ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غضب کا سچ!
غضب کا سچ!
پشاور پولیس اِس بات کو فخر سے بیان کرتی ہے کہ گذشتہ دس ماہ کے دوران
صوبائی دارالحکومت میں رونما ہونے والے جرائم کی شرح میں غیرمعمولی کمی آئی
ہے اور اگرچہ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے تین اطراف میں قبائلی علاقوں
سے جڑے پشاور کے لئے دہشت گردی کے اِمکانات تو موجود ہیں لیکن ’پولیس کی
مؤثر حکمت عملی کے باعث عمومی جرائم پیشہ گروہوں کی بڑے پیمانے پر سرکوبی
کی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں اندرون و بیرون شہر کے علاقوں میں کئے گئے ’سرچ
آپریشنز‘کا بطور خاص حوالہ دیا جاتا ہے‘جس میں جرائم پیشہ عناصر کو چن چن
کر نشانہ بنایا گیا لیکن کیا پشاور سمیت خیبرپختونخوا پولیس جرائم پیشہ
عناصر کے لئے خطرے یا خوف و دہشت کا نشان ہے جبکہ اس کے پاس اَفرادی و
تکنیکی سہولیات و وسائل کی بھی کمی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ جرائم پیشہ
عناصر کے بارے میں ڈیٹا (معلومات) جمع کرنے کا مربوط نظام موجود نہیں۔
اَصولی طور پر خیبرپختونخوا کا ہر تھانہ اور ہر تفتیشی مرکز ایک ڈیٹابیس سے
جڑا ہونا چاہئے تھا‘ جس میں معمولی و خصوصی نوعیت کے ہر ملزم و مجرم کے
کوائف بمعہ تصاویر‘ انگلیوں کے نشانات و آنکھ کے اندرونی پردے کے نقش (iris
scanning) محفوظ ہوتی لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے
گروہ یہاں وہاں سرگرم ہے اور پشاور پولیس جس جرائم میں کمی کو اپنی
کارکردگی میں شمار کر رہی ہے دراصل وہ جرائم پیشہ گروہوں کی حکمت عملی ہے
جو پولیس سے نہیں بلکہ فوجی اداروں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں اور اس بات
سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کے لئے بالخصوص اندرونی
علاقوں میں سرچ آپریشنز شروع نہ کردیئے جائیں جو پندرہ اکتوبر سے محرم
الحرام 1437ہجری کے آغاز سے قبل تک زیرغور تھا۔ ایک عرصے سے اِس بات کی
ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ صرف رونما ہونے والے جرائم کی تعداد میں کمی
بیشی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ جرائم کے اصل تدارک یعنی اُن سہولت کاروں
اور جرائم کی پشت پناہی کرنے والے عناصر پر ہاتھ ڈالا جائے جنہوں نے وقت
گزرنے کے ساتھ اپنے مالی و سیاسی قدکاٹھ اور اس سے حاصل ہونے والے
اثرورسوخ‘ میں بے پناہ اضافہ کر لیا ہے‘ جن کے اثاثے اُن کے معلوم آمدنی کے
وسائل سے زیادہ ہیں اور جو کرائے کے مکانات سے عالیشان محلوں اور صنعتوں
کے مالک بن بیٹھے ہیں‘ تو ایسے مشکوک آمدنی کے ذرائع رکھنے والے معززین و
عمائدین کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے‘ جنہیں ملکہ حاصل ہے کہ وہ
ذاتی ترجیحات کے لئے کہیں سیاسی تو کہیں مذہب‘ ذات برادری‘ نسلی و لسانی
اختلافات کو ہوا دیتے حقائق کا علم ہونے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے
اِداروں نے بلدیاتی انتخابات اور بعدازاں محرم سے آغاز سے قبل اپنے حصے کا
کام مکمل نہیں کیا بلکہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ پولیس کی اپنی ہی مرتب
کردہ ’انتہائی خفیہ‘ فہرست بھی سالہاسال سے زیرگردش ہے جس میں قبضہ مافیا
کے نام تو موجود ہیں لیکن ’ناقابل بیان اور شکوک وشبہات سے بھری مصلحتوں کی
بناء پر‘ اِن بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔ بات صرف ضلع پشاور کی
حد تک محدود نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ خیبرپختونخوا کے دیگر
اضلاع تک پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے ’نیٹ ورک‘ ایسے علاقوں میں زیادہ فعال
دکھائی دیتے ہیں جہاں امن و امان کی بظاہر صورتحال تسلی بخش و مثالی ہے!
