ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انٹرنیٹ موبائل: رنگ برنگی اُردو!
انٹرنیٹ موبائل: رنگ برنگی اُردو!
اُردو زبان سے محبت اور اس کے فروغ کے لئے دانستہ کوششوں کی ضرورت ہے
کیونکہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور نوجوان نسل میں مختصر نویسی کے
رجحانات دیکھ کر اندیشہ ہے کہ اُردو زبان کا وہ خالص مزا‘ رنگ روپ اور
چاشنی جاتی رہے گی‘ جس کا لطف الفاظ پڑھ کر نہیں اٹھایا جاسکتا۔ یہ مرحلۂ
فکر ’ٹیکنالوجی گریز‘ ترغیب نہیں بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ’موبائل فون‘
کے ذریعے پیغامات (ٹیکسٹ میسیجز) کے ذریعے جس طرح اُردو زبان کو تہہ و بالا
کرنے کی دانستہ کوشش میں اضافہ ہوا اور جس طرح ذرائع ابلاغ (نجی ٹیلی ویژن
چینلوں) نے جلتی پر تیل ڈالا تو اس کی وجہ سے بالخصوص نوجوان نسل اُردو کے
غلط الفاظ اور لہجے اختیار کر بیٹھی ہے‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ ’راسخ‘ ہوتے
جا رہے ہیں۔ پندرہ بیس برس پہلے اگر کوئی غلط اُردو بولتا تو اُس سے متعلق
کہا جاتا تھا کہ وہ ’گلابی اُردو‘ بول رہا ہے۔ ’’گلابی اُردو‘‘ بولنے والے
عموماً اُردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش کیا کرتے تھے یعنی ان کا ہر جملہ
مکمل اُردو یا انگریزی میں ہونے کے بجائے تحلیل شدہ ہوتا تھا۔ وہ زمانہ
گزر گیا اور اب جبکہ سماجی رابطہ کاری (انٹرنیٹ کے وسائل) کا مادر پدر آزاد
دور ہے اور ہر شخص اپنی پسند کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار زیادہ
آسانی سے کر رہا ہے تو یہاں ایک نیا قضیہ ’’گلابی اُردو‘‘ کی جگہ ’رومن
اُردو‘ کا درپیش ہے!
انٹرنیٹ اور موبائل کے سستے اور عام آدمی کی قوت خرید میں ہونے کی وجہ سے یہ اب رومن اُردو عام ہوتی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کے خواص میں یہ بہت پہلے سے مقبول تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رومن اُردو کی ابتدأ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہوئی چونکہ جنرل ایوب اُردو رسم الخط پڑھ نہیں سکتے تھے‘ اس لئے ان کی تقریر رومن اُردو میں ٹائپ کی جاتی تھی۔ اسی طرح کی بات سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لئے بھی یہی بات مشہور ہے۔ اس کے علاؤہ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے کراچی کے جلسے کی تقریر کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ اطلاعات نشر ہوئیں کہ ان کو بھی تمام تقریر ’رومن اُردو‘ میں پیش کی گئی۔ انٹرنیٹ کے عام استعمال سے قبل کمپیوٹر میں اُردو زبان لکھنے کی سہولت یا صلاحیت موجود نہیں ہوا کرتی تھی‘ اس لئے رومن اُردو استعمال کی جانے لگی۔ پہلے پہلے تو چیٹ روم میں چیٹنگ کے لئے رومن اُردو کا استعمال شروع ہوا‘ اور بعد میں مختلف ویب فورمز میں رومن اُردو میں پوسٹ عام ہونے لگی لیکن جب فیس بک‘ اسکائپ‘ سنیپ چیٹ‘ ٹوئٹر‘ واٹس ایپ وائبر یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر پاکستانیوں کا رش ہونا شروع ہوا‘ تو اس وقت رومن اُردو کا استعمال بہت تیزی سے بڑھنے لگا۔ شروع شروع میں مختلف آپریٹنگ سسٹم اُردو کو سپورٹ نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں اُردو زبان انسٹال کرنا کافی مشکل عمل تھا۔ اس کے علاؤہ ہمارے ہاں عام تعلیمی اداروں میں اُردو ٹائپنگ (اُردو کمپیوزنگ) سکھائی نہیں جاتی جبکہ انگریزی ٹائپنگ نوکری کے لئے لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس لئے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد باقاعدہ طور پر انگریزی ٹائپنگ سیکھتی ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھی انگریزی زبان میں اپنے خیالات لکھنے کی صلاحیت پر عبور نہیں رکھتے‘ جس کی وجہ سے وہ اپنے اُردو خیالات کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بجائے اس کو رومن اُردو میں تحریرکرنے پر ترجیح دینے لگے! بعض ماہرین کے مطابق ہم لوگ بطورِ قوم انگریزی زبان سے مرعوب ہیں اور ہمیں شدید احساس کمتری ہے کہ ہمیں انگریزی زبان نہیں آتی‘ حالانکہ ہمیں چینی زبان نہیں آتی‘ جرمن نہیں آتی‘ فرانسیسی نہیں آتی‘ ہمیں کبھی اس پر شرمندگی نہیں ہوئی لیکن انگریزی نہ آنے پر ہم خود کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اُردو کے فروغ‘ ترقی‘ تحفظ اور بقاء کے لئے حکومت کیا کررہی ہے؟ اس وقت پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر نجانے کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو اُردو کے فروغ اور بقا کے لئے ’’دن رات‘‘ ایک کئے ہوئے ہیں جن میں ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ (مقتدرہ قومی زبان)‘ مجلس ترقی ادب‘ اُردو سائنس بورڈ‘ قومی لغت بورڈ‘ اکادمی ادبیات‘ نظریۂ پاکستان فاؤئڈیشن‘ اُردو لغت پاکستان‘ اقبال اکادمی‘ قائد اعظم اکادمی‘ مرکز تحقیقات اُردو پروسیسنگ‘ وغیرہ وغیرہ اور نجانے کتنے ہی وغیرہ ادارے اُور بھی ہیں جن کو حکومت کی جانب سے لاکھوں کروڑوں روپے کے ماہانہ فنڈز بھی مل رہے ہیں لیکن ان حکومتی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ خود مقتدرہ قومی زبان نے اپنی ویب سائٹ پر درج کیا ہوا کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام چار اکتوبر 1979ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان ’اُردو‘ کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لئے حکومت کو سفارشات پیش کرے‘ نیز مختلف علمی‘ تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اُردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔ یہ ادارہ اپنے اہداف کے ساتھ کس قدر انصاف کر سکا اور کتنی کامیابی ملی‘ اس کا فیصلہ ہونا چاہئے!
اُردو زبان کا سوشل میڈیا یا کسی بھی کمپیوٹر پر استعمال اب قطعی مشکل نہیں رہا۔ آپریٹنگ سسٹم (OS) میں صرف اُردو زبان ’کی بورڈ (keyboard)‘ اِنسٹال (install) کرنا چند منٹ کا کام ہے اُور بس۔ کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ (unicode)‘ کے آنے سے پہلے اُردو انسٹال کرنا کافی مشکل کام تھا لیکن اَب نہیں۔ یونی کوڈ کی ایجاد سے اب کمپیوٹر میں ہر اہم زبان میں تحریر ممکن ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑے سوفٹ وئر ’یونی کوڈ‘ کو سپورٹ کرتے ہیں‘ لہٰذا ’’رومن (رنگ برنگی) اُردو‘‘ کی بجائے اگر موبائل فونز یا کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ‘ اِنسٹال کر لیا جائے تو اِس کے استعمال کو عام کیا جائے تو اس سے نہ صرف پیغام رسانی میں وضاحت رہے گی بلکہ اُردو کے مستقبل پر بھی احسان عظیم ہوگا۔ ’’عجب تناسب سے ذہن و دل میں خیال تقسیم ہو رہے ہیں۔۔۔ مگر محبت سی ہو گئی ہے‘ تمہیں محبت سکھا سکھا کے!‘‘
انٹرنیٹ اور موبائل کے سستے اور عام آدمی کی قوت خرید میں ہونے کی وجہ سے یہ اب رومن اُردو عام ہوتی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کے خواص میں یہ بہت پہلے سے مقبول تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رومن اُردو کی ابتدأ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہوئی چونکہ جنرل ایوب اُردو رسم الخط پڑھ نہیں سکتے تھے‘ اس لئے ان کی تقریر رومن اُردو میں ٹائپ کی جاتی تھی۔ اسی طرح کی بات سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لئے بھی یہی بات مشہور ہے۔ اس کے علاؤہ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے کراچی کے جلسے کی تقریر کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ اطلاعات نشر ہوئیں کہ ان کو بھی تمام تقریر ’رومن اُردو‘ میں پیش کی گئی۔ انٹرنیٹ کے عام استعمال سے قبل کمپیوٹر میں اُردو زبان لکھنے کی سہولت یا صلاحیت موجود نہیں ہوا کرتی تھی‘ اس لئے رومن اُردو استعمال کی جانے لگی۔ پہلے پہلے تو چیٹ روم میں چیٹنگ کے لئے رومن اُردو کا استعمال شروع ہوا‘ اور بعد میں مختلف ویب فورمز میں رومن اُردو میں پوسٹ عام ہونے لگی لیکن جب فیس بک‘ اسکائپ‘ سنیپ چیٹ‘ ٹوئٹر‘ واٹس ایپ وائبر یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر پاکستانیوں کا رش ہونا شروع ہوا‘ تو اس وقت رومن اُردو کا استعمال بہت تیزی سے بڑھنے لگا۔ شروع شروع میں مختلف آپریٹنگ سسٹم اُردو کو سپورٹ نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں اُردو زبان انسٹال کرنا کافی مشکل عمل تھا۔ اس کے علاؤہ ہمارے ہاں عام تعلیمی اداروں میں اُردو ٹائپنگ (اُردو کمپیوزنگ) سکھائی نہیں جاتی جبکہ انگریزی ٹائپنگ نوکری کے لئے لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس لئے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد باقاعدہ طور پر انگریزی ٹائپنگ سیکھتی ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھی انگریزی زبان میں اپنے خیالات لکھنے کی صلاحیت پر عبور نہیں رکھتے‘ جس کی وجہ سے وہ اپنے اُردو خیالات کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بجائے اس کو رومن اُردو میں تحریرکرنے پر ترجیح دینے لگے! بعض ماہرین کے مطابق ہم لوگ بطورِ قوم انگریزی زبان سے مرعوب ہیں اور ہمیں شدید احساس کمتری ہے کہ ہمیں انگریزی زبان نہیں آتی‘ حالانکہ ہمیں چینی زبان نہیں آتی‘ جرمن نہیں آتی‘ فرانسیسی نہیں آتی‘ ہمیں کبھی اس پر شرمندگی نہیں ہوئی لیکن انگریزی نہ آنے پر ہم خود کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اُردو کے فروغ‘ ترقی‘ تحفظ اور بقاء کے لئے حکومت کیا کررہی ہے؟ اس وقت پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر نجانے کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو اُردو کے فروغ اور بقا کے لئے ’’دن رات‘‘ ایک کئے ہوئے ہیں جن میں ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ (مقتدرہ قومی زبان)‘ مجلس ترقی ادب‘ اُردو سائنس بورڈ‘ قومی لغت بورڈ‘ اکادمی ادبیات‘ نظریۂ پاکستان فاؤئڈیشن‘ اُردو لغت پاکستان‘ اقبال اکادمی‘ قائد اعظم اکادمی‘ مرکز تحقیقات اُردو پروسیسنگ‘ وغیرہ وغیرہ اور نجانے کتنے ہی وغیرہ ادارے اُور بھی ہیں جن کو حکومت کی جانب سے لاکھوں کروڑوں روپے کے ماہانہ فنڈز بھی مل رہے ہیں لیکن ان حکومتی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ خود مقتدرہ قومی زبان نے اپنی ویب سائٹ پر درج کیا ہوا کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام چار اکتوبر 1979ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان ’اُردو‘ کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لئے حکومت کو سفارشات پیش کرے‘ نیز مختلف علمی‘ تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اُردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔ یہ ادارہ اپنے اہداف کے ساتھ کس قدر انصاف کر سکا اور کتنی کامیابی ملی‘ اس کا فیصلہ ہونا چاہئے!
اُردو زبان کا سوشل میڈیا یا کسی بھی کمپیوٹر پر استعمال اب قطعی مشکل نہیں رہا۔ آپریٹنگ سسٹم (OS) میں صرف اُردو زبان ’کی بورڈ (keyboard)‘ اِنسٹال (install) کرنا چند منٹ کا کام ہے اُور بس۔ کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ (unicode)‘ کے آنے سے پہلے اُردو انسٹال کرنا کافی مشکل کام تھا لیکن اَب نہیں۔ یونی کوڈ کی ایجاد سے اب کمپیوٹر میں ہر اہم زبان میں تحریر ممکن ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑے سوفٹ وئر ’یونی کوڈ‘ کو سپورٹ کرتے ہیں‘ لہٰذا ’’رومن (رنگ برنگی) اُردو‘‘ کی بجائے اگر موبائل فونز یا کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ‘ اِنسٹال کر لیا جائے تو اِس کے استعمال کو عام کیا جائے تو اس سے نہ صرف پیغام رسانی میں وضاحت رہے گی بلکہ اُردو کے مستقبل پر بھی احسان عظیم ہوگا۔ ’’عجب تناسب سے ذہن و دل میں خیال تقسیم ہو رہے ہیں۔۔۔ مگر محبت سی ہو گئی ہے‘ تمہیں محبت سکھا سکھا کے!‘‘
No comments:
Post a Comment