ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پیپلزپارٹی: حسب حال توقعات!
پیپلزپارٹی: حسب حال توقعات!
پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے ’خیبرپختونخوا‘ کی اہمیت کم ترین سطح پر اگر نہ
ہوتی تو یہاں کے معاملات کو بہتر بنانے کے لئے مرکزی قیادت کی جانب سے بہت
پہلے ٹھوس عملی اقدامات دیکھنے کو ملتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی کے دیرینہ
کارکنوں (جیالوں) میں مایوسی پائی جاتی ہے اور ’بھٹو ازم‘ سے روحانی
وابستگی و تعلق رکھنے والے اپنے جذبات بصورت وراثت آنے والی نسلوں کو منتقل
نہیں کر سکتے۔ صورتحال اِنتہائی مایوس کن ہے کہ ’بھٹو کے سپاہی‘ جب خود کو
یہ باور نہیں کراسکتے کہ وہ ’پیپلزپارٹی‘ کا حصہ ہیں تو بھلا دوسروں کو
کیسے ’روٹی کپڑے اور مکان‘ کے وعدوں کی جانب راغب کر سکیں گے! المیہ ہے کہ
ایک وقت تھا جب دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے پیپلزپارٹی کا عام کارکن سب
سے زیادہ مطمئن و خوشحال ہوتا تھا لیکن اب ایکویشن تبدیل ہو چکی ہے۔ جنہوں
نے پارٹی کو منظم کرنے کے لئے قربانیاں دیں۔ جیلیں کاٹیں اور جانی و مالی
قربانیاں دیں لیکن انہیں ’گھاس تک ڈالنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔‘ اس
سلسلے میں سب سے زیادہ مایوسی ’شعبۂ خواتین‘ سے تعلق رکھنے والی اُن
کارکنوں میں پائی جاتی ہے جو متوسط و غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور
اتنے وسائل نہیں رکھتیں کہ اپنی جیب سے پارٹی کے تنظیمی اجلاس منعقد کر
سکیں۔
پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن گلہ مند ہیں کہ جن افراد نے وزیر و مشیر اور سینیٹرز بن کر نیک نامی اُور مالی وسائل کمائے وہ اِس بات کو ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ایک فیصد بھی پارٹی کی تنظیم کے خرچ کر سکیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے صوبائی صدارت جن سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کے متعدد تجربے کئے گئے وہ بھی ناکام ہی رہے تو صورتحال یہ ہے کہ ’پیپلزپارٹی کی تنظیم سازی بشمول رکنیت سازی میں سرمایہ کاری‘ کرنے والا کوئی نہیں‘ تو اِس کی بنیادی وجوہات میں تحریک انصاف بھی شامل ہے جس نے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ قدم جمائے ہیں اور ابتدأ میں تحریک انصاف سے توقع یہ تھی کہ بے رحم احتساب اور بدعنوانی کے خلاف واضح مؤقف رکھنے والی جماعت روائتی و لچک دار سیاست کا مظاہرہ نہیں کرے گی لیکن جس انداز میں حکومت بنانے اور بچانے کے لئے تحریک انصاف نے پارلیمانی اتحاد کئے‘ اُسے دیکھتے ہوئے ماضی کے مصلحت شناسوں کی یاد آ جاتی ہے۔ بہرکیف صوبائی اسمبلی کی داخلی سیاست ہو یا ضمنی و بلدیاتی انتخابات کے مراحل ایسے ایسے اتحاد بھی کئے گئے جو تعجب خیز تھے۔ اگر تحریک انصاف کو کسی چیز سے خطرہ ہے تو وہ داخلی انتشار و بے چینی ہے دوسری کسی سیاسی جماعت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اسے نقصان پہنچا سکے۔ البتہ آئندہ عام انتخابات سے قبل اگر پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا کی سطح پر ’تنظیم سازی‘ کا عمل شروع نہیں کرتی تو سب سے زیادہ متوقع خسارہ سندھ کی حد تک پہلے ہی سکڑ کر رہ جانے والی جماعت کو ہوگا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی نے رکنیت سازی کے لئے جو ’آن لائن‘ طریقۂ کار متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا‘ اُسے بھی فی الوقت روک دیا گیا ہے جو غیرمنطقی اقدام ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس گنوانے کے لئے اگر کسی ایک جنس کی کمی ہے تو وہ وقت ہے۔ پارٹی کے دیرینہ کارکن نئی تنظیم سازی میں عہدہ لینے سے گھبرا رہے ہیں اور اگر کوئی سامنے نہیں آ رہا تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ سطح پر پیپلزپارٹی دو واضح گروہوں میں تقسیم ہے اور رواں ہفتے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ’آرگنائزر کمیٹی‘ بنائی جائے جس سے ماضی کے ’تجربہ کاروں‘ کو الگ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سوائے خانزادہ خان کسی کو شریک نہ کرنے کا فیصلہ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو بچانا مقصود ہے تو اس کے لئے ’نوجوان قیادت‘ کو سامنے لانا ہوگا۔ بصورت دیگر بچت کی کوئی صورت نہیں۔
پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا کی تنظیم سازی کا تجربہ رکھنے والے ایک سے زیادہ عہدیدار ’آن لائن رکنیت سازی‘ کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور کہتے ہیں اس طرح ’من پسند افراد‘ بڑی تعداد میں پارٹی فیصلوں پر مسلط ہو جائیں گے جو کہ پارٹی کے لئے ایک نئے بحران کا سبب بنے گی۔ دوسرا اعتراض اضلاع کی سطح پر پارٹی کے انتخابات مرحلہ وار انداز میں کرانے سے متعلق ہے۔ بہت سے رہنما چاہتے ہیں کہ انتخابات ایک ہی مرحلے میں ہوں اور بیک وقت ہوں۔ یاد رہے کہ ستمبر 2015ء میں پیپلزپارٹی کی ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر‘ پروفیسر این ڈی خان اور اورنگزیب برکی شامل تھے‘ جنہیں تین ہفتوں میں پالیسی مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن یہ تین ہفتے گزرے مزید کئی ہفتے گزر گئے ہیں۔ ساری کی ساری اُمیدیں بلاول بھٹو زرداری سے ہیں جنہیں پشاور میں مستقل ڈیرے ڈالنا ہوں گے اور ’خوشامد‘ کے ماہر رہنماؤں سے خود کو الگ رکھنا ہوگا۔ حال ہی میں انہوں نے پشاور کا دورہ کیا لیکن زحمت ہی نہیں کی کہ تنظیم سازی کے بارے میں ایک عدد اجلاس ہی طلب کر لیتے! بیرسٹر مسعود کوثر کے گھر پر بلاول کی آمد سے قبل جو اجلاس ہوا بھی تو اس میں سبھی مدعو نہیں تھے یا پھر ایک بڑی تعداد نے شرکت کو ضروری نہیں سمجھا! کیا پیپلزپارٹی سے مفادات وابستہ کرنے والوں کو مزید کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں رہی؟ آئندہ دو ماہ نہایت ہی اہم ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آرگنائزر کمیٹی کی تشکیل میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اس کے تحت تنظیم سازی و انٹراپارٹی الیکشنز کے لئے حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ماضی کو غلطیوں سے کتنا سبق سیکھا جاتا ہے۔ ناراض کارکنوں کو منانے اور پارٹی میں جان ڈالنے کے لئے ایک فعال ’صوبائی شعبۂ نشرواشاعت‘ ازحد ضروری ہے‘ اگر پیپلزپارٹی قانون ساز اسمبلی میں خاطرخواہ حزب اختلاف کا کردار ادا نہیں کرسکتی اور ایوان کے باہر مظاہرے کرنے کی افرادی قوت بھی نہیں رکھتی تو کم سے کم ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کی پیالی میں تو طوفان برپا کر سکتی ہے!
پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن گلہ مند ہیں کہ جن افراد نے وزیر و مشیر اور سینیٹرز بن کر نیک نامی اُور مالی وسائل کمائے وہ اِس بات کو ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ایک فیصد بھی پارٹی کی تنظیم کے خرچ کر سکیں۔ پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے صوبائی صدارت جن سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کے متعدد تجربے کئے گئے وہ بھی ناکام ہی رہے تو صورتحال یہ ہے کہ ’پیپلزپارٹی کی تنظیم سازی بشمول رکنیت سازی میں سرمایہ کاری‘ کرنے والا کوئی نہیں‘ تو اِس کی بنیادی وجوہات میں تحریک انصاف بھی شامل ہے جس نے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ قدم جمائے ہیں اور ابتدأ میں تحریک انصاف سے توقع یہ تھی کہ بے رحم احتساب اور بدعنوانی کے خلاف واضح مؤقف رکھنے والی جماعت روائتی و لچک دار سیاست کا مظاہرہ نہیں کرے گی لیکن جس انداز میں حکومت بنانے اور بچانے کے لئے تحریک انصاف نے پارلیمانی اتحاد کئے‘ اُسے دیکھتے ہوئے ماضی کے مصلحت شناسوں کی یاد آ جاتی ہے۔ بہرکیف صوبائی اسمبلی کی داخلی سیاست ہو یا ضمنی و بلدیاتی انتخابات کے مراحل ایسے ایسے اتحاد بھی کئے گئے جو تعجب خیز تھے۔ اگر تحریک انصاف کو کسی چیز سے خطرہ ہے تو وہ داخلی انتشار و بے چینی ہے دوسری کسی سیاسی جماعت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اسے نقصان پہنچا سکے۔ البتہ آئندہ عام انتخابات سے قبل اگر پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا کی سطح پر ’تنظیم سازی‘ کا عمل شروع نہیں کرتی تو سب سے زیادہ متوقع خسارہ سندھ کی حد تک پہلے ہی سکڑ کر رہ جانے والی جماعت کو ہوگا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی نے رکنیت سازی کے لئے جو ’آن لائن‘ طریقۂ کار متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا‘ اُسے بھی فی الوقت روک دیا گیا ہے جو غیرمنطقی اقدام ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس گنوانے کے لئے اگر کسی ایک جنس کی کمی ہے تو وہ وقت ہے۔ پارٹی کے دیرینہ کارکن نئی تنظیم سازی میں عہدہ لینے سے گھبرا رہے ہیں اور اگر کوئی سامنے نہیں آ رہا تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ سطح پر پیپلزپارٹی دو واضح گروہوں میں تقسیم ہے اور رواں ہفتے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ’آرگنائزر کمیٹی‘ بنائی جائے جس سے ماضی کے ’تجربہ کاروں‘ کو الگ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سوائے خانزادہ خان کسی کو شریک نہ کرنے کا فیصلہ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو بچانا مقصود ہے تو اس کے لئے ’نوجوان قیادت‘ کو سامنے لانا ہوگا۔ بصورت دیگر بچت کی کوئی صورت نہیں۔
پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا کی تنظیم سازی کا تجربہ رکھنے والے ایک سے زیادہ عہدیدار ’آن لائن رکنیت سازی‘ کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور کہتے ہیں اس طرح ’من پسند افراد‘ بڑی تعداد میں پارٹی فیصلوں پر مسلط ہو جائیں گے جو کہ پارٹی کے لئے ایک نئے بحران کا سبب بنے گی۔ دوسرا اعتراض اضلاع کی سطح پر پارٹی کے انتخابات مرحلہ وار انداز میں کرانے سے متعلق ہے۔ بہت سے رہنما چاہتے ہیں کہ انتخابات ایک ہی مرحلے میں ہوں اور بیک وقت ہوں۔ یاد رہے کہ ستمبر 2015ء میں پیپلزپارٹی کی ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر‘ پروفیسر این ڈی خان اور اورنگزیب برکی شامل تھے‘ جنہیں تین ہفتوں میں پالیسی مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن یہ تین ہفتے گزرے مزید کئی ہفتے گزر گئے ہیں۔ ساری کی ساری اُمیدیں بلاول بھٹو زرداری سے ہیں جنہیں پشاور میں مستقل ڈیرے ڈالنا ہوں گے اور ’خوشامد‘ کے ماہر رہنماؤں سے خود کو الگ رکھنا ہوگا۔ حال ہی میں انہوں نے پشاور کا دورہ کیا لیکن زحمت ہی نہیں کی کہ تنظیم سازی کے بارے میں ایک عدد اجلاس ہی طلب کر لیتے! بیرسٹر مسعود کوثر کے گھر پر بلاول کی آمد سے قبل جو اجلاس ہوا بھی تو اس میں سبھی مدعو نہیں تھے یا پھر ایک بڑی تعداد نے شرکت کو ضروری نہیں سمجھا! کیا پیپلزپارٹی سے مفادات وابستہ کرنے والوں کو مزید کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں رہی؟ آئندہ دو ماہ نہایت ہی اہم ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آرگنائزر کمیٹی کی تشکیل میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اس کے تحت تنظیم سازی و انٹراپارٹی الیکشنز کے لئے حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ماضی کو غلطیوں سے کتنا سبق سیکھا جاتا ہے۔ ناراض کارکنوں کو منانے اور پارٹی میں جان ڈالنے کے لئے ایک فعال ’صوبائی شعبۂ نشرواشاعت‘ ازحد ضروری ہے‘ اگر پیپلزپارٹی قانون ساز اسمبلی میں خاطرخواہ حزب اختلاف کا کردار ادا نہیں کرسکتی اور ایوان کے باہر مظاہرے کرنے کی افرادی قوت بھی نہیں رکھتی تو کم سے کم ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کی پیالی میں تو طوفان برپا کر سکتی ہے!
No comments:
Post a Comment