ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مسجد مہابت خان!
مسجد مہابت خان!
اسلام کے سیاسی و سماجی اور معاشرتی نظام میں مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں
بلکہ یہ ایک ایسا مرکز ہے جہاں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اہل علاقہ
اپنے مسائل کے حل کے لئے جمع ہوتے ہوں اور اسی کے ذریعے معاشرے کی کمزور و
توانا اکائیاں ایک ایسے سماجی رشتے و تعلق میں بندھ جاتے ہیں‘ جس میں ایک
دوسرے کے دکھ درد کا احساس بھی رہتا ہے۔ مساجد کے ’حلقہ بگوش‘ ہی سمجھ سکتے
ہیں کہ مسجد کے ماحول کی تاثیر و کیفیت کسی بھی دوسرے مقام پر ہونے والے
زیادہ بڑے اجتماع کے مقابلے کتنی منفرد و مختلف ہوتی ہے۔ یہی سبب رہا کہ
مسلمانوں نے جہاں کہیں بھی حکمرانی کی‘ وہاں اگر پہلے سے مساجد موجود بھی
تھیں تو نہ صرف اُن کی بحالی و مرمت پر خاص توجہ دی بلکہ اپنے عہد کے مخصوص
فن تعمیر کے نادر نمونے تخلیق کئے‘ جن میں پشاور کی معروف ’مسجد مہابت
خان‘ بھی شامل ہے لیکن محکمۂ اوقاف خیبرپختونخوا کی زیرنگرانی یہ مسجد
سنجیدہ توجہ چاہتی ہے کیونکہ 26اکتوبر کے زلزلے نے اِس مسجد کے چند حصوں کو
متاثر کیا‘ جبکہ دیواروں کے پلستر‘ اُن پر قدیمی نقش و نگار کی بحالی اور
مسجد میں قائم تجاوزات ختم کرنے کی بجائے معاملات کو کچھ اِس انداز میں
’جوں کی توں ڈگر‘ پر چلایا جارہا ہے‘ جس سے چند افراد بشمول سرکاری اہلکار
بھرپور مالی فائدہ اُٹھا رہے ہیں!
مسجد مہابت خان کے کئی تعارفی حوالے ہیں۔ یہ تاریخی مسجد ہے۔ پاکستان کی ایک درجن اہم مساجد میں اس کا شمار کیا گیا ہے اور فن تعمیر کے جس عہد کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے‘ اُس کا تعلق ’پشاور اور خطے کے اُن ممالک سے بھی ہے‘ جو ایک درخشاں ماضی رکھتے تھے لیکن اگر مسجد کی ظاہری شان و شوکت‘ اس کی حالت زار بہتر بنانے پر فوری توجہ نہیں دی جاتی تو اس سے خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدا نہ کرے کہ وہ وقت آئے جب ’مہابت خان مسجد‘ کی خوبصورتی صرف تصاویر میں دکھائی دے اور زلزلے جیسی کسی آفت کی صورت اس کا کمزور ہوا ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے جو مصروف ترین تجارتی مراکز کے سنگم پر واقع ہے اور ایسی کسی صورتحال میں بڑضے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سبب بنے گا۔ اس حوالے سے دردمند مؤقف رکھنے والے ایک قاری عبدالرحمن صراف کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ اِرسال کیا ہے‘ جس میں ایسی درجنوں بے قاعدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ مثال کے طور پر مسجد میں باقاعدگی سے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور یہ چندہ ہفتہ وار نماز جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں زیادہ اہتمام سے اکٹھا کرنا ایک ایسا معمول ہے‘ جو قطعی غیرمنطقی ہے کیونکہ محکمۂ اوقاف مسجد کے جملہ اخراجات ادا کرنے کے لئے ذمہ دار ہے اور مہابت خان کے اردگرد ایسی جائیداد بھی ہے جس کا کرایہ محکمۂ اوقاف کو ملتا ہے گویا مسجد مہابت خان ایک خزانے کی مانند ہے جس کی لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی لیکن اِس کا عشرعشیر بھی اس کی ترقی و بحال پر خرچ نہیں کیا جاتا۔
