Sunday, November 1, 2015

TRANSLATION: Another October quake!

Another October quake
زلزلہ: اَیک اُور آفت!
خیبرپختونخوا اُور قبائلی علاقوں پر ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری سوگواری کی کیفیت میں کسی صورت کمی نہیں آ رہی۔ یہاں قدرتی اور غیرقدرتی محرکات کی وجہ سے آنے والی آفات نے معمولات زندگی کو بُری طرح متاثر ہی نہیں بلکہ کئی علاقوں میں تہہ و بالا کر رکھ دیا ہے۔ حالیہ زلزلے نے بھی آفت کی جلتی ہوئی آگ پر مزید تیل چھڑکا ہے۔ اگرچہ چھبیس اکتوبر کے روز آنے والے زلزلے کے جھٹکے پورے ملک میں محسوس کئے گئے لیکن اس سے جانی و مالی نقصانات خیبرپختونخوا اُور ملحقہ قبائلی علاقوں جو کہ افغانستان کی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں میں نسبتاً زیادہ رونما ہوئے۔ زلزلے سے گلگت بلتستان‘ آزاد کمشیر اُور صوبہ پنجاب کے چند حصے بھی زلزلے سے متاثر ہوئے جہاں جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ زلزلے سے صرف زمین ہی نہیں ہلتی بلکہ اس سے خوف کا ایک ماحول بھی طاری ہو جاتا ہے جس کے نفسیاتی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں اگر ان کی کلی پیمائش کی جائے۔ حالیہ زلزلے کا دورانیہ زیادہ لیکن شدت کم تھی جس کی وجہ سے کم پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے کیونکہ جو مقام زلزلے کا نکتۂ آغاز تھا وہ زیرزمین زیادہ گہرائی پر ہونے کی وجہ سے کم جانی و مالی نقصانات کا باعث بنا۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زلزلوں سے ہونے والی تباہی کا تعلق اُن کی گہرائی سے ہوتا ہے۔ زیرزمین تہہ در تہہ پرتوں میں کسی قسم کی تبدیلی جس قدر گہرائی میں ہوگی اتنا ہی کم پیمانے پر نقصانات کا باعث ہوگی۔ حالیہ زلزلہ کا مرکز افغانستان کا شمال مشرقی ضلع جورام میں تھا جو صوبہ بدخشاں میں واقع ہے اور یہ علاقہ پاکستان و چین کی سرحدوں سے ملتا ہے۔ زلزلے کی سطح زمین سے گہرائی 193 سے 212کلومیٹر ناپی گئی۔ اگر ہم 26اکتوبر 2015ء کے زلزلے کا موازنہ 8 اکتوبر 2005ء کے روز آئے زلزلے سے کریں تو دونوں میں فرق یہ ہے کہ دو ہزار پانچ کا زلزلہ سطح زمین سے صرف 15کلومیٹر گہرائی پر تھا اور یہی سبب تھا کہ اُس زلزلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی یعنی 87 ہزار 351 لوگ ہلاک جبکہ 75 ہزار 266 دیگر زخمی ہوئے تھے اور زلزلے سے کم و بیش 28 لاکھ لوگ اپنی رہائشگاہوں سے محروم ہوگئے تھے لیکن دس برس بعد اکتوبر ہی کے مہینے میں آنے والے حالیہ زلزلے سے 300 سے کم ہلاکتیں ہوئیں۔ حالیہ زلزلے سے ہونیو الی کم ہلاکتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زلزلے کے مرکز سے قریب مالاکنڈ ڈویژن کے جن پہاڑی علاقوں میں تباہی ہوئی وہاں آبادی کم تھی اور جن دیگر علاقوں میں زلزلے کی شدت محسوس کی گئی وہ اس کے مرکز (صوبہ بدخشاں‘ افغانستان) سے فاصلے پر تھے۔مالاکنڈ ڈویژن میں ہوئے نقصانات کا زیادہ اثر ضلع شانگلہ میں ہوا جہاں سب ہونیو الی ہلاکتیں مجموعی ہلاکتوں کا پچاس فیصد ہیں‘ اس کے بعد متاثر ہونے والے اضلاع میں سوات‘ چترال‘ لوئر دیر‘ اپر دیر اور بونیر شامل ہیں جبکہ قبائلی علاقوں میں باجوڑ ایجنسی میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔

حالیہ زلزلے کی شدت کیا تھی؟ یہ ایک متنازعہ سوال ہے کیونکہ پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے ریکٹر اسکیل پر 8.1 شدت بتائی گئی جبکہ امریکہ کے زلزلہ پیما مرکز کی جانب سے پہلی شدت 7.7 جبکہ نظرثانی شدہ شدت 7.5بتائی گئی۔ زلزلے کے بارے میں دو مختلف ذرائع سے مختلف اعدادوشمار تعجب خیز رہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر دو ہزار پانچ کے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6 ریکارڈ کی گئی تھی۔

حالیہ زلزلے کے بارے میں موصول ہونے والی اطلاعات یہ تھیں کہ اس کی پھیلاؤ افغانستان سے ملحقہ ممالک تک ہی محدود رہا ہو گا لیکن بعدازاں معلوم ہوا کہ اس سے افغانستان و پاکستان کے علاؤہ بھارت‘ نیپال‘ چین‘ تاجکستان اور کرغستان بھی متاثر ہوئے۔ امریکہ کے جیوگرافکل سروے نامی ادارے کے مطابق پاکستان جو کہ زیرزمین ہونے والی تبدیلیوں کے علاقے پر واقع ہے‘ حالیہ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور افغانستان کے بعد سب سے زیادہ جانی و مالی نقصانات اسی خطے میں رونما ہوئے۔


چھبیس اکتوبر کے روز دوپہر 2بجکر 9منٹ پر زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہونے والا ہے کیونکہ زلزلے کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن کسی معجزے اور اللہ تعالی کے کرم سے درختوں کی طرح جھولنے والی عمارتیں زمین بوس نہیں ہوئیں۔ اُس عالم میں سب سے پہلا خیال یہی ذہن میں اُبھرا کہ کلمۂ طیبہ کا ورد کیا جائے اور اللہ سے معافی‘ مدد و مغفرت طلب کی جائے۔ زلزلہ اُن چند قدرتی آفات میں سے ایک ہے جس کے بارے میں انسانی علوم خاموش ہیں اور انسان اس کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتا ہے۔

زلزلے کے فوراً بعد عموماً تین طرح کے ردعمل دیکھنے میں آتے۔ سب سے پہلے تو عزیزواقارب کی خیریت جاننے کے لئے اُن سے فون پر رابطہ کیا جاتا ہے۔ حال احوال دریافت کیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے پر رہائشگاہوں کے نقصانات اور دیواروں میں آنے والی دراڑوں کو دیکھا جاتا ہے اور تیسرے مرحلے پر اگر عمارتوں کو نقصان پہنچا ہو تو اہل خانہ کو کسی محفوظ مقام یا عزیز و رشتہ داروں کے ہاں منتقل کیا جاتاہے یا پھر حکومتی امداد کا انتظار کیا جاتا ہے جو ایسی صورتحال میں خیمے و بنیادی ضروریات کی دیگر اشیاء مہیا کرتی ہے جہاں عارضی سکونت اختیار کرکے متاثرین کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی رہائشگاہیں پھر سے بحال و تعمیر کر سکیں۔

زلزلے کے فوراً بعد پشاور میں حکومتی ادارے متحرک ہوگئے جہاں نہ صرف پورے صوبے کی صورتحال سے متعلق غوروخوض ہونا شروع ہوا بلکہ قبائلی علاقوں میں زلزلے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی بھی یہیں بیٹھ کر وضع کی گئی۔ فیصلہ سازوں نے ہنگامی اجلاس طلب کئے گئے جبکہ حکومتی و حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورکا دورہ کیا جہاں زلزلے کے زخمیوں کو منتقل کرنے کا سلسلہ تمام دن جاری رہا۔ قلعہ بالاحصار کی ایک دیوار بھی زلزلے کی وجہ سے منہدم ہو گئی۔

زلزلے کی وجہ سے شاہراؤں کا نظام متاثر ہوا‘ جس کے سبب متاثرہ علاقوں تک غذائی اشیاء و دیگر امداد پہنچانے میں رکاوٹیں حائل تھیں۔ ایک تو بالائی علاقوں میں موسم سرد تھا اور دوسرا زمینی راستے منقطع ہو چکے تھے۔ قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)‘ اور صوبائی ادارے ’پروانشیل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)‘ کی طرف نظریں اُٹھیں جو حسب اعلانات عملی طور پر قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جس کا مطلب تھا کہ ان اداروں نے دوہزار پانچ کے زلزلے یا بعدازاں دو ہزار دس کے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے کچھ سبق نہیں سیکھا تھا۔
زلزلے کے فوراً بعد ہیلی کاپٹروں نے پروازیں بھریں اور وہ سیّدو شریف کے اُس ائرپورٹ پر اُترنے لگے جو اِس علاقے میں عسکریت پسندی کی وجہ سے کئی برس تک بند رہا تھا۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اشیائے خوردونوش و دیگر امدادی اشیاء کے ساتھ اہم شخصیات بھی سوات کی صورتحال کا جائزہ لینے اور برسرزمین حقائق بارے جاننے کے علاؤہ ذرائع ابلاغ کی اُس تنقید سے بچنے کی کوشش میں متحرک دکھائی دیں جو مصیبت کی اِس گھڑی میں قیادت سے وابستہ اُمیدوں اور توقعات کو پیش کر رہا تھا۔ وزیراعظم جو امریکہ کے سرکاری دورے کے بعد واپسی میں برطانیہ پہنچ چکے تھے اپنے سرکاری دورے کو مختصر کرکے فوراً وطن واپس پہنچے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تاکہ وہ خیبرپختونخوا کی حکمراں اپنی جماعت کو زیادہ سے زیادہ امدادی سرگرمیوں اور متاثرہ علاقوں میں درکار ضروریات پہنچانے میں مستعد و فعال کرسکیں۔ اس پوری صورتحال میں نجی فلاحی و امدادی اداروں کی کارکردگی بھی قابل ستائش رہی جنہوں نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کی اپنی اپنی استطاعت و صلاحیت کے مطابق فوری ردعمل کا اظہار کیا۔

زلزلے کے بعد وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے متاثرین کے لئے امدادی پیکجز کے اعلانات خوش آئند ہیں لیکن حسب روایت ایسے اعلانات کے بارے میں دیکھنا ہے کہ انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے جس قدر سنجیدگی سے کام لیا جاتا ہے۔ عموماً ایسے مواقعوں پر گرمجوشی میں ایسے امدادی وعدے اور اعلانات بھی کر دیئے جاتے ہیں جنہیں بعدازاں پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا یا ادارے حکمرانوں کی جانب سے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ ماضی کی قدرتی آفات سے متاثر ہونیو الوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جنہیں تاحال بحالی و آبادکاری کے لئے حکومتی وعدوں کے ایفاء ہونے کا انتظار ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں فوجی کاروائی سے متاثرین کی بحالی و آبادکاری کے لئے جون دوہزار چودہ میں اعلان کیا گیا کہ ہر متاثرہ گھر کی تعمیر کے لئے مالی وسائل فراہم کئے جائیں گے لیکن شمالی وزیرستان سمیت جنوبی وزیرستان‘ اورکرزئی‘ کرم‘ خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ اُنہیں دی جانے والی امدادی قطعی ناکافی ہے‘ جس سے اُن کی معیشت و معاشرت کی بحالی و تعمیرنو ممکن نہیں۔ حالیہ زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے حکومت نے اپنے وسائل پر انحصار کرنے کا اعلان کیا اور غیرملکی امداد کے لئے اپیل یہ کہتے ہوئے جاری نہیں کی کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں اور زلزلہ متاثرین کی امداد اپنے ہی وسائل سے کی جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ دعویٰ کہاں تک درست ثابت ہوتا ہے کیونکہ ماضی میں اس قسم کے فخریہ و پرجوش اعلانات ہنوز پورے نہیں کئے جا سکے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment