Monday, November 16, 2015

Translation: Death of a maulana

Death of a maulana
ایک عالم دین کی رحلت!
کبھی کبھار ہمارے اردگرد کچھ ایسا بھی رونما ہوتا ہے جس پر ہمارا اختیار تو نہیں ہوتا کہ اُس کو روک یا تبدیل کر سکیں لیکن اُس کے بارے میں بس سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک موقع خیبرپختونخوا کے معروف عالم دین کی رحلت تھی‘ جن کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور اُن کا جنازہ اِس قدر بڑا تھا کہ جس کا بیان کرنا محال ہے! وہ کوئی حکمران‘ بادشاہ یا سرمایہ دار شخص نہیں تھے لیکن اُن کے جنازے نے ایسے تمام طبقات کو پیچھے چھوڑ دیا اور ماضی میں ہوئے بڑے جنازوں سے زیادہ بڑے اِس الوداعی اجتماع نے حاضرین کا نیا ریکارڈ بھی قائم کرڈالا۔ سوال یہ ہے کہ نوشہرہ کے قریب اکوڑہ خٹک میں مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ کی تدفین میں اس قدر بڑی تعداد میں سوگوار کیوں شریک ہوئے؟ اُن 86 سالہ بزرگ نے کس طرح لوگوں کے دل میں جگہ بنائی جبکہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ضعیفی کے باعث اپنے طور چل بھی نہیں پاتے تھے اور انہیں ویل چیئر کی ضرورت ہوتی تھی؟ اُن کی نماز جنازہ جی ٹی روڈ کے کنارے‘ اکوڑہ خٹک کی معروف دینی درسگاہ کے بالمقابل قبرستان میں ادا کی گئی جہاں کے وسیع وعریض میدان میں جس قدر گنجائش تھی‘ اُس سے کئی گنا زیادہ افراد نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جمع ہوئے جن میں بوڑھے‘ جوان اور ہرعمر کے افراد شامل تھے اور جوق در جوق شرکت کے لئے آ رہے تھے۔ کوئی پوچھ سکتا تھا کہ آخر اُنہوں نے اپنی دیگر تمام مصروفیات ترک کرکے مولانا کے جنازے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جنازے میں شریک ایک افغان مہاجر محبوب فرط جذبات میں کہہ رہے تھے کہ ’’میں مولانا شیر علی شاہ کا نہ تو شاگرد تھا اور نہ ہی زندگی میں کبھی اُن سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکا لیکن میں اُن کے جنازے میں شرکت کرنے کے لئے اس لئے حاضر ہوا کیونکہ وہ ایک ولی اللہ (اللہ کے دوست) تھے اور اُن کے جنازے میں شرکت کرنا اپنی عاقبت کے لئے باعث و اجر و ثواب ہے۔‘‘ ایسے کسی شخص سے بحث نہیں کی جاسکتی جبکہ وہ کسی اپنے جیسے انسان کے لئے اِس قدر مضبوط اعتقاد رکھتا ہو۔ الغرض اُن کے جنازے میں شرکت کو اپنے لئے اعزاز یا اجروثواب کا باعث سمجھنے والوں کی تعداد غیرمعمولی تھی اور وہ سبھی اسی قسم کا عقیدہ رکھتے تھے کہ مولانا شیر علی شاہ نے خلوص نیت اور بناء کسی دنیاوی لالچ اپنی تمام زندگی دین کے بتائے ہوئے خالص اصولوں کے مطابق بسر کی گویا اس قدر لوگوں کا اعتراف حقیقت اُن کے لئے ایک سند تھا کہ وہ کامیاب و کامران زندگی بسر کرکے دارفانی سے رخصت ہو رہے تھے۔

یہ حقیقت شک وشبے سے بالاتر ہے کہ شیخ الحدیث مولانا شیر علی شاہ نہایت ہی معزز انسان تھے۔ وہ غیرمعمولی حافظہ اور علوم اسلامیہ سے بہرہ مند تھے۔ انہوں نے جامعۃ المدینہ (مدینہ منورہ یونیورسٹی‘ سعودی عرب) سے پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی سند حاصل کی اور اُن کا شمار پاکستان کے اُن چند عالم دین افراد میں ہوتا تھا جنہوں نے دینی علوم کے ساتھ منطق (فلاسفی کے مضمون) میں بھی سند حاصل کررکھی تھی۔ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں رہنے والا ہر شخص اُن سے واقف نہیں تھا لیکن جس کسی کو بھی اُن سے ملاقات کا شرف ملا اور اُن کے خیالات اور شریں بیان سننے کا کبھی اتفاق ہوا تو وہ اُن کا گرویدا ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور پھر یہ تعلق ہمیشہ کے لئے قائم رہا۔ اُن کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والوں کی بڑی تعداد پاکستانی و افغانی طالبعلموں کی ہے جن کی بڑی تعداد اُن کے جنازے میں شرکت اور اُنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔

مولانا شیر علی شاہ کا مذہبی حلقوں کے ساتھ سیاسی حلقوں پر بھی کافی اثرورسوخ تھا۔ ایسے علماء کی تعداد بہت کم ہے جنہیں افغان طالبان اور کچھ حد تک پاکستانی طالبان عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور اِس فہرست میں وہ علماء تو بالکل بھی شامل نہیں جو سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ مولانا شیر علی شاہ کا نام سرفہرست رہا جس میں کراچی کے مرحوم مفتی رشید احمد اور مفتی نظام الدین شموزئی اور چمن (بلوچستان) سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالغنی شامل تھے جو اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ مولانا شیر علی شاہ نے 38 برس تک دارالعلوم حقانیہ کے مدرسے میں علوم اسلامیہ کی تعلیم دی۔ اُن کے شاگرد آج اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اُنہیں مولانا شیر علی شاہ جیسے معلم نصیب ہوئے۔ اُن کے شاگردوں کا شمار ہزاروں میں ہے اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے جنازے میں شریک افراد اُن کے ساتھ کسی نہ کسی دور میں اپنے قریبی تعلق کا بیان کرکے غمزدہ پائے گئے۔

مولانا شیر علی شاہ کے بہت سے مشہور شاگرد تھے۔ جن میں ایک مولانا فضل الرحمن (جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن کے سربراہ) اور مولانا جلال الدین حقانی (افغان مجاہدین کے رہنما جنہوں نے ’حقانی نیٹ ورک‘ کے نام سے روس اور امریکی افواج کے خلاف مسلح مزاحمت کی قیادت کی) شامل ہیں۔ مولانا شیر علی شاہ نے روس اور بعدازاں امریکہ کی افغانستان پر فوج کشی کی نہ صرف مذمت کی تھی بلکہ اُنہوں نے اِس کے خلاف مزاحمت (جہاد) کرنے کو اسلامی نکتۂ نظر سے جائز بھی قراردیا تھا۔

پاکستانی حکام اکثر مولانا شیر علی شاہ کے طالبان پر اثرورسوخ ہونے کی وجہ سے اُن سے مشاورت کیا کرتے تھے اور اُن کی مدد ایسے مواقعوں پر بالخصوص لی جاتی تھی جبکہ کہیں مغویوں کو بازیاب کرانا ہوتا یا جب کبھی عسکریت پسندوں کے ساتھ جنگ بندی پر عمل درآمد ممکن بنانے میں رکاوٹیں حائل ہوا کرتیں تھیں۔ وہ ہمیشہ کامیاب بھی نہیں رہے کیونکہ عسکریت پسند اکثر کسی کی بھی سننے سے انکار کر دیتے لیکن اس کے باوجود وہ امن دوست تھے اور ہمیشہ ہی سے قیام امن کے لئے کوششوں کا حصہ رہتے۔

مولانا شیر علی شاہ کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ اُن کی دینی تعلیمات اور عمل ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے تھے۔ مذہبی رہنما ہونے کی حیثیت سے انہوں نے پیسہ کمانے کو متمع نظر نہیں رکھا اور یہی وجہ تھی کہ حق شناس شخص حق کے بیان میں کبھی مصلحتوں کا شکار نہیں رہا۔ انہوں نے 1990ء کے عام انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا لیکن ناکامی کے بعد انتخابی سیاست سے ہمیشہ کے لئے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنی تمام زندگی مذہبی تعلیمات کے وقف کر دی جس کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں بلند درجے کی عزت و تکریم حاصل ہوئی‘ جس کی ایک جھلک اُن کے جنازے کے موقع پر دیکھی گئی جبکہ جنازے کے شرکاء کی غیرمعمولی تعداد کی وجہ سے گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) اکوڑہ خٹک کے مقام پر کئی گھنٹوں تک بند رہا۔ اُن کا آخری دیدار کرنے کے لئے ہر سمت سے اُمنڈ آنے والے ایک ایسے شخص کی رحلت پر غمگین تھے جس نے پوری زندگی بناء کسی لالچ و طمع اُن کی رہنمائی کی تاکہ وہ عملی و شعوری زندگی میں زیادہ بہتر (محتاط) انسان اور (متقی) مسلمان کے منصب جلیلہ پر فائز ہوسکیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment