Sunday, November 1, 2015

TRANSLATION: The Middle East meltdown!

The Middle East meltdown
مشرق وسطیٰ کے حالات
مشرق وسطیٰ کے کل 17 ممالک ہیں جن میں بحرین‘ قبرص‘ مصر‘ ایران‘ عراق‘ اسرائیل‘ اُردن‘ کویت‘ لبنان‘ عمان‘ فلسطین‘ قطر‘ سعودی عرب‘ شام‘ ترکی‘ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اُور یمن شامل ہیں۔ اِن سترہ میں سے کم از کم گیارہ ممالک ایسے ہیں جہاں کی داخلی صورتحال کئی معاشی و اقتصادی اور امن و امان کے حوالے سے مخدوش ہے۔ ان ہی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا عروج پر دکھائی دیتا ہے جبکہ بیرونی عناصر کی پشت پناہی سے اشرافیہ ملک کی جملہ فیصلہ سازی پر حاوی ہو چکی ہے۔ جن ممالک میں صورتحال مخدوش ہے کہ ان میں بحرین‘ قبرص‘ مصر‘ اُردن‘ کویت‘ لبنان‘ عمان‘ فلسطین‘ قطر‘ سعودی عرب اور یو اے ای شامل ہیں۔ جو امر تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اِن مخدوش ممالک کی تعداد ساٹھ فیصد بنتی ہے!

مشرق وسطیٰ کے تین ممالک (عرق‘ شام اُور یمن بشمول لیبیا) میں خانہ جنگی ہے۔ ان سترہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں 20فیصد ناکام ریاستیں ہیں جو اپنے شہریوں کو اقتصادی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہ ریاستیں انصاف‘ پانی اور بجلی جیسی ضروریات بھی فراہم نہیں کر رہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اس قدر بڑی تعداد میں ناکام ریاستیں نہیں پائی جاتیں۔ ان میں تین ایسی ریاستیں بھی ہیں جو مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ان میں ایران‘اسرائیل اور ترکی شامل ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک میں تین درجاتی تنازعات پائے جاتے ہیں۔ پہلا درجہ شیعہ و سنی کا تنازعہ ہے جس میں ایران اور سعودی عرب ملوث ہیں اور ان ممالک نے شام‘ عراق‘ یمن‘ بحرین اور لبنان میں جنگی محاذ کھول رکھے ہیں۔ دوسرے درجے کا تنازعہ سنی بمقابلہ سنی مسلک کے مخالف دھڑے ہیں جن کی پشت پناہی سعودی عرب‘ قطر اور ترکی کر رہے ہیں۔ تیسرے درجے میں اسلامک اسٹیٹ (داعش) ہے‘ جو سنی مکتبہ فکر ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ چوتھے درجے کے تنازعے میں روس کا عمل دخل بھی نظر آتا ہے‘جس میں چار جمع ایک (شام‘ عراق’ ایران‘ حزب اللہ اور روس) ممالک کا اِتحاد نظر آتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں پہلی مرتبہ امریکہ کی شراکت داری بھی نظر آتی ہے جو گذشتہ چھ دہائیوں میں پہلی مرتبہ رونما ہو رہی ہے اور اس کی ابتدأ پیٹرولیم مصنوعات (ہائیڈور کاربن) کی برآمدات سے ہوئی ہے۔ امریکہ میں توانائی کے محکمے نے کہا ہے کہ اُن کے پاس شیل گیس کے 353 سے 827 کھرب کیوبک فٹ ذخائر ہیں جو 100 سال کی برآمدات کے لئے کافی ہیں۔ روس کے بعد امریکہ دنیا میں قدرتی گیس برآمد کرنے کا والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے اور آئندہ پانچ برس میں ہوسکتا ہے کہ امریکہ اس قابل ہو جائے کہ وہ یومیہ 5 ارب کیوبک فٹ ’مائع گیس (ایل این جی)‘ برآمد کر رہا ہو۔

امریکہ میں اپنے (شیل) گیس کے ذخائر کی دریافت نے اس کے دیگر ممالک کے توانائی ذرائع پر انحصار کو کم کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ ممالک کے داخلی تنازعات میں بہت کم دلچسپی رکھتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کسی برفانی تودے کی پگھل رہا ہے اور حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں تو انہیں دیکھتے ہوئے اس بات کے امکانات محدود دکھائی دیتے ہیں کہ بہتری آئے گی۔ بشارالاسد کی حمایت ایران اور روس کر رہے ہیں جبکہ اُن کے مخالفین کی امداد امریکہ‘ سعودی عرب اور ترکی کی طرف سے جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات تبھی بہتر ہوں گے جبکہ امریکہ‘ روس‘ ترکی‘ سعودی عرب اُور ایران حمایتی دھڑوں کی پشت پناہی ترک کردیں جس کے بعد ان ممالک میں قیام امن کے لئے کسی نتیجہ خیز اتفاق رائے پر پہنچا جائے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment