ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین امام
بدعنوانیوں کے امکانات
بدعنوانیوں کے امکانات
چند ہفتوں یا مہینوں کی بات نہیں بلکہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے
والوں نے آٹھ برس جس کرب و اذیت میں بسر کئے ہیں‘ اُن کا الفاظ میں احاطہ
کرنا ناممکن ہے۔ مختصراً بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ اپنے ہی ملک میں مہاجرت
کی زندگی بسر کرنے والوں کے لئے یہ عرصہ کسی بھی طرح خوشگوار یادوں کا
مجموعہ نہیں۔ وہ کونسی مصیبت‘ تکلیف یا مشکل ہے‘ جو دربدری کے اِس تلخ
تجربے کے دوران خیبر‘ جنوبی وزیرستان‘ شمالی وزیرستان‘ اُورکزئی اُور کرم
ایجنسی کے رہنے والے ہزاروں قبائلی خاندانوں نے نہ جھیلی ہو! قبائلی علاقوں
کے رہنے والے غیور افراد کی آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں اور شاید
ہی اُن کی مسکراہٹیں کبھی لوٹ سکیں لیکن اگر اُنہیں دعاؤں کی قبولیت کا
یقین ہو تو خبر یہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی باعزت واپسی اور شورش زدہ
علاقوں میں معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے حکومتی سطح پر غوروخوض کا عمل
سنجیدہ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اُور پہلے مرحلے میں اُورکزئی ایجنسی کے
700 خاندانوں کو واپس بھیجنے کے لئے 6 اکتوبر کے روز سہولیات بشمول حفاظتی
حصار مہیا کیا جائے گا۔ زریں اور مرکزی اُورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے
والوں کی نقل مکانی ’توغ سرائے (ہنگو)‘ کے مقام سے کی جائے گی۔ یاد رہے کہ
خیبرایجنسی سے تعلق رکھنے والے 97ہزار 81‘شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے
والے 27 ہزار 590 اور جنوبی وزیرستان کے 19ہزار 728 افراد پہلے ہی اپنے
آبائی علاقوں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔ واپسی کے اِس عمل میں معاونت کرنے کے
لئے لاگت کا تخمینہ کم و بیش 2 ارب روپے لگایا گیا ہے!
نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے عمل میں حکومت کے ہم پلہ کلیدی کردار ’غیرملکی امدادی اداروں (انٹرنیشنل این جی اُوز) بھی ادا کر رہی ہیں لیکن یکم اکتوبر کو وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس نے غیرملکی این جی اُوز کے نگرانوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے‘ جنہیں حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے دھواں دھار بیانات تو سننے کو مل رہے ہیں لیکن نہ تو این جی اُوز کی پالیسی میں اچانک ردوبدل کے حوالے سے صوبوں یا این جی اُوز سے مشاورت کی گئی ہے اور نہ ایسے این جی اُوز کی تفصیلات ظاہر کی گئیں ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ وزیرداخلہ نے دوسری مرتبہ ’غیرملکی این جی اُوز‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ جملہ خرابیوں کی وجہ یہی ادارے ہیں‘ حالانکہ صورتحال قطعی مختلف ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں بناء ٹیکس ادا کئے مشکوک ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی کی بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والے کوئی اُور نہیں بلکہ ہمارے معزز و محترم سیاستدان ہی ہیں۔ وزیر داخلہ کو ایسے تمام افراد سیکورٹی کے لئے خطرہ نہیں لگ رہے جو حکومت میں آنے کے لئے پہلے انتخابات اُور پھر وزارت یا عہدہ پانے کے لئے قیادت کو اُن کے اطمینان و تسلی کے مطابق ’’خوش‘‘ رکھنے کا ہنر جانتے ہیں! قوم کی نظروں میں ’ملکی و غیرملکی این جی اُوز‘ کو مشکوک بنانے سے کونسا قومی مفاد حاصل کیا گیا ہے‘ یہ علم نہیں ہوسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ’این جی اُوز کی رجسٹریشن و دیگر معاملات اگر ’اکنامک ڈویژن‘ سے ’وزارت داخلہ‘ کو منتقل کردیئے گئے ہیں تو اس کا فائدہ بھی قوم کو بتایا جاتا اور اگر کسی قاعدے و ضابطے میں کمی تھی تو محض اُسے دور کرنا کیوں ممکن نہیں تھا؟
قبائلی علاقوں میں ملکی و غیرملکی این جی اُوز کے اہلکاروں بالخصوص خواتین ورکرز کی فعالیت کبھی بھی آسان نہیں رہی اور بالخصوص موجودہ حالات میں جبکہ نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا عمل جاری ہے‘ غیرملکی این جی اُوز سے امدادی پروگراموں کے لئے ذمہ داریان حاصل کرنے والے مقامی این جی اُوز بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے۔ ضلع بنوں جیسے بندوبستی علاقے میں کئی این جی اُوز ورکرز کو عسکریت پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیاں کے بعد بہت سے دفاتر پشاور منتقل کر دیئے گئے ہیں اور این جی اُوز کے ملکی و غیرملکی اہلکار پشاور سے باہر قدم رکھنے کو محفوط نہیں سمجھتے۔ اِس پورے منظرنامے میں ایک طبقہ خوشحال ہے جس کے ہاتھ میں مالی وسائل ہیں کیونکہ این جی اُوز کی صورت اُن کی نگرانی کا عمل ہو رہا ہوتا ہے اور جب ملکی یا غیرملکی غیرسرکاری تنظیمیں کسی علاقے میں فعال ہوں وہاں امدادی وسائل میں خردبرد کا امکان کم رہتا ہے! کئی ایسے فیصلہ ساز بھی ہیں جنہوں نے ’این جی اوز‘ کو کام کرنے کی اجازت دینے کے عوض اپنی جائیدادیں یا گاڑیاں بھاری کرائے پر دے رکھی ہیں! علاؤہ ازیں این جی اُوز کو سفر یا کام کرنے کے لئے الگ سے ’این اُو سی‘ جاری کرنے کا طریقۂ کار بھی اصلاح چاہتا ہے‘ جس میں افسرشاہی نے خود اپنے لئے ایسے اختیارات رکھ چھوڑے ہیں جس سے بدعنوانی کے امکانات موجود رہیں! عجب ہے کہ ہمیں ایک ہاتھ غیرملکی امداد کی بھی ضرورت ہے اور ہم اِن اداروں کو اُن کے اپنے اپنے انتظامی طریقۂ کار کے مطابق کام کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے! نجانے ہمارے ہاں کی سیکورٹی کو ہر دیکھی اَن دیکھی چیز سے خطرات کیوں لاحق رہتے ہیں! خودداری و غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے ہی لوگوں کی آبادکاری خود اپنے وسائل سے کرتے ہوئے ایثار کا مظاہرہ کیا جائے لیکن ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے میں بندوق تان کر بات منوانا کسی بھی صورت مبنی برانصاف اور منطقی طرزعمل نہیں۔
نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے عمل میں حکومت کے ہم پلہ کلیدی کردار ’غیرملکی امدادی اداروں (انٹرنیشنل این جی اُوز) بھی ادا کر رہی ہیں لیکن یکم اکتوبر کو وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس نے غیرملکی این جی اُوز کے نگرانوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے‘ جنہیں حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے دھواں دھار بیانات تو سننے کو مل رہے ہیں لیکن نہ تو این جی اُوز کی پالیسی میں اچانک ردوبدل کے حوالے سے صوبوں یا این جی اُوز سے مشاورت کی گئی ہے اور نہ ایسے این جی اُوز کی تفصیلات ظاہر کی گئیں ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ وزیرداخلہ نے دوسری مرتبہ ’غیرملکی این جی اُوز‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ جملہ خرابیوں کی وجہ یہی ادارے ہیں‘ حالانکہ صورتحال قطعی مختلف ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں بناء ٹیکس ادا کئے مشکوک ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی کی بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والے کوئی اُور نہیں بلکہ ہمارے معزز و محترم سیاستدان ہی ہیں۔ وزیر داخلہ کو ایسے تمام افراد سیکورٹی کے لئے خطرہ نہیں لگ رہے جو حکومت میں آنے کے لئے پہلے انتخابات اُور پھر وزارت یا عہدہ پانے کے لئے قیادت کو اُن کے اطمینان و تسلی کے مطابق ’’خوش‘‘ رکھنے کا ہنر جانتے ہیں! قوم کی نظروں میں ’ملکی و غیرملکی این جی اُوز‘ کو مشکوک بنانے سے کونسا قومی مفاد حاصل کیا گیا ہے‘ یہ علم نہیں ہوسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ’این جی اُوز کی رجسٹریشن و دیگر معاملات اگر ’اکنامک ڈویژن‘ سے ’وزارت داخلہ‘ کو منتقل کردیئے گئے ہیں تو اس کا فائدہ بھی قوم کو بتایا جاتا اور اگر کسی قاعدے و ضابطے میں کمی تھی تو محض اُسے دور کرنا کیوں ممکن نہیں تھا؟
قبائلی علاقوں میں ملکی و غیرملکی این جی اُوز کے اہلکاروں بالخصوص خواتین ورکرز کی فعالیت کبھی بھی آسان نہیں رہی اور بالخصوص موجودہ حالات میں جبکہ نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا عمل جاری ہے‘ غیرملکی این جی اُوز سے امدادی پروگراموں کے لئے ذمہ داریان حاصل کرنے والے مقامی این جی اُوز بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے۔ ضلع بنوں جیسے بندوبستی علاقے میں کئی این جی اُوز ورکرز کو عسکریت پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیاں کے بعد بہت سے دفاتر پشاور منتقل کر دیئے گئے ہیں اور این جی اُوز کے ملکی و غیرملکی اہلکار پشاور سے باہر قدم رکھنے کو محفوط نہیں سمجھتے۔ اِس پورے منظرنامے میں ایک طبقہ خوشحال ہے جس کے ہاتھ میں مالی وسائل ہیں کیونکہ این جی اُوز کی صورت اُن کی نگرانی کا عمل ہو رہا ہوتا ہے اور جب ملکی یا غیرملکی غیرسرکاری تنظیمیں کسی علاقے میں فعال ہوں وہاں امدادی وسائل میں خردبرد کا امکان کم رہتا ہے! کئی ایسے فیصلہ ساز بھی ہیں جنہوں نے ’این جی اوز‘ کو کام کرنے کی اجازت دینے کے عوض اپنی جائیدادیں یا گاڑیاں بھاری کرائے پر دے رکھی ہیں! علاؤہ ازیں این جی اُوز کو سفر یا کام کرنے کے لئے الگ سے ’این اُو سی‘ جاری کرنے کا طریقۂ کار بھی اصلاح چاہتا ہے‘ جس میں افسرشاہی نے خود اپنے لئے ایسے اختیارات رکھ چھوڑے ہیں جس سے بدعنوانی کے امکانات موجود رہیں! عجب ہے کہ ہمیں ایک ہاتھ غیرملکی امداد کی بھی ضرورت ہے اور ہم اِن اداروں کو اُن کے اپنے اپنے انتظامی طریقۂ کار کے مطابق کام کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے! نجانے ہمارے ہاں کی سیکورٹی کو ہر دیکھی اَن دیکھی چیز سے خطرات کیوں لاحق رہتے ہیں! خودداری و غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے ہی لوگوں کی آبادکاری خود اپنے وسائل سے کرتے ہوئے ایثار کا مظاہرہ کیا جائے لیکن ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے میں بندوق تان کر بات منوانا کسی بھی صورت مبنی برانصاف اور منطقی طرزعمل نہیں۔
No comments:
Post a Comment