پشاور پولیس کی بات کی جائے تو دس ماہ کی جس کارکردگی کے بارے میں ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے اُس کے مطابق 376 افراد قتل جبکہ دیگر 508 قتل یا اقدام قتل کی وارداتوں میں زخمی ہوئے۔ ایسے جرائم قتل یا اقدام قتل کے علاؤہ ہیں جن میں درج ’ایف آئی آرز‘ کے مطابق 424افراد زخمی ہوئے۔ 15افراد کا اغوأ ہونا‘ 43خواتین کے اغوأ بارے پولیس کو یہ کہتے ہوئے مطلع کیا گیا کہ اُن کی رضامندی اس میں شامل نہیں تھی اور اغوأ کار زبردستی شادی کرنا چاہتے ہیں! جبکہ 35 اغوأ خاندانی جھگڑوں کا شاخسانہ بتائے گئے۔ دس ماہ کے قلیل عرصے میں پانچ بچوں کا اغوأ اور پندرہ زنا کے مقدمات درج ہونے کے علاؤہ پولیس پر 54 عدد حملے اور 20 عام لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ‘ 170چوریاں‘ 75 گاڑیوں کا چوری ہونا‘ جن میں 15 اسلحے کی نوک چھینی گئیں ہیں۔ دس ماہ میں 102موٹرسائیکلوں کی چوری جبکہ 42 دیگر چھیننے کی کوشش کرنے جیسے جرائم اگرچہ تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن کیا اِن سب پر اظہار افسوس و مذمت کے ساتھ تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے اِنہیں معمولی قرار دے کر اُس کبوتر کی طرح آنکھیں موند لی جائیں جو خطرات کا مقابلہ کرنے کی فطری قوت نہیں رکھتا؟
لمحۂ فکریہ ہے کہ آج کے پشاور میں وہ جرائم ایک معمول بن چکے ہیں جو کبھی بھی اِس ’گل و گلزار شہر‘کے لئے آشنا نہیں تھے۔ حفظ مراتب‘ اَدب و اِحترام کے علاؤہ ہر خاص و عام (امیروغریب) کی جان و مال اُور عزت وآبرو کا جس قدر تقدس واحترام ’’عام‘‘ ہوا کرتا تھا‘ اُس کی اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف علاقوں کے بدمعاش ہی اپنے علاقوں کے رکھوالے ہوا کرتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ کسی کی جان ومال یا عزت کو بُری نگاہ سے دیکھے۔ آج پشاور کے وہ روائتی بدمعاش نہیں رہے۔ تلے دار نقش و نگار والی ٹیڑھی ٹوپی‘ دو گھوڑا بوسکی کی زردی مائل قیمض‘ جس پر سونے کے بٹن‘ کان میں سونے کی چمکتی بالی‘ کھلے پائنچوں والی سفید رنگ کی اُجلی شلوار‘ کندھے پر رومال‘ شلوار کے نیفے میں خنجر اور گلے میں ہار کی طرح قاف چمڑے سے بنا ہوا ’کاش‘ جس میں سلیقے سے لگی ہوئی چمکتی دمکتی گولیوں کی قطاریں اور ہاتھ میں بٹیر عجب رعب و دبدبے کی علامت ہوا کرتا تھا۔ چوک یادگار میں ’بازار سراجاں‘ آج بھی اُس عہد کی یادگار ہے جہاں اسلحے کے لئے چمڑے کے خوبصورت و دیدہ زیب غلاف (جنہیں عرف عام میں ’کاش‘ کہا جاتا ہے) تیار کئے جاتے ہیں‘ لیکن اِس بازار کی پشاور ہی کی طرح وہ پہلے جیسی رونقیں باقی نہیں رہیں! موازنہ کیجئے کہ ماضی کے بدمعاش سفید پوش نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت تو کرتے تھے لیکن خود یا اپنے بچوں کے ذریعے انتخابات میں براہ راست بطور اُمیدوار حصہ نہیں لیتے تھے۔ وہ عام انتخابات میں دھونس و دھاندلی کے لئے اسلحے یا بڑی بڑی مونچھوں والے قدآور محافظوں کا استعمال بھی نہیں کرتے تھے۔ پولیس اور اُن کے درمیان تعلق کھانے پینے یا چھوٹی موٹی (بناء طے شدہ مستقل) ادائیگیوں کی حد تک ہی محدود رہتا۔ اُن بدمعاشوں کے ڈیرے بھارتی فلموں کی نمائش‘ منشیات (چرس و شراب) کے استعمال اور دائرے کی شکل میں بیٹھ کر جوأ کھیلنے کی حد تک محدود رہتے۔ منشیات کی حسب آڈر گھروں کی دہلیز تک فراہمی‘ کرکٹ یا دیگر کھیلوں کے مقابلوں پر سٹہ بازی اُور بھتہ کی پرچیاں ارسال کرنے جیسے جرائم تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پشاور کے بدمعاش آج کے عمائدین کہلانے والے کرداروں سے زیادہ شریف تھے تو غلط نہیں ہوگا۔ یکایک صورتحال اگر مختلف ہو چکی ہے تو اِس سے فائدہ اُٹھانے والے ہمارے آس پاس ہی ہیں۔ الفاظ و اصطلاحات آج بھی وہی ہیں لیکن اِن کے اطلاق و تعارف کے پیمانے تبدیل ہو گئے ہیں۔ لباس کی تراش خراش‘ وضع قطع اُور طریقۂ واردات بدل چکے ہیں‘ جس سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اِداروں بالخصوص ’پشاور پولیس کے پرجوش و پرعزم فیصلہ سازوں‘ کو بھی اپنا طرزفکروعمل قدرے تبدیل کرنا پڑے گا۔
پشاور پولیس کی بات کی جائے تو دس ماہ کی جس کارکردگی کے بارے میں ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے اُس کے مطابق 376 افراد قتل جبکہ دیگر 508 قتل یا اقدام قتل کی وارداتوں میں زخمی ہوئے۔ ایسے جرائم قتل یا اقدام قتل کے علاؤہ ہیں جن میں درج ’ایف آئی آرز‘ کے مطابق 424افراد زخمی ہوئے۔ 15افراد کا اغوأ ہونا‘ 43خواتین کے اغوأ بارے پولیس کو یہ کہتے ہوئے مطلع کیا گیا کہ اُن کی رضامندی اس میں شامل نہیں تھی اور اغوأ کار زبردستی شادی کرنا چاہتے ہیں! جبکہ 35 اغوأ خاندانی جھگڑوں کا شاخسانہ بتائے گئے۔ دس ماہ کے قلیل عرصے میں پانچ بچوں کا اغوأ اور پندرہ زنا کے مقدمات درج ہونے کے علاؤہ پولیس پر 54 عدد حملے اور 20 عام لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ‘ 170چوریاں‘ 75 گاڑیوں کا چوری ہونا‘ جن میں 15 اسلحے کی نوک چھینی گئیں ہیں۔ دس ماہ میں 102موٹرسائیکلوں کی چوری جبکہ 42 دیگر چھیننے کی کوشش کرنے جیسے جرائم اگرچہ تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن کیا اِن سب پر اظہار افسوس و مذمت کے ساتھ تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے اِنہیں معمولی قرار دے کر اُس کبوتر کی طرح آنکھیں موند لی جائیں جو خطرات کا مقابلہ کرنے کی فطری قوت نہیں رکھتا؟