مسجد مہابت خان کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ میناروں کے نیچے قائم دکانیں کشادہ کرنے کے لئے اختیار کردہ طریقۂ کار ہے‘ جس کی اجازت دینے اور تجاوزت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسجد کے وہ تہہ خانے اور کمرے جو مسافروں کے قیام اور یہاں درس و تدریس کرنے والوں کی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کئے گئے تھے‘ اُنہیں دکانیں بنا کر کرائے پر دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے آئندہ کسی دورۂ پشاور کے دوران مسجد مہابت تشریف لائیں جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بلمقابل اور وزیراعلیٰ کی رہائشگاہ سے چند منٹ کی ڈرائیو پر ہے اور اپنی آنکھوں سے خود مشاہدہ کریں کہ کس طرح مسجد مہابت خان توجہ چاہتی ہے اور کس طرح مسجد کو آمدنی کا ذریعہ بنانے والوں نے اس کے تجارتی (کمرشل) استعمال کو جاری رکھا ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مالی سال 2014-15ء کے دوران ’مسجد مہابت خان‘ کی تعمیر و ترقی اور بحالی کے لئے 5کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے اور کیوں ناکافی رہے‘ اس بارے میں الگ سے تحقیقات کی ضرورت ہے! جب اس سلسلے میں محکمۂ اوقاف سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا ہے کہ ’’مسجد مہابت خان کے مخصوص فن تعمیر اور نقش و نگار کے ایسے ماہرین نہیں مل رہے جو بحالی کے عمل آگے بڑھائیں جبکہ وزیر اوقاف قدرے مختلف نکتۂ نظر رکھتے ہیں اور انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز سینئر اہلکاروں کی عدم دلچسپی اور نااہلی کی وجہ سے مسجد مہابت خان کی تعمیر و بحالی کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔‘‘ محکمۂ اوقاف اُور وزیر اوقاف کے بعد تیسرا متعلقہ محکمہ آثار قدیمہ کا ہے جنہوں نے یہ کہہ کر گلوخلاصی کرا لی کہ مسجد محکمۂ اوقاف کے پاس ہے اُور وہ اِس سلسلے میں نہ تو تبصرہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی انہیں کسی ایسے اجلاس میں مدعو کیا گیا جس میں مسجد مہابت خان کے بارے میں غوروخوض کیا گیا ہو۔ صوبائی وزیر کے بقول سابق سیکرٹری اوقاف احمد حسن کی وجہ سے مختص مالی وسائل بروقت مسجد کی بحالی پر خرچ نہ ہوسکے! اُور اب جبکہ نئے سیکرٹری تشریف لا چکے ہیں تو یہ تعمیرومرمت اور بحالی کا کام جلد شروع ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ 1660ء میں پشاور کے مغل گورنر ’مہابت خان‘ نے اِس مسجد کو تعمیر کروایا تھا اور وہ شاہ جہان و اورنگزیب کے مغلیہ ادوار بطور گورنر یہاں تعینات رہے تھے۔ ماضی میں پشاور کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز رکھنے والی مہابت خان آج بھی وسعت و کشادگی کا احساس لئے ہوئے ہے۔ مسجد کے صحن سنگ مرمر کا فرش اور تالاب کو جس رعونت و بیدردی کے ساتھ تعمیر کیا گیا وہ اصل عمارت کے فن تعمیر سے جوڑ نہیں رکھتا۔ لاہور کی بادشاہی اور وزیرخان مساجد یا پھر ٹھٹھہ کی شاہی مسجد سے موازنہ کرنے پر ’مہابت خان مسجد‘ پشاور نہ تو خوبصورتی اور نہ ہی اس کی تعمیراتی خوبیوں کا شمار ہی کم ہے‘ ضرورت ’پشاور کا احساس‘ اور اِس کے اثاثوں کی اہمیت سمجھنے کی ہے۔ جن فیصلہ سازوں کے لئے تاریخ اور ماضی اہمیت نہیں رکھتے اُنہیں یہی سوچ لینا چاہئے کہ کچھ بھی ہو‘ وہ مسجد کو اللہ کا گھر ہی سمجھ کر اس کی تعمیروبحالی سے متعلق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ایک محکمہ دوسرے اور دوسرا تیسرے کی جانب انگلیاں اُٹھا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی نشاندہی یا مقامی افراد کی جانب سے تنقید کو تعصب کی عینک پہن کر دیکھنے اور ٹالنے کی بجائے اللہ کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے ’مسجد مہابت خان‘ کو دیکھیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد ’مسجد مہابت خان‘ کو دیکھنے آتی ہے تو کیا اس کے درودیواروں سے مٹتے ہوئے نقوش‘ اکھڑتے ہوئے پلستر اور صفائی کی واجبی صورتحال کا مشاہدہ کرنے والوں کے ذہنوں میں ’اچھا‘ تاثر اُبھرتا ہوگا؟
مسجد مہابت خان کے کئی تعارفی حوالے ہیں۔ یہ تاریخی مسجد ہے۔ پاکستان کی ایک درجن اہم مساجد میں اس کا شمار کیا گیا ہے اور فن تعمیر کے جس عہد کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے‘ اُس کا تعلق ’پشاور اور خطے کے اُن ممالک سے بھی ہے‘ جو ایک درخشاں ماضی رکھتے تھے لیکن اگر مسجد کی ظاہری شان و شوکت‘ اس کی حالت زار بہتر بنانے پر فوری توجہ نہیں دی جاتی تو اس سے خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ خدا نہ کرے کہ وہ وقت آئے جب ’مہابت خان مسجد‘ کی خوبصورتی صرف تصاویر میں دکھائی دے اور زلزلے جیسی کسی آفت کی صورت اس کا کمزور ہوا ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے جو مصروف ترین تجارتی مراکز کے سنگم پر واقع ہے اور ایسی کسی صورتحال میں بڑضے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سبب بنے گا۔ اس حوالے سے دردمند مؤقف رکھنے والے ایک قاری عبدالرحمن صراف کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ اِرسال کیا ہے‘ جس میں ایسی درجنوں بے قاعدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ مثال کے طور پر مسجد میں باقاعدگی سے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور یہ چندہ ہفتہ وار نماز جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں زیادہ اہتمام سے اکٹھا کرنا ایک ایسا معمول ہے‘ جو قطعی غیرمنطقی ہے کیونکہ محکمۂ اوقاف مسجد کے جملہ اخراجات ادا کرنے کے لئے ذمہ دار ہے اور مہابت خان کے اردگرد ایسی جائیداد بھی ہے جس کا کرایہ محکمۂ اوقاف کو ملتا ہے گویا مسجد مہابت خان ایک خزانے کی مانند ہے جس کی لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی لیکن اِس کا عشرعشیر بھی اس کی ترقی و بحال پر خرچ نہیں کیا جاتا۔
مسجد مہابت خان کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ میناروں کے نیچے قائم دکانیں کشادہ کرنے کے لئے اختیار کردہ طریقۂ کار ہے‘ جس کی اجازت دینے اور تجاوزت کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسجد کے وہ تہہ خانے اور کمرے جو مسافروں کے قیام اور یہاں درس و تدریس کرنے والوں کی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کئے گئے تھے‘ اُنہیں دکانیں بنا کر کرائے پر دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے آئندہ کسی دورۂ پشاور کے دوران مسجد مہابت تشریف لائیں جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بلمقابل اور وزیراعلیٰ کی رہائشگاہ سے چند منٹ کی ڈرائیو پر ہے اور اپنی آنکھوں سے خود مشاہدہ کریں کہ کس طرح مسجد مہابت خان توجہ چاہتی ہے اور کس طرح مسجد کو آمدنی کا ذریعہ بنانے والوں نے اس کے تجارتی (کمرشل) استعمال کو جاری رکھا ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مالی سال 2014-15ء کے دوران ’مسجد مہابت خان‘ کی تعمیر و ترقی اور بحالی کے لئے 5کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ یہ پیسے کہاں خرچ ہوئے اور کیوں ناکافی رہے‘ اس بارے میں الگ سے تحقیقات کی ضرورت ہے! جب اس سلسلے میں محکمۂ اوقاف سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا ہے کہ ’’مسجد مہابت خان کے مخصوص فن تعمیر اور نقش و نگار کے ایسے ماہرین نہیں مل رہے جو بحالی کے عمل آگے بڑھائیں جبکہ وزیر اوقاف قدرے مختلف نکتۂ نظر رکھتے ہیں اور انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز سینئر اہلکاروں کی عدم دلچسپی اور نااہلی کی وجہ سے مسجد مہابت خان کی تعمیر و بحالی کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔‘‘ محکمۂ اوقاف اُور وزیر اوقاف کے بعد تیسرا متعلقہ محکمہ آثار قدیمہ کا ہے جنہوں نے یہ کہہ کر گلوخلاصی کرا لی کہ مسجد محکمۂ اوقاف کے پاس ہے اُور وہ اِس سلسلے میں نہ تو تبصرہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی انہیں کسی ایسے اجلاس میں مدعو کیا گیا جس میں مسجد مہابت خان کے بارے میں غوروخوض کیا گیا ہو۔ صوبائی وزیر کے بقول سابق سیکرٹری اوقاف احمد حسن کی وجہ سے مختص مالی وسائل بروقت مسجد کی بحالی پر خرچ نہ ہوسکے! اُور اب جبکہ نئے سیکرٹری تشریف لا چکے ہیں تو یہ تعمیرومرمت اور بحالی کا کام جلد شروع ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ 1660ء میں پشاور کے مغل گورنر ’مہابت خان‘ نے اِس مسجد کو تعمیر کروایا تھا اور وہ شاہ جہان و اورنگزیب کے مغلیہ ادوار بطور گورنر یہاں تعینات رہے تھے۔ ماضی میں پشاور کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز رکھنے والی مہابت خان آج بھی وسعت و کشادگی کا احساس لئے ہوئے ہے۔ مسجد کے صحن سنگ مرمر کا فرش اور تالاب کو جس رعونت و بیدردی کے ساتھ تعمیر کیا گیا وہ اصل عمارت کے فن تعمیر سے جوڑ نہیں رکھتا۔ لاہور کی بادشاہی اور وزیرخان مساجد یا پھر ٹھٹھہ کی شاہی مسجد سے موازنہ کرنے پر ’مہابت خان مسجد‘ پشاور نہ تو خوبصورتی اور نہ ہی اس کی تعمیراتی خوبیوں کا شمار ہی کم ہے‘ ضرورت ’پشاور کا احساس‘ اور اِس کے اثاثوں کی اہمیت سمجھنے کی ہے۔ جن فیصلہ سازوں کے لئے تاریخ اور ماضی اہمیت نہیں رکھتے اُنہیں یہی سوچ لینا چاہئے کہ کچھ بھی ہو‘ وہ مسجد کو اللہ کا گھر ہی سمجھ کر اس کی تعمیروبحالی سے متعلق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ایک محکمہ دوسرے اور دوسرا تیسرے کی جانب انگلیاں اُٹھا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی نشاندہی یا مقامی افراد کی جانب سے تنقید کو تعصب کی عینک پہن کر دیکھنے اور ٹالنے کی بجائے اللہ کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے ’مسجد مہابت خان‘ کو دیکھیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد ’مسجد مہابت خان‘ کو دیکھنے آتی ہے تو کیا اس کے درودیواروں سے مٹتے ہوئے نقوش‘ اکھڑتے ہوئے پلستر اور صفائی کی واجبی صورتحال کا مشاہدہ کرنے والوں کے ذہنوں میں ’اچھا‘ تاثر اُبھرتا ہوگا؟
No comments:
Post a Comment