہ اُس سڑک کے اطراف میں نکاسئ آب کا بندوبست نہ کیا جائے اور سڑک کی تعمیر کا زاویہ بھی ایسا ہونا چاہئے کہ اُس کی سطح پر بارش یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے گرنے والا خودبخود ڈھلوان یعنی نالے نالیوں کی طرف بہہ جائے لیکن باوجود یہ علم ہونے کے بھی اگر ہمارے ہاں شاہراؤں کی تعمیر سے زیادہ وقتاً فوقتاً اُن گڑھوں کوبند کرنے (بلیک ٹاپنگ) پر زیادہ اخراجات آتے رہیں اور یہ عمل ہر مالی سال میں جاری رہے تو یہ کوتاہی معصومانہ نہیں بلکہ مجرمانہ کہلائے گی کیونکہ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں انجنیئرز کی کمی ہے یا ہمیں تعمیرات کے جدید علوم سے آگہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اذہان عالیہ کی ذاتی و سیاسی ترجیحات نے ترقی کے عمل کو معکوس بنا رکھا ہے اور جلدازجلد افتتاح اور کم سے کم وقت میں میگا منصوبوں کی تکمیل تو گویا ہمارے سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ (طرۂ امتیاز بن چکا) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹرو بس جیسے فی کلومیٹر ملک کے مہنگے ترین منصوبے سے لیکر گلی محلے کی نالیوں تک کی تعمیر پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن وہ سب کا سب پیسہ پانی کی طرح بہایا اور پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے!

سرکاری خزانے سے غیرمحتاط انداز میں اسراف کی طرح پیسہ خرچ کرنا کوئی ایسا مشکل نہیں کہ اس عمل کا تذکرہ بطور اعزاز یا کسی خوبی کی صورت کیا جائے۔ اگر مجھے کوئی چیز چاہئے اُور میری جیب میں پیسے ہوں تو پھر خریداری کیا مشکل ہے۔ ہمارے ہاں نظام حکومت کا خلاصہ یہ ہے کہ صوبائی ہوں یا وفاقی‘ اور اب تو بلدیاتی حکومتیں بھی صرف اُور صرف مالی اخراجات کے زور سے چل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ادارے کا ترقیاتی بجٹ اُس کے غیرترقیاتی اخراجات (عملے کی ماہانہ تنخواہوں‘ مراعات‘ زیراستعمال عمارتوں کی دیکھ بھال‘ تعمیرومرمت اور ریٹائر ملازمین کی پینشن) کی نذر ہو رہا ہے۔ صرف یہی ایک ستم نہیں بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ قانون و قواعد سازی کی ذمہ داری جس کسی کو‘ جب کبھی بھی سونپی جاتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے اور اپنے طبقے سے تعلق رکھنے والوں (پیٹی بندوں) کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور یوں اگر اجتماعی مفاد کا اتفاقاً حاصل ہو تو ہو‘ اِس کے حصول کے لئے دانستہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ کیا یہ بات عام آدمی کے مفاد میں ہے کہ ایک سرکاری ملازم کی جگہ اُسی کے عزیز کو نوکری دی جائے جبکہ اُس کے اہلیت کا معیار ایک ایسی بے زبان تعلیمی سند ہو‘ جس کی درجہ بندی کا طریقۂ کار ہی موجود نہ ہو۔ اگر امتحان میں کم نمبر حاصل کرنے والوں کو مزید تعلیم کے لئے داخلہ حاصل کرنے کی صورت مقابلے کے امتحانی مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے تو سرکاری نوکری دینے کے لئے مقررکردہ امتحان کا معیار بھی زیادہ بلند و شفاف ہونا چاہئے؟

عام آدمی (ہم عوام) کے ٹیکسوں یا ان کی کھال گروی رکھ کر بھاری سود پر قرضوں سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کی ہر ایک پائی‘ اِحتیاط کی بجائے ’’ذاتی و سیاسی نیک نامی‘‘ کے لئے خرچ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ایک سے بڑھ کر ایک معزز موجود ہے‘ جن کے خرچے اور چرچے (فکروعمل) ’خوداحتسابی‘ سے عاری ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے لئے ’رولز آف بزنس‘ جو کہ کام کاج کے طریقۂ کار اور ذمہ داریوں پر مبنی ہونا چاہئے تھا‘ اُس کا محورومرکز یہ بات ہے کہ نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کو ماہانہ کتنی تنخواہ اور مراعات کے ساتھ مالی وسائل حاصل فراہم کئے جائیں گے۔ سارے کا سارا زور اُور بنیادی خیال یہی ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) پر حکومت کرنے والے بلدیاتی نمائندوں کی جو نئی فوج صفیں بنائی کھڑی ہے اُن کے منہ کیسے بند کئے جائیں! ماضی کے بلدیاتی نمائندوں کو بھی اسی طور مالی و انتظامی اختیارات‘ مراعات اور وسائل مہیا کئے گئے اور ہم بھول گئے کہ جب یونین کونسلوں اور ضلع کا آڈٹ ہوا تو مالی بدعنوانیوں کے انبار لگ گئے۔