لمحۂ فکریہ ہے کہ آج کے پشاور میں وہ جرائم ایک معمول بن چکے ہیں جو کبھی بھی اِس ’گل و گلزار شہر‘کے لئے آشنا نہیں تھے۔ حفظ مراتب‘ اَدب و اِحترام کے علاؤہ ہر خاص و عام (امیروغریب) کی جان و مال اُور عزت وآبرو کا جس قدر تقدس واحترام ’’عام‘‘ ہوا کرتا تھا‘ اُس کی اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف علاقوں کے بدمعاش ہی اپنے علاقوں کے رکھوالے ہوا کرتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ کسی کی جان ومال یا عزت کو بُری نگاہ سے دیکھے۔ آج پشاور کے وہ روائتی بدمعاش نہیں رہے۔ تلے دار نقش و نگار والی ٹیڑھی ٹوپی‘ دو گھوڑا بوسکی کی زردی مائل قیمض‘ جس پر سونے کے بٹن‘ کان میں سونے کی چمکتی بالی‘ کھلے پائنچوں والی سفید رنگ کی اُجلی شلوار‘ کندھے پر رومال‘ شلوار کے نیفے میں خنجر اور گلے میں ہار کی طرح قاف چمڑے سے بنا ہوا ’کاش‘ جس میں سلیقے سے لگی ہوئی چمکتی دمکتی گولیوں کی قطاریں اور ہاتھ میں بٹیر عجب رعب و دبدبے کی علامت ہوا کرتا تھا۔ چوک یادگار میں ’بازار سراجاں‘ آج بھی اُس عہد کی یادگار ہے جہاں اسلحے کے لئے چمڑے کے خوبصورت و دیدہ زیب غلاف (جنہیں عرف عام میں ’کاش‘ کہا جاتا ہے) تیار کئے جاتے ہیں‘ لیکن اِس بازار کی پشاور ہی کی طرح وہ پہلے جیسی رونقیں باقی نہیں رہیں! موازنہ کیجئے کہ ماضی کے بدمعاش سفید پوش نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت تو کرتے تھے لیکن خود یا اپنے بچوں کے ذریعے انتخابات میں براہ راست بطور اُمیدوار حصہ نہیں لیتے تھے۔ وہ عام انتخابات میں دھونس و دھاندلی کے لئے اسلحے یا بڑی بڑی مونچھوں والے قدآور محافظوں کا استعمال بھی نہیں کرتے تھے۔ پولیس اور اُن کے درمیان تعلق کھانے پینے یا چھوٹی موٹی (بناء طے شدہ مستقل) ادائیگیوں کی حد تک ہی محدود رہتا۔ اُن بدمعاشوں کے ڈیرے بھارتی فلموں کی نمائش‘ منشیات (چرس و شراب) کے استعمال اور دائرے کی شکل میں بیٹھ کر جوأ کھیلنے کی حد تک محدود رہتے۔ منشیات کی حسب آڈر گھروں کی دہلیز تک فراہمی‘ کرکٹ یا دیگر کھیلوں کے مقابلوں پر سٹہ بازی اُور بھتہ کی پرچیاں ارسال کرنے جیسے جرائم تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پشاور کے بدمعاش آج کے عمائدین کہلانے والے کرداروں سے زیادہ شریف تھے تو غلط نہیں ہوگا۔ یکایک صورتحال اگر مختلف ہو چکی ہے تو اِس سے فائدہ اُٹھانے والے ہمارے آس پاس ہی ہیں۔ الفاظ و اصطلاحات آج بھی وہی ہیں لیکن اِن کے اطلاق و تعارف کے پیمانے تبدیل ہو گئے ہیں۔ لباس کی تراش خراش‘ وضع قطع اُور طریقۂ واردات بدل چکے ہیں‘ جس سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اِداروں بالخصوص ’پشاور پولیس کے پرجوش و پرعزم فیصلہ سازوں‘ کو بھی اپنا طرزفکروعمل قدرے تبدیل کرنا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment