ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کوئی سنے گا تو کیا کہے گا؟
کوئی سنے گا تو کیا کہے گا؟
بلدیاتی (مقامی) حکومتوں کے قیام میں اَگر غیرضروری اُور طویل تعطل پیش نہ
آیا ہوتا تو خیبرپختونخوا کی تین انتظامی اکائیوں (حکومت‘ نومنتخب بلدیاتی
نمائندوں اور افسرشاہی) کے درمیان اپنے اپنے دائرہ کار بالخصوص مالی و
انتظامی اختیارات کے حوالے سے پائی جانے والی موجودہ بداعتمادی اُور ایک
دوسرے سے سنگین نوعیت کے گلے شکوے‘ تشکر کے محل کو یوں بدمزا نہ کرتے لیکن
موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے جس میں صوبائی حکومت کے وزرأ کو شکایت ہے
کہ ناظمین‘ نائب ناظمین اور دیگر نمائندے ہلڑبازی اور جلدبازی کا مظاہرہ کر
رہے ہیں اور اُنہوں نے اپنے ذمہ داریوں سے متعلق آئین میں لکھی ہدایات
پڑھنے اور سمجھنے سے قبل ہی معاملات ہاتھ میں لینا شروع کر دیئے ہیں۔ دوسری
طرف ’اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے نومنتخب بلدیاتی
نمائندے صوبائی اسمبلی کے اراکین کو یاد دلاتے ہیں کہ جناب آپ تو قانون ساز
ایوان کے رکن ہیں اور آپ کا کام تو صرف اور صرف قانون سازی ہونا چاہئے‘ یہ
ترقیاتی فنڈز آپ کے اختیار میں کیوں ہیں؟‘‘ تصادم و ٹکڑاؤ کے اِس ماحول
میں دیوار سے لگی افسرشاہی مسکرا رہی ہے اُور جمہوری اکائیوں کے آپسی ٹکڑاؤ
سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے! ’’باہر آتے ہیں آنسو اَندر سے۔۔۔ جانے
اَندر کہاں سے آتے ہیں!‘‘
نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اُور سرکاری ملازمین کے درمیان ’تو تو میں میں (بحث وتکرار)‘ کے واقعات خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پیش آ رہے ہیں‘ جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اعلیٰ و ادنی عہدوں پر فائز ’سرکاری ملازمین کے دستے‘ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور بالخصوص اُنہوں نے طے کر لیا ہے کہ کسی بھی صورت نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنے اُوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے اور شروع دن سے اپنی ’آزادی و خودمختاری‘ کا ہرممکن نہیں بلکہ مکمل دفاع کریں گے۔ دوسری طرح بلدیاتی نمائندے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق اُس پسے ہوئے طبقے سے ہے جو سرکاری ملازمین کی چال چلن سے بخوبی آگاہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئے انتظامی بلدیاتی نظام کے فعال ہوتے ہی سب سے پہلا کام خدمات (سروسیز) کے شعبے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ’سرکاری ملازمین کا قبلہ درست‘ کرنے کو ضروری سمجھا گیا‘ جس کی یقیناًضرورت ایک عرصے بلکہ انتہائی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ ہوں یا اَدنی‘ سرکاری ملازمین متحد ہیں۔گذشتہ ہفتے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں نے جب ایک ’کلاس فور ملازم‘ کی کھڑے کھڑے طبیعت صاف کی تو اگلے ہی روز وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے نومنتخب نمائندوں کو اپنے دفتر تواضع کے بہانے طلب کیا اور باتوں باتوں میں کہا کہ ’’اگر آپ لوگ سرکاری ملازمین کی عزت و احترام نہیں کریں گے‘ تو تلخ کلامی‘ ہاتھا پائی یا کسی قسم کی بدمزگی پیش آنے کی صورت انتظامیہ آپ کی مدد نہیں کر سکے گی‘ لہٰذا باعزت بننے کے لئے آپ کو بہرصورت سرکاری ملازمین کی عزت کرنا ہوگی!‘‘
اختیارات کی یہ جنگ صرف کسی ایک ضلع تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی شدت و گہرائی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2 اکتوبر کو ہوئے صوبائی اسمبلی اجلاس کے دوران جب ’قومی وطن پارٹی‘ کے اَراکین حزب اختلاف کی بجائے حزب اقتدار کے ساتھ براجمان ہوئے تو انہوں نے ’صبر یا مصلحت‘سے کام لینے کی بجائے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنے خدشات ایوان میں بیان کرڈالے۔ رکن صوبائی اسمبلی بخت بیدار خان نے ’’ناظمین بننے کے لئے اہلیت کے کسی معیار سے متعلق سوال اٹھایا‘ جو اس بات کا بین ثبوت تھا کہ اراکین اسمبلی کو بلدیاتی نمائندے ایک آنکھ نہیں بھا رہے! ابھی اجلاس کا آغاز ہوا ہی تھا کہ بخت بیدار کے علاؤہ منور خان (جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن)‘ شاہ حسین (عوامی نیشنل پارٹی) بھی بحث میں کود پڑے اور اُنہوں نے ضلع وتحصیل کی سطح پر انتظامی مسائل کا ذکر کرنا شروع کردیا۔ ایک موقع پر تو اراکین اسمبلی نے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ جناب ۔۔۔ ’’صوبائی اسمبلی ہال میں بلدیاتی نمائندوں کے لئے بھی نشستوں کا اضافہ کردیا جائے!‘‘
نظام حکومت جو بھی ہو اُور چاہے جتنا بھی پرانا یا نیا ہو‘ حقیقت حال تو یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اِس تہہ در تہہ حکمرانی کرنے والوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں! وہ کون سی آئینی ذمہ داریاں ہیں‘ جنہیں پورا کیا جارہا ہو؟ پینے کے صاف پانی‘ علاج معالجے اُور معیاری تعلیم کی فراہمی‘ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی مہنگائی‘ حتیٰ کہ جعلی اور زائدالمعیاد ادویات کی کھلے عام فروخت روکنا تو دُور کی بات سرکاری وسائل کا اسراف اُور ملازمین کی کارکردگی تک تسلی بخش بنانے کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔
اَراکین صوبائی اسمبلی کا اِنتخاب کیا گیا کہ وہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ کریں گے لیکن سب کچھ انتخابی سیاست کی نذر ہو گیا۔ مختلف النظریات سیاسی جماعتوں نے حکومت کرنے کے لئے وزارتوں کو مل بانٹ کر دائرے بنا لئے گئے اور غیرتحریری طور پر طے کر لیا گیا کہ کوئی ایک دوسرے کی کارکردگی کے بارے سوال (اعتراض) نہیں کرے گا! ضلعی نظام آیا تو پشاور جیسے مرکزی شہر کے پہلے بجٹ میں 7 ارب روپے سے زائد کے مالی وسائل غیرترقیاتی اخراجات کے لئے مختص کر دیئے گئے! کیا پہلے ہی صوبائی حکومت کی صورت ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کرنے والے نفوس و اذہان عالیہ کم تھے کہ ’’بلدیاتی نمائندوں نے بھی ’مال مفت دل بے رحم‘ کی روش برقرار رکھی!‘‘ پشاور کی ’سٹی ڈسٹرکٹ حکومت‘ کے 24 شعبہ جات ہیں۔ رواں مالی سال کے باقی ماندہ عرصہ کے دوران ان چوبیس شعبوں کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے کم وبیش 70 لاکھ روپے جبکہ ’’دیگر جاری اخراجات‘‘کی مد میں (ماشاء اللہ) 38 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں! عجب ہے کہ برسرزمین ترقی سے زیادہ اخراجات صرف اور صرف انتظامی مصروفیات (حیلوں بہانوں)کی نذر کرنے کی روایت ماضی کی طرح جوں کی توں برقرار ہے۔ آخری خبریں آنے تک صوبائی اسمبلی ہو یا ضلعی و تحصیل کے ایوان نمائندگان‘ زیادہ سے زیادہ مالی و انتظامی اختیارات حاصل کرنے کی کوششیں‘ جدوجہد‘ سردجنگ‘ رسہ کشی اُور چھینا چھپٹی کا سلسلہ جاری ہے! ’’بھنور میں مجھ کو جو ڈال آتے تو بات تم پر کبھی نہ آتی ۔۔۔ یوں مجھ کو ساحل پہ لا ڈبونا‘ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا!‘‘
نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اُور سرکاری ملازمین کے درمیان ’تو تو میں میں (بحث وتکرار)‘ کے واقعات خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پیش آ رہے ہیں‘ جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اعلیٰ و ادنی عہدوں پر فائز ’سرکاری ملازمین کے دستے‘ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور بالخصوص اُنہوں نے طے کر لیا ہے کہ کسی بھی صورت نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنے اُوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے اور شروع دن سے اپنی ’آزادی و خودمختاری‘ کا ہرممکن نہیں بلکہ مکمل دفاع کریں گے۔ دوسری طرح بلدیاتی نمائندے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق اُس پسے ہوئے طبقے سے ہے جو سرکاری ملازمین کی چال چلن سے بخوبی آگاہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئے انتظامی بلدیاتی نظام کے فعال ہوتے ہی سب سے پہلا کام خدمات (سروسیز) کے شعبے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ’سرکاری ملازمین کا قبلہ درست‘ کرنے کو ضروری سمجھا گیا‘ جس کی یقیناًضرورت ایک عرصے بلکہ انتہائی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ ہوں یا اَدنی‘ سرکاری ملازمین متحد ہیں۔گذشتہ ہفتے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں نے جب ایک ’کلاس فور ملازم‘ کی کھڑے کھڑے طبیعت صاف کی تو اگلے ہی روز وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے نومنتخب نمائندوں کو اپنے دفتر تواضع کے بہانے طلب کیا اور باتوں باتوں میں کہا کہ ’’اگر آپ لوگ سرکاری ملازمین کی عزت و احترام نہیں کریں گے‘ تو تلخ کلامی‘ ہاتھا پائی یا کسی قسم کی بدمزگی پیش آنے کی صورت انتظامیہ آپ کی مدد نہیں کر سکے گی‘ لہٰذا باعزت بننے کے لئے آپ کو بہرصورت سرکاری ملازمین کی عزت کرنا ہوگی!‘‘
اختیارات کی یہ جنگ صرف کسی ایک ضلع تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی شدت و گہرائی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2 اکتوبر کو ہوئے صوبائی اسمبلی اجلاس کے دوران جب ’قومی وطن پارٹی‘ کے اَراکین حزب اختلاف کی بجائے حزب اقتدار کے ساتھ براجمان ہوئے تو انہوں نے ’صبر یا مصلحت‘سے کام لینے کی بجائے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنے خدشات ایوان میں بیان کرڈالے۔ رکن صوبائی اسمبلی بخت بیدار خان نے ’’ناظمین بننے کے لئے اہلیت کے کسی معیار سے متعلق سوال اٹھایا‘ جو اس بات کا بین ثبوت تھا کہ اراکین اسمبلی کو بلدیاتی نمائندے ایک آنکھ نہیں بھا رہے! ابھی اجلاس کا آغاز ہوا ہی تھا کہ بخت بیدار کے علاؤہ منور خان (جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن)‘ شاہ حسین (عوامی نیشنل پارٹی) بھی بحث میں کود پڑے اور اُنہوں نے ضلع وتحصیل کی سطح پر انتظامی مسائل کا ذکر کرنا شروع کردیا۔ ایک موقع پر تو اراکین اسمبلی نے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ جناب ۔۔۔ ’’صوبائی اسمبلی ہال میں بلدیاتی نمائندوں کے لئے بھی نشستوں کا اضافہ کردیا جائے!‘‘
نظام حکومت جو بھی ہو اُور چاہے جتنا بھی پرانا یا نیا ہو‘ حقیقت حال تو یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اِس تہہ در تہہ حکمرانی کرنے والوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں! وہ کون سی آئینی ذمہ داریاں ہیں‘ جنہیں پورا کیا جارہا ہو؟ پینے کے صاف پانی‘ علاج معالجے اُور معیاری تعلیم کی فراہمی‘ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی مہنگائی‘ حتیٰ کہ جعلی اور زائدالمعیاد ادویات کی کھلے عام فروخت روکنا تو دُور کی بات سرکاری وسائل کا اسراف اُور ملازمین کی کارکردگی تک تسلی بخش بنانے کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔
اَراکین صوبائی اسمبلی کا اِنتخاب کیا گیا کہ وہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ کریں گے لیکن سب کچھ انتخابی سیاست کی نذر ہو گیا۔ مختلف النظریات سیاسی جماعتوں نے حکومت کرنے کے لئے وزارتوں کو مل بانٹ کر دائرے بنا لئے گئے اور غیرتحریری طور پر طے کر لیا گیا کہ کوئی ایک دوسرے کی کارکردگی کے بارے سوال (اعتراض) نہیں کرے گا! ضلعی نظام آیا تو پشاور جیسے مرکزی شہر کے پہلے بجٹ میں 7 ارب روپے سے زائد کے مالی وسائل غیرترقیاتی اخراجات کے لئے مختص کر دیئے گئے! کیا پہلے ہی صوبائی حکومت کی صورت ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کرنے والے نفوس و اذہان عالیہ کم تھے کہ ’’بلدیاتی نمائندوں نے بھی ’مال مفت دل بے رحم‘ کی روش برقرار رکھی!‘‘ پشاور کی ’سٹی ڈسٹرکٹ حکومت‘ کے 24 شعبہ جات ہیں۔ رواں مالی سال کے باقی ماندہ عرصہ کے دوران ان چوبیس شعبوں کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے کم وبیش 70 لاکھ روپے جبکہ ’’دیگر جاری اخراجات‘‘کی مد میں (ماشاء اللہ) 38 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں! عجب ہے کہ برسرزمین ترقی سے زیادہ اخراجات صرف اور صرف انتظامی مصروفیات (حیلوں بہانوں)کی نذر کرنے کی روایت ماضی کی طرح جوں کی توں برقرار ہے۔ آخری خبریں آنے تک صوبائی اسمبلی ہو یا ضلعی و تحصیل کے ایوان نمائندگان‘ زیادہ سے زیادہ مالی و انتظامی اختیارات حاصل کرنے کی کوششیں‘ جدوجہد‘ سردجنگ‘ رسہ کشی اُور چھینا چھپٹی کا سلسلہ جاری ہے! ’’بھنور میں مجھ کو جو ڈال آتے تو بات تم پر کبھی نہ آتی ۔۔۔ یوں مجھ کو ساحل پہ لا ڈبونا‘ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا!‘‘
No comments:
Post a Comment