Monday, October 5, 2015

Oct2015: Downfall of LG System

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زمیں بوس بلدیاتی نظام!
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام متعارف کرانے میں کم و بیش سات برس کی تاخیر ایک ایسا بوجھ تھا‘ جسے اُتارنے میں کچھ اِس قدر جلدبازی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا کہ نئی قانون سازی میں ماضی کے برعکس صرف ضلع اُور تحصیل کی حد تک ہی نہیں بلکہ اختیارات کو ’دیہی و ہمسائیگی کونسلوں (ویلیج اینڈ نیبرہڈ کونسلز) کی حد تک تقسیم ہی نہیں بلکہ زمین بوس کردیا گیا۔ ایک جیسا کام کرنے کے لئے ایک سے زیادہ بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب کا مرحلہ بھی کہے لیجئے کہ مجموعی طور پر ’خوش اسلوبی‘ سے طے پا گیا لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا بلدیاتی نمائندوں کی اکثریت تنخواہ یا مالی فوائد حاصل کئے بناء عوام کی ’بے لوث خدمت‘ کریں گے؟ جبکہ یہی کام اگر منتخب یا سیاسی جماعتوں کے نامزد اراکین صوبائی و قومی اسمبلی یا سینیٹرز کرتے ہیں تو انہیں بھاری تنخواہوں کے علاؤہ کی قسم کی مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں! کم از کم تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندے یہ اعلان کرکے دوسروں کے لئے ’عمدہ مثال‘ بن سکتے ہیں کہ ’’وہ رضاکارانہ طور پر ہر قسم کی تنخواہ یا مالی مراعات و فوائد سے دستبردار ہوتے ہیں!‘‘

ماضی کے بلدیاتی اداروں اُور موجودہ صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ نظام میں زیادہ فرق نہیں صرف ہر یونین کونسل کو ایک سے زیادہ مزید حصوں میں تقسیم کرکے ویلیج یا نیبرہڈ کونسلیں تشکیل دے دی گئیں ہیں تو کیا یہ سوچا سمجھا اقدام تھا؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب یونین کونسلوں کو مزید انتظامی ٹکڑوں میں تقسیم کیا جارہا تھا اور ہر انتظامی ٹکڑے کا الگ ناظم‘ نائب ناظم اور دیگر نمائندے حتیٰ کہ اقلیت و خواتین کی نمائندگی بھی مخصوص کر دی گئی تو پھر تحصیل کی سطح پر نمائندے منتخب کرنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟ ویلیج و نیبرہڈ کونسلوں کے نمائندے ’تحصیل کا مؤثر نعم البدل‘ ثابت ہو سکتے تھے۔ ایک ہی کام یعنی تعمیروترقی سے متعلق ترجیحات کے تعین‘ خدمات کے شعبے میں سرکاری اداروں کی کارکردگی نکھارنے اور میونسپل سروسیز کا معیار بہتر بنانے جیسے تین بنیادی کام ضلع اور ویلیج و نیبرہڈ کونسلوں کے ذریعے باآسانی ممکن بنایا جا سکتا تھا۔ اِس قدر میلے‘ ٹھیلوں اُور جھمیلوں (نمائشی اقدامات) کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟

صرف بلدیاتی قوانین مرتب کرتے ہوئے ہی نہیں بلکہ بنیادی خرابی ہر قسم کی قانون سازی کے مراحل میں غیرضروری رازداری کی وجہ سے ہے۔ عوامی سطح پر‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے یا مشاورتی اجلاسوں کے پلیٹ فارم سے اگر ’بحث و مباحثے‘ کی روایت موجود ہوتی‘ اگر حکومتی اراکین اور بعدازاں صوبائی اسمبلی کی چھت تلے بیٹھے خود کو ’عقل کل‘ نہ سمجھتے تو آج اتنی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوتیں اور اندیشہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام سے عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات پوری ہوں یا نہ ہوں صوبائی حکومت نومنتخب اراکین کو ’خوش‘ کرنے کے لئے فراخدلی کا مظاہرہ ضرور کرے گی‘ جس کا باقاعدہ اعلان آئندہ چند روز میں نوٹیفیکیشن کی صورت منظرعام پر آ جائے گا اور اسی ضمن میں 3 اکتوبر کی شام خیبرپختونخوا ہاؤس (اسلام آباد) میں ایک متعلقہ اعلیٰ حکام کا خصوصی اجلاس طلب منعقد ہوا‘ جس کی صدارت خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت کے سربراہ عمران خان نے بذات خود فرمائی۔ اِس غیرمعمولی اجلاس کا ایک مقصد اُن ’رولز آف بزنس (آئینی طریقۂ کار)‘ میں ترامیم و اضافے کا جائزہ لینا تھا‘ جس کے بعد ہر ضلع‘ ہر تحصیل اور ہر دیہی و ہمسائیگی کونسل کے ناظم و نائب ناظم کو ایک مستقل رقم بطور ماہانہ وظیفہ (تنخواہ) اَدا کی جائے گی لیکن مسئلہ اُور اندیشہ اُن 40 ہزار نومنتخب کونسلروں کے شدید ردعمل کا ہے‘ جن کی تنخواہیں اگر مقرر کی جاتی ہیں تو بلدیاتی حکومتوں کے لئے مختص تمام کے تمام مالی وسائل ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کی نذر ہو جائیں گے اور پھر ترقیاتی کاموں کے لئے ایک پیسہ بھی دستیاب نہیں ہوگا!

مقامی حکومتوں کا نظام مرتب کرتے وقت سوچنا چاہئے تھا کہ بلدیاتی نمائندوں کی فوج کے اخراجات کہاں سے اَدا ہوں گے اور جب ہر منتخب نمائندے کو حکومت نے ماہانہ تنخواہ ہی اَدا کرنی ہے تو پھر اہلیت کا کوئی نہ کوئی ایسا معیار بھی مقرر کیا جاتا کہ جس کے تحت کسی نہ کسی تعلیمی قابلیت یا ذہانت و تجربے کے کم سے کم معیار پر پورا اُترنے والے ہی عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے سکتے۔ یوں ہر بے روزگار اور فارغ البال چند سو ووٹوں کے عوض ’منتخب نمائندہ‘ ہونے کا ’اعزاز‘ نہ پاتا۔ جسے اب یہ بھی معلوم نہیں کہ منتخب ہونے کے بعد اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں! خیبرپختونخوا حکومت نے ترامیم کے ساتھ ’لوکل گورنمنٹ ایکٹ‘ شائع کردیا ہے جو نہ صرف انگلش زبان میں دستیاب ہے بلکہ اس میں استعمال ہونے والی آئینی اصطلاحات سمجھنا ہر بلدیاتی نمائندے کے بس کی بات نہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت سے درخواست ہے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کے حوالے سے قانون کا سلیس اُردو ترجمہ بمعہ شرح (حاشیے پر تفصیلات) کے ساتھ مرتب کرے اور اسے قسط وار انداز میں بذریعہ اخبارات شائع کیا جائے۔ یہی کام اشاعتی ادارے اپنے طور پر بھی کر سکتے ہیں کیونکہ اُن کے قارئین کی بڑی تعداد اِس موضوع میں دلچسپی رکھتی ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کسی منتخب نمائندے کا دائرہ اختیار اور اس دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے اُس کی پورے نظام میں بطور اکائی حیثیت کیا ہوگی۔ جب منتخب نمائندوں کو اپنی حیثیت اور عہدوں سے جڑی ذمہ داریوں کا علم ہی نہیں تو اُن سے ’اجتماعی مفاد‘ میں کسی بھی غیرمعمولی یا معمولی کارکردگی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔

No comments:

Post a Comment