ماضی کے بلدیاتی نمائندوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کے درمیان تعلقات بشمول قبضہ مافیا کی سرپرستی کے حوالے سے کارکردگی بھی آج ہمارے سامنے نہیں۔ کمزور ترین حافظے اور ماضی کو ایک گڑھے میں دفن کرکے دوسرا گڑھا کھودنے جیسی ’مصروفیت‘ کی بھاری قیمت ایک مرتبہ پھر اُس عام آدمی (ہم عوام) کو اَدا کرنا پڑے گی‘ جس کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے! تصور کیجئے کہ بناء کسی ذہنی و تعلیمی قابلیت و اہلیت کے معیار چند سو افراد کی تائید سے منتخب قرار پانے والوں کی تنخواہیں طے کر لی گئیں ہیں۔ ضلعی ناظم ساٹھ ہزار‘ ضلعی نائب ناظم پچاس ہزار‘ تحصیل ناظم چالیس ہزار‘ تحصیل نائب ناظم تیس ہزار‘ ویلیج یا نیبرہڈ کونسل کا ناظم بیس ہزار اور نائب ناظم کو پندرہ ہزار روپے ماہانہ ادا کرنے کی منظوری صوبائی دارالحکومت پشاور میں بیٹھ کر نہیں بلکہ ’’خیبرپختونخوا ہاؤس‘ اسلام آباد‘‘ میں منعقدہ اجلاس میں دی گئی‘ جس میں صوبائی وزیرخزانہ شریک ہوئے لیکن اُنہیں ’اجلاس کے ایجنڈے‘ کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی! پورے صوبے میں تین سطحی بلدیاتی نظام کے باقی ماندہ دیگر نمائندوں (کونسلروں) کو بھی کچھ نہ کچھ مالی مراعات ’عنایت‘ کر دی جائیں گی‘ تاکہ اعتراض کرنے والا اور کوئی جواز باقی نہ رہے! قابل ذکر ہے کہ ’’جب ناظمین اُور نائب ناظمین کی تنخواہیں طے کرنے کے لئے غوروخوض مکمل ہوا‘ تو مالی امور کے نگران صوبائی فنانس ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیا گیا کہ وہ محکمۂ بلدیات کو بلاتاخیر (فوری طورپر) 42 ارب روپے جاری کرے!‘‘ اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ مالی وسائل مختص کرنے میں فراخدالی و جلدبازی کا اس حد تک مظاہرہ کیا گیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں درج شرط کے مطابق ’صوبائی (پروانشیل) فنانس کمیشن‘ کا اجلاس پہلے طلب ہونا چاہئے تھا لیکن یہاں مالی وسائل پہلے مختص ہوئے اور آئندہ چند روز میں فیصلہ کیا جائے گا کہ اِن مالی وسائل کے ساتھ شرائط کیا ہوں گی یعنی مختص مالی وسائل کے ساتھ ’مالی نظم و ضبط کا ہدایات نامہ‘ کیا ہوگا! تاوقت ہوئے فیصلے کے مطابق ’’ناظمین اور اُن کے نائب خودمختار ہوں گے لیکن اُن کی نگرانی ڈپٹی کمشنروں‘ اسسٹنٹ کمشنروں‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنروں اُور مختلف معاملات میں اِنجنیئرز کو سونپ دی گئی ہے۔ ضلعی ناظم ہر ضلع کی سطح پر ’ڈسٹرکٹ ایڈوائزری کمیٹی (ڈیڈک)‘ کا رکن ہوگا جو متعلقہ ضلع میں رکن صوبائی اسمبلیوں کو ملنے والے مالی وسائل کا نگران ہوگا لیکن کسی رکن صوبائی قومی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ ضلعی ناظم کی مرتب کردہ ترقیاتی حکمت عملی کے بارے میں سوال یا اِعتراض اُٹھا سکے!

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان چاہتے ہیں اور کیا خوب خواہش رکھتے ہیں کہ ایم این ایز‘ ایم پی ایز یا سینیٹرز کا کردار صرف اور صرف قانون سازی کی حد تک محدود ہونا چاہئے اور جملہ ترقیاتی کام بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے سرانجام پائیں! کیا ایسا عملاً ممکن ہو پائے گا؟ جناب عالیٰ‘ تبدیلی (تاحال) نہیں آئی۔ کانچ کی طرح اِستحقاق کے ساتھ قانون سازی کے مرتبے پر فائز آج بھی مالی و انتظامی طور پر زیادہ طاقتور‘ زیادہ بااختیار اور زیادہ مراعات یافتہ ہیں!

No comments:

Post a Comment